نوکری نہ ملنے کی مظلومیت اور خود ترسی۔۔۔۔شاہ برہمن

ہمارے سماج میں لڑکیوں کے اچھے رشنے نہ ملنے کے ساتھ ساتھ اسی شدومد سے کیا جانے والا دوسرا سیاپا نوکری اور خاص طور پر سرکاری نوکری کے نہ ملنے کا ہے.
اکثر نوجوان ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ، عام تعلیم یافتہ ہوں یا نیم خواندہ   ، سب کا یہی رونا ہوتا ہے کہ تعلیم و مہارت حاصل کیے اتنے سال ہوگئے ہیں ، کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں مل رہی ، عمر گزر رہی ہے ، ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے ، سخت پریشانی اور ٹینشن میں رہتے ہیں ، والدین کی امیدوں پر پورے نہیں اتر پا رہے ، وغیرہ وغیرہ

ان سب مسائل کے بارے میں گفتگو کرنے کا ایک عام سطحی انداز اور سطحی حل تو یہ ہے کہ اس سب صورتحال کا حکومت وقت یا نظام کو قصوروار ٹھہرا دیا جائے، حکومت اور حکومتی اہلکاروں و منتخب نمائندوں کو کوسنے دئیے جائیں ، اور حکومت سے مزید سرکاری نوکریاں پیدا کرنے کے مطالبات کیے جائیں اور منتخب نمائندوں کی سفارشیں ڈھونڈی جائیں یا رشوت دیکر نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

یہ حل نہایت سادہ اور فرد کی اپنی نالائقی ، سستی ، انانیت اور خود ترسی کیلئے بہت پرکشش اور ذمہ داری سے فرار کا آسان راستہ فراہم کرتا ہے اور اسی لئے متاثرہ فرد اسی میں مشغول رہتا ہے اور اپنی مظلومیت اور خود ترسی کے خول سے کبھی بھی باہر نہیں آتا۔

اگر واقعی میں ہم اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں اور ایک مستقل اور پائیدار حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس سطحی سوچ اور سطحی حل کی دنیا سے باہر آکر سوچ بچار کرنی ہوگی، سارے مسئلے اور معاملے پر گہرا غوروفکر کرنا ہوگا

بیروزگاری یا نوکری نہ ملنا، اسکی کئی معاشی ، سماجی ، سیاسی اور نظریاتی جہتیں یعنی سمتیں ہیں ، اس مضمون میں ان سب کا احاطہ تو ہرگز ممکن نہیں لیکن پھر بھی کچھ کوشش ہوگی کہ ان جہتوں کی بات کی جائے جن پر جانتے بوجھتے یا نہ جانتے ہوئے بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے

سب سے پہلی اور اہم ترین جہت تو یہ ہے کہ ہم نے کولونیل ازم کے تحت زندگی گزارنے کے دوران اپنی سوچ اور ذہنیت صرف اور صرف ایک نوکری پیشہ فرد یا قوم کی بنا لی ہے ، ہم نے اپنا نظام تعلیم جو آنے والی نسلوں کی تیاری، مستقبل کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل ترقی ،نت نئی ایجادات و کاروبار، معاشی و اقتصادی بڑھوتری و خوشحالی اور ایک مضبوط اور ہم آہنگ قوم کی ضمانت اور بنیاد ہوتا ہے ، اسکو صرف اور صرف نوکری پیشہ افراد کو پیدا کرنے والی ایک گھٹیا اور بھدی مشین تک محدود کر دیا ہے۔

ہم نے اپنا نظام تعلیم اور اس میں طالبعلموں کی ذہنیت کو اس حد تک پست کردیا ہے کہ ہمارے بہترین اذہان کی معراج تعلیم مکمل کرنے کے بعد صرف اور صرف نوکری پیشہ ہونا ہوتا ہے ، آپ ملک کے بہترین میڈیکل کے اداروں، انجنیئرنگ کے اداروں یا آئی ٹی کے اداروں میں تعلیم حاصل کرتے نوجوانوں سے یہ سوال پوچھ لیں کہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد کیا کریں گے تو ٩٩ فیصد کا جواب آپکو یہ ملے گا کہ وہ نوکری ڈھونڈیں گے ، آپکو ان میں سے شاید ہی کوئی طالبعلم ملے جو یہ کہے کہ وہ اپنا کاروبار شروع کرے گا ، وہ کوئی نئی ایجاد پر کام کرے گا ، وہ کوئی نئی دوائی بنانے کی کوشش کرے گا ، وہ انٹرپرینیور بنے گا ، وہ کاروبار یا کسی نئے معاشی یا اقتصادی ماڈل پر کام کرے گا ، وہ ملک میں کسی نئی پراڈکٹ کو لانچ کرے گا یا مارکیٹ میں موجود کسی گیپ کا فائدہ اٹھا کر کوئی نئے تجارتی مواقع پیدا کرے گا۔

مرے پر سو درے، نظام تعلیم ایک انتہائی پست اور گھٹیا قسم کا احساس تکبر یا نخوت بھی پیدا کرتا ہے جس میں نوکری کرنا کسی کاروبار کرنے سے سماجی طور پر اچھا سمجھا جاتا ہے اور کسی کاروبار کو اسکے معاشی و اقتصادی فوائد کی بجائے اسکے صدیوں پرانے فرسودہ و گھٹیا سماجی پیمانوں سے ماپنے کی کوشش کی جاتی ہے ، نا صرف یہ بلکہ بیکار یا بیروزگار پھرنا کسی کاروبار کرنے سے بہتر سمجھا جاتا ہے اور اس طرح کے فقرے عام سننے کو ملتے ہیں کہ ماسٹر کرنے کے بعد کیا میں یہ کام کروں وغیرہ وغیرہ۔۔

نظام تعلیم سے ہی جڑا ایک اور پہلو جس پر ہم غور کرنے کا تکلف نہیں کرتے وہ تعلیم میں تخصیص یعنی سپیشلائزیشن کی بجائے تعلیم کی عمومیت یعنی جنریلٹی ہے ، ہمارا نظام تعلیم تھوک کے حساب سے ان مضامین کی تعلیم دیتا ہے جن کا عام زندگی میں کسی خاص مہارت یا تحقیق سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا اور کئی صورتوں میں تو سائنس کے مضامین کی تعلیم بھی ایسے دی جاتی ہے کہ اس سے طالبعلموں کو کوئی خاص مہارت یا تحقیقی سوچ نہیں ملتی ، حالات اس حد تک بگڑے ہوئے ہیں کہ کسی زبان میں ماسٹر کرنے کا مطلب اس زبان کے چند شعراء یا ادیبوں کی تحاریر سے واقفیت یا ان پر تنقیدی مضامین لکھ مارنے کی قابلیت حاصل کرنا ہے نہ کہ زبان کی ساخت ، اس میں تاریخی و سماجی تبدیلیوں کا علم ، الفاظ کا نت نیا استعمال و بڑھاؤ ، انسانی ذہن و شعور کی بڑھوتری میں زبان کا کردار ، سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، سیکولر ، لبرل و الحادی نظریات کے وجود اور بڑھوتری میں زبان کا کردار ، کسی خاص تحریر یا تقریر کے معاشرے کی کایا پلٹ دینے کی اہمیت وغیرہ وغیرہ۔

سائنسی و غیر سائنسی عمومی تعلیم حاصل کردہ نوجوانوں کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ اگر انکو براہ راست ڈپٹی کمشنر نہیں لگا سکتے تو انہیں کم از کم کسی سکول یا کالج میں استاد کی نوکری ضرور دی جائے . یہ ایک ایسا مضحکہ خیز اور آنے والی نسلوں پر ظلم کا مطالبہ ہے کہ خدا کی پناہ . کسی مضمون میں محض ماسٹر ڈگری کا حصول ، استاد بننے کا لائسنس نہیں ہے، استاد بننے کیلئے کسی شخص میں تعلیم سے شدید شغف، نفسیاتی و جذباتی توازن، تعلیم دینے کی صلاحیت، صبر، تحمل، طالب علم کے پوٹینشل کو جاننے کی صلاحیت اور کسی بھی معاملے میں اسکی تعلیمی ضروریات کو  اہمیت  دینے کی ضرورت سے واقفیت اشد ضروری ہوتی ہے ، نظام تعلیم سے وابستہ ہمارے کتنے اساتذہ ان سب سے واقف ہیں ، نظام تعلیم کے پیدا کردہ نوجوانوں سے آپ اسکا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ہمارے لوگ امریکی، یورپی ،جاپانی، چینی  کامیاب لوگوں کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے اور انکا تقابل کرتے اپنے آپکو پیٹتے اور کوستے رہتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا، کبھی سوچا ، کبھی تحقیق کی کہ ان میں کتنے لوگ ہیں جو نوکری پیشہ تھے یا ہیں، کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی کاروباری سلطنت کا آغاز ایک معمولی سی دوکان یا ٹھیلے سے کیا یا اپنے کاروبار کا آغاز لوگوں کے گھر گھر پھر کر کیا؟

اگر ترکی جیسے ملک میں کوئی کاروباری شخص ، لسی کی مارکٹنگ کرکے اسکو عالمی سطح پر ایکسپورٹ کرسکتا ہے تو ہم میں سے کسی کو یہ خیال کیوں نہ آسکا کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم نے اپنے آپکو محض نوکری پیشہ ہونے تک محدود کیا ہوا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لئے سب سے پہلے تو تعلیم کیلئے درست مضامین کا انتخاب کیجئے اور ان مضامین میں امتیاز، فضیلت اور مہارت حاصل کریں اور اسکے بعد نوکری نہ ملنے کی خود ساختہ مظلومیت و خود ترسی کے شکنجے و خول سے باہر نکلیں ، اپنی ذہنیت و سوچ کو نوکری پیشہ ہونے سے بلند کریں  ، تعلیم کو نوکری کا زینہ سمجھنے کی بجائے اسکو شعور و ذہنی استعداد و مہارت میں اضافے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو چھوٹے موٹے کاروبار کی طرف منتقل کریں، اس میں محنت و معیار کو شامل کریں اور آپ خود دیکھیں گے کہ چند سال بعد آپ لوگوں کو نوکری دینے والے ہونگے نہ کہ نوکری ڈھونڈنے والے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply