میرا دیس۔۔پاکستان!

کچھ لوگ چار کتابیں کیا پڑھ لیتے ہیں ان کے لہجے بدل جاتے ہیں میرا ملک میرا دیس میرا وطن جیسے خوبصورت الفاظ کے بجائے لفظ ریاست کا استعمال تواتر سے ہونے لگتا ہے اور ایک دانشور بھائی آج کل دبئی میں پائے جاتے ہیں لکھتے ہیں کہ میں وطن پرست نہیں ہوں اور نہ ہی وطن پرستی پر یقین رکھتا ہوں حالانکہ وہ محترم پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی بدولت اور وطن عزیز سے حاصل شدہ تعلیمی اسناد کی بدولت دبئی جیسے ملک میں نوکری کر ر ہے ہیں مجھے تو لگتا ہے پاپی پیٹ کے غلاموں کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔۔ او بھائی اگر آپ اتنے ہی اصول پسند ہیں تو بین الاقوامی قوانین کو ٹھکرا دیں اور ہر قسم کی قومی پہچان سے عہدہ برا ہو جائیں۔ ابھی کل کی بات ہے ایک بھائی صاحب جو کہ نئے نئے دانشور بنے ہیں اپنے سٹیٹس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم وہ دن منانے جا رہے ہیں کہ جس دن جو قرارداد پاس کی گئی تھی اس میں پاکستان کا ذکر ہی نہ تھا اور نہ ہی کسی الگ ریاست کا مطالبہ۔۔ لو کر لو گل اس قرارداد کو پڑھ تو لیا ہوتا گوگل بابا سے ہی مدد لیتے کہ وکی پیڈیا اس حوالے سے کیا کہتا ہے اور اگر ایک دن تمام لوگوں کی رضا سے جو اس وقت صاحب اقتدار تھے طے پا گیا ہے اور اسے قومی دن کا درجہ حاصل ہے تو ہمیں اس پہ بھی اعتراض ہے ۔ ایک اور بیماری جو آج کل ہمارے چار بکیوں میں پائی جاتی ہے وہ ہے جناب ہم ٹیک دیتے ہیں تو ملک پہ لازم ہے کہ ہمارے حقوق پورے کرے اور اگر ان کے ٹیکس کا اندازہ لگایا جائے تو وہ بمشکل سالانہ سات آٹھ ہزار بنے گا جو وہ بھی جبراً دے رہے ہوتے ہیں اتنے میں کسی دوسرے ملک پہ ایک کمرے کا فلیٹ کرائے پہ نہیں ملتا اور یہ لوگ وطن عزیز کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے حقوق پورے نہیں ہوتے۔ میرے عزیز ہم وطنو! آج کے دن بس اتنا کہوں گا یہ ہمارا ملک ہے، اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کریں خدانخواسطہ اس پہ کوئی آنچ آئی تو اس کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑے گا جب کوئی قابض آتا ہے تو وہ ہرگز یہ نہیں دیکھتا کون مذہبی شدت پسند ہے اور کون روشن خیال وہ تو بس اتنا جانتا ہے کہ یہ میرا مقبوضہ علاقہ ہے اور وہ آ پکو اور آپکے وسائل کو نوچ ڈالتا ہے نہیں یقین تو فلسطین کی حالت دیکھ لو۔۔ نہیں مانتے تو عراق اور لیبیا کی حالتِ زار پر غور کرو۔۔سنو ان کا نوحہ کہ جب انہوں نے اپنوں سے بے رخی برتی تو آنے والوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

Facebook Comments

محمد رامش جاوىد
پڑھنے لکھنے کا شغف رکھنے والا درویش منش

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply