• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • صالحیت اور صلاحیت کے ضابطے اورمیاں نواز شریف کی نا اہلی۔۔زاہد محمود

صالحیت اور صلاحیت کے ضابطے اورمیاں نواز شریف کی نا اہلی۔۔زاہد محمود

ایک مؤقر اردو روزنامے میں وزیر اعظم پاکستان سے منسوب بیان شائع ہوا ہے، “کیا پوچھ کر قانون بنائیں؟” چیف جسٹس کی طرف سے جواب آیا، “پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے لیکن پارلیمنٹ کے اوپر بھی کوئی چیز ہے، وہ آئین ہے، اورپارلیمنٹ آئین سے متصادم کوئی قانون نہیں بنا سکتی”.
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد نا اہل فرد کی نا اہلی کی مدت کے تعین کی ایک بحث ہے جو مسلسل پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے. کیونکہ یہ ایک کثیر الجہتی مسلۂ ہے جو سیاسی، قانونی، اخلاقی، اور مذہبی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عوامی احساسات و توقعات، ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کی تقسیم اور ان کے دائرہ اختیار کے معاملات، اور سب سے بڑھ کر ریاست کے اندر مذہبی احکام اور پارلیمان سے منظور شدہ قانون کی حیثیت کو اپنے اندر سمو ئے ہوئے  ہے ، اسی لیے اس بحث کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے. اس تحریر کے توسط سے کوئی حل پیش کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس پیچیدہ مسئلے  کی جامیعت کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے  یہ سوال اٹھانا ہے کہ قوانین اور عدالتی فیصلے، آیا مذہبی اخلاقی ضوابط کے اطلاق کے لئے ہوا کرتے ہیں پھر پارلیمانی قوانین کو لاگو کرنے کی  جانب ایک قدم  ہے.
 اس ساری بحث کا تعلق بد عنوانی اور دھوکہ دہی سے ہے جن کی اپنی جڑیں مذہبی اخلاقیات اور قانونی اخلاقیات میں پیوست ہوا کرتی ہیں. ہمارے عمومی معاشرتی مشاہدے کے مطابق ہمارے ہاں دو متضاد طرح کے حاملین اخلاق پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ ان دونوں کے اصول اخلاق بھی اپنے دائرہ کار، حرکیات، اور زمان و مکان میں ایک دوجے کی ضد ہیں.
 پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو دنیاوی آسائشوں اور آسودہ زندگی کے لئے ہر حد تک چلے جانے میں یقین رکھتے ہیں، چاہے اس کے حصول کے لئے چوری، دھوکہ دہی، کرپشن، اور جبر کی داستانیں ہی کیوں نا رقم کرنی پڑیں.
اور دوسری قسم ان انسانوں کی جو پوری عمر محنت مزدوری اور عرق ریزی کرتے ہیں، مفلوک الحالی اور حسرت و یاس ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے، لیکن بد عنوانی اور فریب کاری سے ہمیشہ پرے رہتے ہیں. یہ لوگ اسی دیانت کو متاع حیات سمجھتے ہوئے  اپنے اس اخلاقی ضبط کا ثمر روز حشر اپنے خدا سے وصول کرنے کے متمنی ہوتے ہیں، جو مذہب کے نظریہ کے مطابق حیات بعد از موت سے متعلق ہے.حالانکہ موت ہر دو اخلاقی اصولوں کے نزدیک ایک حقیقت ہے تو پھر ایک طبقہ عیش و عشرت اور دولت ثروت کی زندگی تو دوسرا غربت کی چکی میں ہر روز پستی زندگی کا انتخاب کیوں کر کرتا  ہے؟
موخر الذکر کا جواب ہمیں مذہب  سے  ملتا ہے کہ انسان چوری چکاری اور رشوت ستانی کو گناہ سمجھتے ہوئے  اپنے اخلاقی اصولوں کے تابع اپنے ضبط کا انعام اخروی زندگی میں پانے کے لئے بچا رکھتا ہے. جبکہ اول الذکر اسلوب فکر کے حاملین صرف طبعی اور سیاسی اخلاقیات کے اصولوں پر یقین رکھتے ہوئے  پارلیمان سے منظور شدہ ایک مقدس دستاویز ” آئین” کی اساس سے اٹھے ریاستی قوانین کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں. یہ طبقہ بھی کرپشن کو معیوب سمجھتا ہے اور اسے غیر قانونی اور قابل گرفت جرم گردانتے ہوئے  سزائیں مرتب کرتا ہے.
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ طبقہ فریب کاری کو جرم کیوں سمجھتا ہے؟ جرمن ماہر امور دماغی سائنس فرانز جوزف گال اور انگلستان کے مشہور فلسفی ہربرٹ سپنسر اس کا جواب دیتے ہیں. ان کے نزدیک انسان کا خوف انتقام اس کو چوری کرنے سے روکتا ہے، اس خوف میں مبتلا انسان کا یہ ماننا ہے کہ اگر چوری کو جرم قرارنہ دیا گیا تو کل کلاں کوئی مجھ  سے زیادہ طاقتور اور عیار شخص میری ساری جمع پونجی لے اڑے گا. اس لئے اس کا قانون کے ذریعے راستہ روکا جاتا ہے.
نتیجتاً  قانون وضع کر لئے جاتے ہیں جو کمزور کے لئے استخواں شکن اور طاقتور کے لئے مکڑی کا جالا ثابت ہوتے ہیں. یہ پولیس، عدالت، جیل یہ سب اسی ڈر اور خوف کی انضباطی شکل ہی ہے.
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان مفاد خویش کے لئے اگر اتنی طاقت حاصل کر لے، ایسا بندوبست کر لے کہ اسے خوف انتقام نہ رہے، قانون اسے پکڑ نہ سکے وہ باوجود کرپشن اور غلط کاریوں کے  ایماندار بھی ٹھہرتا ہے اور معتبر بھی.
 گنجھل یہیں پہنچ کر آتی ہے. پاکستان میں اکثریت مذہبی اور قدامت پرست افراد پر مشتمل ہے جو اپنے سیاستدانوں کو صالحیت کی عینک سے دیکھتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ وہ مذ ہب کے اخلاقی اصول کی تصویر نظر آئیں. لیکن طاقتورحکمران طبقہ اپنی صلاحیت سے جسٹس قیوم برانڈ کے عدالتی بندوبست سے عوام کی نظروں میں سرخرو ٹھہرتا تھا.
 سیاستدانوں نے آئین پاکستان (سیاسی دستاویز) میں ٦٢، ٦٣ کی (مذہبی تشریح والی) شقوں کو دستاویز کا حصہ رکھ کر(متعارف جس نے بھی کروایا ہو، بعد میں آنے والے جمہور پسند بھی سیاسی مخالفین کے خلاف اپنے مفادات کے  لئے ان شقوں کو آئین کا حصہ بنائے  رکھنے پر مصر رہے) نا ہی مکمل مغربی طرز کا پارلیمانی نظام بنایا اورنا ہی مذ ہب سے ہم آہنگ کوئی ضابطہ قوانین. عدلیہ اس سیاسی دستاویز کی مذہبی تشریح کے زیر اثر سیاستدانوں کے طرز عمل کو صالحیت کے پیمانوں پر پرکھتے ہوئے  انہیں نا اہل قرار دیتی ہے تو رد عمل میں سیاستدان براستہ پارلیمان اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے  اپنے آپ کو راسخ العقیدہ، پارسا، اور دیانتدار ثابت کروا کر حق حکومت حاصل کر لیتے ہیں.
صالحیت اور صلاحیت نے طاقت کے دو مراکز (ملٹری اور سیاسی حکومت) کے درمیان حصول طاقت کے لئے ہمہ وقت جاری کشمکش کی صرف نمائندگی ہی کی ہے. تاریخ پاکستان شاہد ہے صلاحیت کا کیمپ ہمیشہ کمزور رہا کیوں کہ سیاستدان امیر المومنین بننے کی خواہشیں لئے صالحیت کے پیچھے چھپتے دکھائی دیتے ہیں. صالحیت کی تلوار میں کاٹ بہت ہے کیوں کہ سیاستدانوں کی ترجیحات میں عام آدمی کی پسماندگی کو ترقی میں بدلنا آج سے پہلے کبھی رہا ہی نہیں. آج کی پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت، اپنے داغدار ماضی کا بوجھ اٹھا ۓ، پانامہ کے ہنگام جمہوریت کا بپتسمہ لے کر ووٹ کے تقدس کی بات کرتی دکھائی دیتی ہے.  لیکن شاید  دیر ہو چکی ہے. ووٹ واقعی اگرعوامی تقدیریں بدلتے ہیں تو پہلے عوام  کی طاقت پہ یقین رکھنا ضروری ہے، تقدس کا احساس تو ووٹ کی تبدیلی لانے کی صلاحیت میں یقین سے مشروط ہوا کرتا ہے.
 مقام صد افسوس، پاکستانی سماج ابھی تک یہ طے ہی نہیں کر پایا ہے کہ کس نظام کی پیروی کرنی ہے، کون سا قانون لاگو کرنا ہے، اور انصاف کے پیمانے کیا ہوں گے؟ لیکن مشاہدہ ہے کہ انصاف کی فراہمی، ذمہ داری کے تعین، اور احتساب کے مربوط نظام کی غیر موجودگی میں بد عنوان عناصر کو معاشرے میں قائم طاقت اور سیاست کے استحصالی ڈھانچے کی ڈھال کی بدولت قانون سے مدافعت ملتی رہتی ہے اور دوسری جانب مجبور و بے بسی کی تصویر بنے عوام آخرت پر  تکیہ کیے بیٹھے رہتے ہیں۔

Facebook Comments

زاہد محمود زاہد
مصنف نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم ہیں. پاک افغان تعلقات، مذهبی انتہا پسندی، پولیٹیکل اسلام، فرقه واریت،اور امریکه،چین، روس، اور پاکستان کی خارجہ پالیسی ان کی تحقیق کے محور ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply