سوشل میڈیا کا فساد۔۔رعایت اللہ فاروقی

فیس بک پر اکاؤنٹ تو دس سال قبل ہی بنا لیا تھا لیکن پانچ سال تک اس کا کوئی باقاعدہ استعمال نہ کیا تھا، کبھی دو چار ہفتوں تو کبھی دو چار مہینوں میں ایک آدھ بار لاگ اِن ہو کر کچھ ٹائم پاس کر لیتا۔ اس ٹائم پاس کے دوران یہ بات نوٹ کی کہ اس کا ماحول اچانک تیزی سے خراب ہونے لگا ہے۔ آغاز اس کا تب ہوا جب سیاسی جماعتوں نے فیس بک پر پیجز بنا کر مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی بگڑیاں اچھالنی شروع کردیں۔ گرافک ڈیزائننگ کا سہارا لے کر قومی رہنماؤں کی تصاویر فوٹو شاپ کی جاتیں اور ان پر حیا سوز فقرے لکھ دیئے جاتے۔ یہ معاملہ اس حد تک گیا کہ عمران خان، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، طاہر القادری، آصف زرداری، شیخ رشید، چوہدری شجاعت اور سراج الحق سمیت کئی رہنماؤں کے چہرے فحش تصاویر پر بھی چپکا دئیے گئے۔ اگلے مرحلے میں ایسے پیجز سامنے آنے شروع ہوگئے جن کا ٹائٹل دفاعی اداروں کا تھا، ان پیجز پر ایک پوسٹ ٹینک یا طیارے کی ہوتی تو دوسری ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت یا اس کی حریف جماعت کی مخالفت کی ہوتی۔ یہ سب کچھ ان پیجز سے بڑی تعداد میں شیئر بھی ہوتا جس سے رفتہ رفتہ فیس بک کا پورا ماحول تباہ ہوتا چلا گیا اور یہ ایک نہایت غیر سنجیدہ اور اخلاق باختہ فورم بنتا چلا گیا۔

معاملہ صرف سیاسی غلاظت تک ہی محدود نہ رہا بلکہ دینی ذہن رکھنے والے نوجوانوں کو بھی یہ سب دیکھ کر ’’دین کی خدمت‘‘ کے نئے آئیڈیے سوجھے۔ ہر مسلک کے پیرو کار اس میدان میں اترے اور فرقہ واریت کی دکانیں کھول کر بیٹھ گئے۔ کوئی ایک بھی معروف مسلک ایسا نہیں جس کے پیروکاروں نے اپنے فیس بک اکاؤٹس اور پیجز سے مخالف مسلک کی پگڑی نہ اچھالی ہو اور کوئی ایک بھی مسلک ایسا نہیں جس کی پگڑی نہ اچھلی ہو۔ بات پگڑی تک بھی رہ جاتی تو غنیمت ہوتا لیکن اگلے مرحلے میں وہی فتوے بازی بھی شروع ہوگئی جو اس سے قبل منبر و محراب یا دینی لٹریچر کے ذریعے نظر آتی۔ اسی موقع کو غنیمت جان کر ملحد بھی سرگرم ہوئے اور پھر سب نے دیکھا کہ توہین رسالت جیسی سنگین جسارتیں بھی شروع ہوگئیں۔ ان ملحدین نے دینی ذہن کے ناپختہ افراد کو مزید مہمیز دی اور وہ مزید شعلہ باری پر اتر آئے۔ یہ ایک ایسا خطرناک رجحان ہے جو کسی بھی وقت معاشرتی سطح پر تباہی مچانے کی طاقت رکھتا ہے، چنانچہ مشعال کیس کی مثال سامنے ہے۔ اس سنگین واقعے کی بنیاد فیس بک پر ہی پڑی۔

اس صورتحال میں دو سطح پر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت تھی۔ ایک معاشرتی سطح پر اور دوسرا حکومتی سطح پر۔ معاشرتی سطح پر یہ کہ سنجیدہ اہل علم فیس بک پر آتے اور اپنی مثبت تحریروں کے ذریعے نوجوان نسل کا رخ علم اور سنجیدگی کی جانب موڑ کر انہیں مثبت راہ پر ڈالتے۔ یہ اقدام بھرپور نہ سہی مگر کافی حد اٹھایا بھی گیا۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، ڈاکٹر محمد مشتاق ، محمد دین جوہر، زاہد مغل اور سید متین احمد شاہ جیسے شاندار اصحاب علم اس کی نمایاں مثالیں ہیں ورنہ ایسے حضرات درجنوں میں ہیں جو اس غلیظ ماحول میں اترے اور علم و آگہی کے دیے روشن کرنے شروع کئے۔ ان دیوں نے روشنی پھیلانی شروع کی تو ماحول پر اس کے شاندار اثرات بھی مرتب ہونے لگے۔

میں ایسے درجنوں نوجوانوں کو جانتا ہوں جو دو چار سال قبل نفرت اور تشتت و افتراق کے پرچارک تھے لیکن ان اصحاب علم کی محنت سے آج ان کی وال خیر کا منبع بن چکی۔ اب وہ نفرت نہیں محبت کا درس دیتے ہیں، فتوی لگا کر کسی کو دین سے بیزار نہیں کرتے بلکہ محبت بانٹ کر اپنے اخلاق سے دوسروں کو دین سے جوڑے رکھنے کی محنت کرتے ہیں۔ اگر کوئی دین کے متشدد ٹھیکیداروں کی حرکتوں سے بیزار ہوکر دین سے ہی دور ہونے کی بات کر لیتا ہے تو یہ اصحاب علم جلدی سے اسے جادو کی جھپی ڈال کر سنبھال لیتے ہیں، اسے حوصلہ دیتے ہیں اور اس کی ناراضگی ختم کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی کئی افراد کو جانتا ہوں جو متشدد اہل دین کے رویوں سے ناراض ہوکر بغاوت پر اتر آئے تھے لیکن جب اصحاب خیر نے انہیں پیار اور محبت سے نوازا تو ان کی ناراضگی ختم ہوگئی۔ کئی ایسے دوست بھی ہیں جو تشکیک کا شکار تھے اور اس کا اظہار بھی سوالات کی صورت کرتے۔ انہیں بھی فیس بک پر موجود ڈاکٹر عاصم اللہ بخش جیسے بزرگوں نے سنبھالا اور ان کا دامن تشکیک کے کانٹوں سے آزاد کرایا۔ غرضیکہ معاشرے کی جانب سے فیس بک پر جس مثبت کردار کی ضرورت تھی وہ بڑی حد تک ادا ہو رہا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو سرکش ہوتے ہیں، جن کا مقصد خیر ہوتا ہی نہیں اور جو منصوبہ بندی کے تحت فساد پھیلا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا علاج اصحاب خیر نہیں بلکہ قانون کے پاس ہوتا ہے۔

سرکشوں سے نمٹنے کی واحد صورت قانون کا ڈنڈا ہے۔ جب قانون موجود ہے کہ ’’ہیٹ لٹریچر‘‘ شائع کرنے اور پھیلانے کی اجازت نہ ہوگی تو پھر فیس بک پوسٹوں کی صورت یومیہ ہزاروں صفحات کے ہیٹ لٹریچر کے خلاف یہ حرکت میں کیوں نہیں آتا ؟ جب سائبر قوانین بھی موجود ہیں اور ان کے نفاذ کے لئے ادارہ بھی قائم ہے تو یہ ادارہ خاموش تماشائی کیوں بنا ہوا ہے ؟ یہ صرف مالیاتی فراڈ یا خواتین کو بلیک میل کرنے جیسے معاملات پر ہی کیوں فوکس کرکے بیٹھا ہے ؟ کیا سرکار اور اس کے ادارے کسی ایسے نفرت انگیز سانحے کے منتظر ہیں جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے بیٹھے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی چار روز قبل ہی فوج نے مختلف دفاعی اداروں کے نام سے چلنے والے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور پیجز کی فہرست ایف آئی اے کو دی ہے تاکہ ان کے خلاف اقدامات کئے جا سکیں، اس سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے۔ فوج اپنے اداروں کے نام سے متحرک جعلی اکاؤنٹس کی روک تھام ہی کر سکتی ہے۔ نفرت کے دیگر پرچارکوں کے خلاف حرکت میں آنا سویلین اداروں کا ہی کام ہے۔ ان اداروں کو یہ کردار ادا کرنا چاہئے اور اگر ان میں ہمت نہیں تو پھر قانون سازی ذریعے اس معاملے کو رد الفساد کا حصہ بنا کر فوج کے سپرد کردیا جائے جس کی گنجائش یوں بھی موجود ہے کہ جس فساد کو ختم کرنے کے لئے ملک کے طول عرض میں آپریشن ہو رہا ہے اسی فساد کا پرچار سوشل میڈیا سے بدستور جاری و ساری ہو تو فساد کے جراثیم تو باقی رہیں گے۔ لکھ رکھئے کہ سوشل میڈیا کا فساد ختم کئے بغیر ملک سے فساد ختم نہیں ہوسکتا !

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply