چھوٹے بھائیوں کے نام ۔۔۔گل نوخیز اختر

میں نے1995ء میں ایک تنظیم بنائی تھی جس کانام تھا’’چھوٹا بھائی ایسوسی ایشن‘‘۔اس تنظیم میں ہر اُسے چھوٹے بھائی کو شامل ہونا تھا جو بڑے بھائی کے ہاتھوں ذلیل ہورہا تھا‘لیکن چونکہ Usaid نے میرے منصوبے کو فنڈز فراہم نہیں کیے لہذا دو ہفتوں کے اندر اندر جیسے ہی مالک مکان نے چھ ماہ کا کرایہ نہ دینے پرہم چار لڑکوں کو دھکے مار کر گھر سے نکالا۔۔۔ یہ تنظیم فنا ہوگئی ۔ تاہم اب بھی کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں چھوٹے بھائیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاؤں لیکن مسئلہ اب بھی Funding کا ہے ‘ حالانکہ سرمایہ بھی زیادہ نہیں چاہیے‘ ایک دو ارب روپے سے ابتدائی کام شروع کیا جاسکتا ہے۔
بھی چھوٹا بھائی تھا‘ بلکہ ہوں‘ اس لیے اچھی طرح جانتا ہوں کہ اکثریہ بڑے بھائی لوگ ‘ چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔خاندان میں کسی بھی قسم کی شادی بیاہ کے موقع پر بڑے بھائی خود تو بن ٹھن کر کسی ایسی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے عورتوں والی سائیڈ کے ’’ تمبو‘‘ سے مستورات کی جھلک نظرآتی رہتی ہے ‘لیکن چھوٹے بھائی کو حکم صادر فرما دیتے ہیں کہ ’’پپو! جاؤ چیک کرو‘ نائی صحیح دیگ پکا رہا ہے ناں‘‘۔ ایسے بڑے بھائی خود بے شک میٹرک میں چھ چھ سپلیاں لیتے رہے ہوں‘ چھوٹے کوہمیشہ ٹاپ کرنے کا آرڈر دیتے ہیں۔گھر میں کوئی خوبصورت ہمسائی آجائے تو بڑے بھائیوں کی فرعونیت دیکھنے والی ہوتی ہے‘ فوراً چھوٹے بھائی کوبوتل لانے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں‘ چھوٹا بھائی اگرپوچھ بیٹھے کہ ’’بھائی جان! کون سی بوتل لانی ہے؟‘‘ تو گھور کر کہتے ہیں’’جس بوتل کو لانے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگے وہ لے آؤ‘‘۔
اکثربڑے بھائیوں کو ہمیشہ چھوٹے بھائیوں پر شک ہی رہتا ہے’’پپو! یہ تم آج کل اتنے تیار ہوکر کیوں ٹیوشن جاتے ہو؟‘‘ اب پپو بھلا کیا بتائے کہ اُس کے سینے میں بھی دل ہے‘ اُس کا دل بھی چاہتا ہے کہ ٹیوشن والے ماسٹر صاحب کی لڑکی جب پانی کا گلاس لے کر آئے تو وہ مسکرا کر اُس کی طرف دیکھے ۔میرا تجربہ ہے کہ بڑے بھائی اکثر بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن خود کو بہت دانشور سمجھتے ہیں‘ اسی لیے گھر میں جیسے ہی کوئی اہم بات ہونے لگتی ہے‘ تین سو میل دو ر دوسرے کمرے میں بیٹھے ہوئے چھوٹے بھائی کو کڑک کر کہتے ہیں’’پپو۔۔۔ ہم اہم بات کر رہے ہیں‘تم ذرا باہر چلے جاؤ‘ بڑوں کی باتیں نہیں سنتے‘‘۔اِن کی اہم باتیں اکثر کچھ یوں ہوتی ہیں’’ابا جی! میری ایک ایجنٹ سے بات ہوگئی ہے‘ وہ ملائشیاء بھجوانے کے پانچ لاکھ مانگ رہا ہے‘ کیا خیال ہے یہ گھر نہ بیچ دیں؟؟؟‘‘
میں تو کہتا ہوں چھوٹا بھائی ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ گدھا بن جائے‘ دودھ لانے سے سبزی لانے تک کا ہر کام چھوٹے بھائی کی ہی ذمہ داری سمجھا جاتاہے‘ بڑے بھائی خودتو ’’جلیبی بائی‘‘ بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن چھوٹا اگر ’’پوپائے دا سیلر مین‘‘ بھی دیکھ رہا ہو تو آنکھیں نکال کر کہتے ہیں’’بند کرو اِسے‘‘۔بڑے بھائیوں کو اُس وقت دِلی سکون ملتا ہے جب پپوکچھا پہن کر ‘ ہاتھ میں پانی والا پائپ پکڑے اُن کی موٹر سائیکل کو ’’تاری‘‘ لگوائے۔یہ اپنی موٹر سائیکل واش کرانے کے علاوہ پپو کو اُسے ہاتھ تک نہیں لگانے دیتے۔یہ جب بھی نئی پینٹ خریدتے ہیں ‘ پرانی چھوٹے بھائی کو گفٹ کر دیتے ہیں اور یہ تک نہیں بتاتے کہ اِس کی جیب اندر سے پھٹی ہوئی ہے‘ وہ تو بیچارے چھوٹے کو تب پتا چلتاہے جب وہ ’’رسیلی سپاری‘‘ پینٹ کی جیب میں ڈالتا ہے اور سپاری کے دانے پائنچوں سے نکلنے لگتے ہیں۔
بڑے بھائیوں کو غصہ دکھانے کا بھی بہت شوق ہوتاہے اور اس کا بہترین اظہار وہ چھوٹے بھائی پر کرتے ہیں۔چھوٹا بھائی غلطی سے ان کا پرفیوم یا شیمپو بھی استعمال کرلے تواُسی وقت کان پکڑوادیتے ہیں۔یہ اتنے چالاک ہوتے ہیں کہ چھوٹے بھائی جتنی مرضی احتیاط کرلیں اِن کو سب پتا چل جاتاہے کہ اِن کے بٹوے میں سے 10 روپے کم ہوگئے ہیں۔یہ جب بھی ٹی وی پر کوئی ذہین بچہ دیکھتے ہیں‘ فوراً چھوٹے بھائی پر طنز کرنے لگتے ہیں’’دیکھو پپو۔۔۔یہ ہوتے ہیں ذہین بچے‘ اور ایک تم ہو کہ ساتویں کلاس میں پہنچ گئے ہو اور منہ تک نہیں دھونا آیا۔‘‘ اور پپو دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے کہ ’’شالا چھوٹا بھائی کوئی نہ تھیوے۔۔۔!!!‘‘
بڑے بھائی ہمیشہ اپنی چیزیں الماری میں لاک لگا کر رکھتے ہیں‘ اُنہیں چور سے زیادہ چھوٹے بھائی سے خطرہ ہوتاہے‘یہ کبھی کبھی چھوٹے بھائی کو سیر کروانے بھی لے جاتے ہیں ‘لیکن پارک میں جاکر چھوٹے کو دہی بھلے والوں کے پاس بٹھا کر خود دوسری طرف کسی دوشیزہ کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے مستقبل کے منصوبے بنانے لگتے ہیں۔یہ خود تو پانچویں کلاس سے ہی شیو کرنے لگتے ہیں‘ لیکن چھوٹا بھائی میٹرک میں بھی پہنچ جائے تو اُسے ڈراتے رہتے ہیں’’پپو! ابھی شیو مت شروع کرنا‘ بہت سخت بال آجائیں گے۔‘‘بڑے بھائیوں کو سارے شوق چھوٹوں والے ہوتے ہیں لیکن کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتے ‘ وہ تو کبھی کبھار چھوٹا بھائی دروازے کی درز سے جھانک کردیکھ لے تو پتا چلتا ہے کہ بڑے بھائی صاحب فارغ بیٹھے اپنے آپ سے ہی ’’چڑی اُڈی کاں اُڈا‘‘ کھیل رہے ہیں۔
بڑے بھائی اکثر سنجیدہ رہنا پسند کرتے ہیں‘ تاہم ان کی یہ سنجیدگی صرف چھوٹے بھائی کے لیے ہوتی ہے‘ باہر اپنے دوستوں میں یہ اکثر مراثی مشہور ہوتے ہیں ۔یہ والدین کے سامنے بھی خود کو اعلیٰ و ارفع اور چھوٹے بھائی کو دنیا کا فضول ترین انسان ثابت کرتے رہتے ہیں‘ اوررات کو اکثر اباجی کے سامنے آہیں بھرتے ہیں’’ابا جی ! پپو کا کیا بنے گا‘ نہ یہ پڑھتاہے ‘ نہ کسی کی بات مانتا ہے ‘ نہ ٹائم پہ سوتاہے‘‘۔ابا جی بھی اتنے بھولے ہوتے ہیں کہ وہ بھی اِن کی بات پر فوراً ایمان لے آتے ہیں اور پپو کو دیکھتے ہی جوتی اتار لیتے ہیں۔بڑے بھائیوں کو اکثر یہ دعویٰ ہوتاہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی پر کڑی نظر رکھتے ہیں‘ حالانکہ اِن کی کڑی نظر کا یہ حال ہوتاہے کہ پپو اِن کی عدم موجودگی میں ہر دوسرے دن اِن کا موٹر سائیکل لے کر نکل جاتاہے اور یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کھڑے موٹر سائیکل کا پٹرول آخر کم کیوں ہوجاتاہے؟
چھوٹا بھائی صرف اُس وقت تک چھوٹا بھائی رہتا ہے جب تک اُس کی شادی نہیں ہوجاتی‘ شادی کے بعد وہ بھی بڑا بھائی بن جاتاہے ‘ تاہم اُس وقت تک بڑ ے بھائی بزرگ بھائی بن چکے ہوتے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ایک ہی نصیحت کرتے ہیں کہ ’’ہمیشہ اپنے سے چھوٹوں سے پیار کرنا چاہیے‘‘۔‘ ہونا تو یہ چاہیے کہ چھوٹا ‘ چھوٹے پن کا مظاہر ہ کرے اور بڑا‘ بڑے پن کا‘ لیکن ہوتا عموماً اس کے اُلٹ ہے۔دُنیا میں ہر جگہ چھوٹے بھائی پائے جاتے ہیں اور اُن سے سلوک بھی لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتاہے‘ ایک تحقیق کے مطابق دُنیا میں بہت سے ایسے بڑے بھائی بھی ہیں جو اپنے چھوٹے بھائی سے بہت اچھا سلوک کرتے ہیں تاہم ابھی تک پتا نہیں چلا کہ ایسے بڑے بھائی پائے کہاں جاتے ہیں؟؟؟ اگر آپ چھوٹے بھائی ہیں تو دل پر پتھر رکھ کر بڑے بھائیوں کی خدمت کے لیے کمربستہ ہوجائیں کیونکہ اب آپ ہزار کوشش کرلیں آپ بڑے بھائی نہیں بن سکتے۔۔۔یہ ہوتا ہے لیٹ ہونے کا نقصان۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply