آپ مانیں یا نہ مانیں ۔۔حسین حیدر

 یہ میرے پاکستان میں قیام کے  پچیس دنوں کے مشاہدات ہیں اُن کی بنیاد پر میں اِس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ پاکستان توانا ہو یا نہ ہو یہ تو دانشور حضرات طے کریں گے مگر میرے حساب سے پاکستانیوں میں بڑی توانائی ہے مثلاً آپ کیپٹن محی الدین احمد ہی کو دیکھ لیں یہ نہ ہوائی نہ بحری بلکہ زمینی جہاز کے کیپٹن ہیں جی آج کل جو لوگ اپنی پرائیویٹ کار کو ٹیکسی کے طور پر چلاتے ہیں انہیں اوبر   والے اور ایسے ہی دوسرے کیپٹن کے معزز لقب سےمخاطب کرتے ہیں تو کیپٹن محی الدین ڈان جیسے بڑے اخبار میں کام کرتے ہیں، نوجوان ہیں کام کے بعد اپنی کار کے ذریعے مسافروں کی خدمت کرتے ہیں اور بچت سے ایم بی اے کرنے کا ارادہ ہے،ایک اور کیپٹن رشید اخترسے دورانِ سفر بات چیت ہوئی ،یہ دبئی میں آٹو پارٹس سیلز مین تھے باپ کے انتقال پراکیلی ماں کی دیکھ بھال کے لئےواپس آئے ،کار خریدی اس طرح ماں کی خدمت کے ساتھ شادی کے پیسے بھی جوڑ رہے ہیں،اٹھارہ سالہ  کیپٹن ولی شاہ ہنزہ سے نئے نئے آئے ہیں، انہیں نہ راستوں کا پتہ ہے نہ زبان صحیح بول پاتے ہیں۔ مامے نے قسطوں پر گاڑی دلوادی سفارش کرکے کیپٹن بنوا دیا ۔رہائش اور کھانا مہیا کر دیا، اِس احسان کے صلے میں  آمدنی ساری خود ہی رکھ لی، بھانجا دن رات کراچی کی چوڑی چکلی تنگ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گاڑی چلا چلا کر خوش ہوتا ہے جیسے اس کی لاٹری نکل آئی ہو، میں نے پوچھا کہ ہنزہ تو لوگ قدرتی مناظر دیکھنے جاتے ہیں اور تم وہاں سے یہاں آئے ہوئے ۔۔ہوتو کہنے لگا کہ قدرتی مناظرسے پیٹ تو نہیں بھرتا جی۔
 آپ کہیں گےکہ صاحب یہ تو جوان لوگ ہیں ان کی توانائی سے کام کر نے کی عمرہے ۔تو عرض ہے کہ مجھ سے زیادہ توکوئی عمر رسیدہ نہیں ہوسکتا، میں اپنے چار ہم جماعتوں سے اپنے پاکستان کے قیام کے دوران ملا  ،ایک کو جب دیکھو اندرونِ سندھ کے دورے پر رہتا ہے، گاؤں گاؤں شمسی توانائی سے گھروں میں ایک بلب، ایک پنکھا، ایک پلگ مہیا کرتا ہے تاکہ ماں باپ آرام سے ٹی وی انجوائےکریں اور بچے کم پیدا کریں اور جو بچے پیدا ہو گئے ہیں وہ بلب کی روشنی میں سکول کام کرسکیں ۔
دوسرا ہم جماعت جو گریڈ 22 سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک تھنک ٹینک ٰکا سربراہ ہے، وہ حکومت کی کمیونیکیشن پالیسی میں مدد کرنے میں لگا ہوا ہے آج پاکستان جس کا موبائل کے استعمال میں دنیا کے دس بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے اسی کی مساعی کا نتیجہ ہے۔
تیسرا انجینرنگ یونیورسٹی میں پروفیسر ہےجہاں وہ پاکستان کی نئی نسل کو ملک کی ٹیکنیکل باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تیار کر رہا ہے صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتا ہے شام کو چھے بجے لوٹتا ہے کبھی کبھی اپنا مغز پچۤی کرکے نو بجے تک کام کرتا ہے۔
  چوتھا الہُدا فاؤنڈیشن کا ایک بڑا مرکز چلا رہا ہے جو اس نے اپنے وسائل سے تعمیر کیا ہے  اور جس کے ذریعے وہ عوام الناس میں دین کی صحیح تشریح کر رہا ہے،
پانچواں بھی ہے جو ان سب پر بھاری ہے وہ شاعر ہوگیا ہے اور شاعری کے ذریعے ان سب کی تفریح کا سامان کرتا ہے۔
اب تفریح کا ذکر نکلا ہے تو ایک عوامی کتاب میلے کا ذکر بھی سُن لیں یہ میلہ ہر سال کراچی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں لگتا ہے پچھلے سال اس میں دو لاکھ لوگ شامل ہوئے ،اس سال اڑھائی لاکھ کی پیشین گوئی ہے ۔نو ملکوں سے تیس ڈیلیگیٹ اور پاکستان سے سوا سو  سے زیادہ  مقررین  اور شعرا نے 65 پروگراموں میں اپنی تخلیقات پیش کیں، جن میں افتخار عارف، فہمیدہ ریاض، انور مقصود، بشریٰ انصاری ،نیلم احمد بشیر مع باقی دو بہنوں کے اور کینیڈا سے عرفان ستار، شاہدہ حسن، ذکیہ غزل، شامل تھے ۔ان کے علاوہ رشید ندیم اور عظمٰی محمود بھی حاظرین میں نظر آئے ، ساحلِ سمندر پر خوشگوار موسم میں ایک  منظم تقریب کے ڈھائی دن ایسے گذرے کہ یہ لگتا ہی نہ تھا کہ پاکستان کے حالات پریشان کُن ہیں۔ کچھ معترض بھائی شاید کہیں کہ نچلے طبقے کی بات کریں  جی جوبہت بڑی اکثریت میں ہیں اوربمشکل گذارا کرتے ہیں ۔۔تو اِس ضمن میں بھی چند مشاہدے پیش ہیں،
کلفٹن شہر کا ایک اعلی شاپنگ سینٹرہے اس کے بالکل عقب میں پنجاب کالونی کےایک فٹ پاتھ پر روز 12 بجے سے تین بجے تک ایک طویل دسترخوان بچھتا ہے جس پر اُس علاقے کے فقیر فقرا،سڑک صاف کرنے والے، چھابڑی والے ،رکشہ ٹیکسی والےمفت ایک وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں -سنا ہے کہ اس طرح کہ  آتے جاؤ کھاتے جاؤ والے مرکز شہر کے ہر علاقے میں ہیں اس شہر کے مرکز میں میں نے ایک ایسا خیراتی ہسپتال بھی دیکھا جس میں امیر ترین اور غریب ترین سب گردوں کے علاج کے لئے جوق در جوق پاکستان کے ہر کونے سے آتے ہیں، اس میں کوئی پرائیوٹ وارڈ نہیں، پچھلے سال اس ہسپتال میں پندرہ لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ گردوں کی پتھری سے لیکر ڈائی لیسس، اور ٹرانسپلانٹ تک سب مفت،قیام،طعام،دوائیں، انجکشنس سب مفت،یہ دنیا کا واحد ہسپتال ہے جس میں ایک سال میں370  گردے  ٹرانسپلانٹ ہوئے ۔اس ہسپتال کا موٹو ہے کہ ہم کسی کو اس وجہ سے مرنے نہیں دیتے کہ اس میں جینے کی استطاعت نہیں ، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
آخر میں دو کم استطاعت والوں کی جھلک دیکھیں اور مجھے اجازت دیں ۔۔ایک محمد یونس جو برابر والے بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں رہتے ہیں ،ان کی تین بچیاں ہیں  جن کو ایک بزرگ اپنی بوسیدہ سی موٹر سائیکل پر  سکول چھوڑتے اور واپس لاتے ہیں یہ ان بزرگ کا روزگار ہے اور محمد یونس کا جذبہؑ تعلیم نسواں، دوسری بوڑھی بلوچ فقیرنی کا ذکرجو میری رہائش سے تھوڑی دور والے چوراہے پربیٹھی رہتی اور سگنل پر رکی کسی ایک گاڑی کا انتخاب کرتی ہے اور اس کے سامنے جا کر خاموش کھڑی ہو جاتی  ہے،اس کی انکھوں کی مقناطیسی چمک اور بولتے ہوئے  چہرے کے سوال کو میں نے رد ہوتے نہیں دیکھا۔ جس گاڑی کے بھی آگے وہ کھڑی ہو اس کا شیشہ ضرور اترتا  ہے،دس روپے  کا نوٹ ضرور نکلتا ہے، اُس کے جھریوں بھرے چہرے کے حُسن کی طاقت کا یہ تماشہ میں اپنی صبح کی واک پر روز دیکھتا تھا ،میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ وہ وہاں بہت دیر تک نہیں ٹھہرتی ،اب اگر کسی کی روز کی ضرورت پوری ہوجائے اور  اُسے کل پر اعتماد بھی ہو تووہ زیادہ کا لالچ کیوں کرے- جس ملک کے غریب قناعت پسند اور پر اعتماد ہوں،جہاں لوگ ہر سطح پر تعلیم کی اہمیت سمجھتے ہوں ،جہاں کے امیر مخیر، محنتی اور منظم ہوں جہاں ادبِ عالیہ کی محفلوں میں ہر کس و ناکس کو شریک ہونے کی دعوتِ عام ہو، جہاں غریب کی جان اتنی ہی قیمتی سمجھی جاتی  ہو جتنی امیر کی، اُس ملک کے حالات کو میں پریشان کُن نہیں سمجھتا آپ مانیں یا نہ مانیں!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply