کامریڈ بھگت سنگھ کے نام خط

کامریڈ بھگت سنگھ کے نام خط
جو میں لکھ نہیں سکتا
مشتاق علی شان
23مارچ کامریڈ بھگت سنگھ، کامریڈ سکھ دیو اور کامریڈ راج گرو کی شہادت کی چھیاسویں یاد کا دن۔ سوچا تھا اس موقع پر کامریڈ بھگت سنگھ کو ایک خط لکھوں گا جس کی ابتدا لال سلام نہیں بلکہ انقلاب زندہ باد کے اس نعرے سے کروں گا جس کی گونج میں وہ تختہ ء دار پر ہنستے ہوئے جھول گئے تھے ۔ وہ قتل، وہ شہادت جس کا جشن برطانوی سامراج کی غلام گردشوں سے لے کروطن فروش خائنوں کے عشرت کدوں اور شاید عدم تشدد کے سب سے بڑے ہندی دیوتا کی کٹیا تک میں منایا گیا ۔وہ بھگت سنگھ جس کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے یہ سدا بہار شعر کہا تھا
وہ بھگت سنگھ جس کے غم میں اب بھی دل ناشاد ہے
اس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے
لیکن آج میں پنجاب کے اس بانکے انقلابی کو خط نہیں لکھ پاؤں گا ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے فرانس کے ایک نراجی شہید ویلاں کے اس قول سے لاجواب کر دے گا کہ’’ بہروں کو سنانے کے لیے دھماکوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘ ویلاں اور اس کا یہ قول جو بھگت سنگھ کو بہت پسند تھا ۔ ایک سفر تھاجو بھگت سنگھ نے باکونن اور ویلاں سے مارکس ولینن تک ،انارکزم سے مارکسزم تک کیا۔وہ بھگت سنگھ جواپنے انقلابی ساتھیوں کے ہمراہ اس قول کو عمل کے میزان پر کھرا ثابت کرنے میں حق بجانب تھا ۔اور اس کے تیس کروڑ ہم وطنوں کی آزادی کا تمسخر اڑانے والے ، ان پر عرصہ حیات تنگ کر دینے والے ،وقتاََ فوقتاََ ان کے لہو سے انہی کی دھرتی کو رنگین کر دینے والے گورے قابضین یہی دھماکوں کی زبان تو سمجھتے تھے ۔غلام ہندوستان کا ایک آزادی پسند بیٹا یہ حق رکھتا تھا کہ اپنے ہم وطنوں کے ایک رہنما لالہ لجپت رائے پر ڈنڈے برسا کر انھیں شہید کر دینے والوں سے انتقام لینے کے لیے 8اپریل 1929کو بیرونی قابضین میں سے ایک کو اپنی گولی کا نشانہ بنا ڈالے ۔اور پھر لاہور کی دیواروں پر اپنے ہاتھ سے تیار کردہ پوسٹر چسپاں کرے جس پر لکھا ہو ’’ ہمیں ایک شخص کو مارنے کا دکھ ہے ۔لیکن یہ شخص ایک ظالم ،قابل نفرت اور غیر منصفانہ نظام کا حصہ تھا اور اسے مارنا ضروری تھا ۔اس شخص کو برطانوی سرکار کے ایک ملازم کی حیثیت سے مارا گیا ہے جو دنیا کی سب سے ظالم سرکار ہے ۔ہاں ہمیں ایک انسان کا خون بہانے کا دکھ ہے لیکن انقلاب کی قربان گاہ کو لہو سے دھونا بھی لازم ہے ۔ہمارا مقصد ایک ایسا انقلاب برپا کرنا ہے جو ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کا استحصال ختم کر دے گا ۔‘‘
سو آج میں بھگت سنگھ کو جو خط لکھنا چاہتا تھا نہ تو خود کو اس کا اہل پاتا ہوں اور نہ یہ حوصلہ رکھتا ہوں ۔کاش میں آج بھگت سنگھ کو لکھ سکتا کہ جس جلیانوالہ باغ کی لہو سے سرخ مٹی کی سوگند کھا کر ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن آرمی کے جانبازوں نے بندوق اٹھائی تھی وہ ان کی پھانسی کے بعد بھی کبھی زمین پر نہیں گری اوراس کی گونج آج بھی منقسم ہندوستان میں جابجا سنائی دیتی ہے۔ اور13اپریل 1919کو جلیانوالہ باغ میں ہزاروں نہتے ہندوستانیوں کے قتل عام کا میلہ سجانے والا گورا قصاب ،پنجاب کا گورنر اوڈ وائر جس نے قاتلوں کے سرغنہ جنرل ڈائر کو تار بھیج کر اس قتل عام کی شاباش دی تھی ،جسے ہندوستان میں مقیم سفید فام نسل پرستوں نے بیس ہزار پاؤنڈز جمع کر کے ایک ایک ایسی جڑاؤ تلوار پیش کی تھی جس پر ’’ پنجاب کا نجات دہندہ‘‘ کندہ تھا ۔اس اوڈوائر کو پنجاب کے انقلابی بیٹوں نے بھلایا نہیں ۔ ہاں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے 21سال اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی شہادت کے 9سال بعد اسی مارچ کی 13تاریخ اور40کے سال میں رام محمد سنگھ آزاد ( ادھم سنگھ) لندن کے کیکسٹن ہال میں اوڈ وائر کے سرِ پُر غرور کو نشانہ بنا کر خود دار پر سرفراز ہو تا ہے ۔
کاش میں پنجاب کے اس انقلابی سپوت کو لکھ پاتا کہ اس کی شہادت سے محض آٹھ سال قبل یہی23مارچ اور 1923کا سال تھا جب میری دھرتی سندھ کے شہر سکھرمیں بھی ایک بھگت سنگھ نے آنکھ کھولی تھی ۔اس کا نام ہیموں کالانی تھا ۔وہ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں سے ،ان کی قربانی سے بے حد متاثر تھااور اکثر یہ گیت گنگنایا کرتا تھا ’’ پھانسی پھنداجھول گیا مستانہ بھگت سنگھ‘‘ اس نوجوان انقلابی نے بھی گورے حاکموں کے خلاف بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے راستے کو اپنایا ۔اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انگریزوں کے خلاف کئی ایک کارروائیاں کیں اور ایک دن سکھر سے برطانوی فوج کا اسلحہ لے کر گزرنے والی ٹرین کی پٹریاں اکھاڑتے ہوا گرفتار ہوا اور مارشل لاء کورٹ سے موت کی سزا پائی ۔ لیکن موت تو انقلابیوں کے لیے نئی زندگی کی نوید ہوتی ہے۔ بے پناہ تشدد کے باوجود انگریز ہیموں کالانی سے اس کے کسی ساتھی کا نام ،ٹھکانہ اگلوانے میں ناکام رہے ۔یوں ہیموں کالانی جو ابھی محض بیس سال کا تھا سکھرڈسٹرکٹ جیل میں21جنوری1943کو ’’ انقلاب زندہ باد ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھگت سنگھ کی طرح پھانسی پھندا جھول گیا ۔
آج میں بھگت سنگھ کو نہیں لکھ پاؤں گا کہ جلیانوالہ باغ سے لے کر قصہ خوانی بازار تک میں وحشت وبربریت کا کھیل کھیلنے والے انگریز حاکموں کو فروری 1946میں ایک بار پھر بمبئی کی سڑکوں پر ’’ انقلاب زندہ باد ‘‘کے اس نعرے کو گونج سنائی دی تھی ۔ اور 22فروری 1946کو بمبئی ٹاؤن ہال کے سامنے ایک بار پھر انگریزوں کی بندوقوں نے نہتے جہازیوں پر آتش وآہن برسایا تھا ۔سرخ پرچم ہاتھ میں لیے گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں اٹک کے گاؤں حضرو کا ایک انقلابی جوان کامریڈ میر داد بھی شامل تھا جو بھگت سنگھ کے انقلابی آدرش کا پرچارک تھا ۔
لیکن میں کامریڈ بھگت سنگھ کو بہت کچھ نہیں بتا سکتا ،میں انھیں کیسے لکھ سکتا ہوں کہ گورے حاکم جاتے جاتے بھی اس کے راوی کے کناروں کو لاکھوں بے گناہ ہندوستانی باشندوں کے خون سے تر کردینے کے براہِ راست ذمہ دار تھے ۔ ان کی’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو ‘‘ کی سامراجی پالیسی کے نتیجے میں ’’آزادی ‘‘ کی شہنائیوں میں ان ہزاروں مجبور عورتوں کی آہیں اور سسکیاں ڈوب گئیں جنھوں نے اس ’’ آزادی‘‘ کی سب سے بھیانک قیمت ادا کی ۔میں بھگت سنگھ کو نہیں بتا سکتا کہ کتنے انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے اور کتنے بچے نیزوں اور کرپانوں پر اچھالے گئے ۔میں
بھگت سنگھ کو کیسے بتاؤں کہ’’آزاد دیش‘‘کے نیتاؤں کی ایماء پر کیسے تلنگانہ کے انقلابیوں کے سروں کو فوجی بوٹوں تلے کچلا گیا ۔کامریڈ رنگا چاری کی طرح اس کے کتنے ہی فکری رفقا کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا ۔
میں کامریڈ بھگت سنگھ کو یہ لکھنے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا کہ 12اگست 1948کو چارسدہ کے بابڑہ میدان میں اس کے سینکڑوں ہم وطنوں پر گولیاں برسا کر ان کے ورثاء سے گولیوں کی قیمت بطور جرمانہ وصول کرنے والا کوئی جنرل ڈائر نہیں بلکہ ایک عبدالقیوم خان تھا ۔میں بھگت سنگھ سے کشمیریوں پر گزرنے والی اس قیامت کا ذکر بھی نہیں کر سکتا جو قبائلی لشکر ترتیب دے کر ان پر ڈھائی گئی ۔میں اسے ایک حریت پسند سر پھرے بلوچ نوروز خان کے بارے میں بھی نہیں بتا سکتا مقدس کتاب کے نام پر جس کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ،اسے پہاڑوں سے اتار کر کوہلوجیل میں مرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کے بیٹوں کو حوالہ دار کیا گیا ۔اور اس قتال کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔
میں کامریڈ بھگت سنگھ کو کیسے بتاؤں کہ ایک جنرل ایوب خان ہوتا تھا ۔ہاں جنرل ڈائر نہیں،جنرل ایوب ۔جس نے بھگت سنگھ کی انقلابی روایات کے امین کامریڈ حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعہ میں دار ورسن کی آزمائشوں سے گزارا ۔ہاں اور پھر ایک اور جنرل ،بنگال کے نہتے عوام، لٹی ہوئی عزتیں پا گزیدہ متورم لاشیں۔ نہیں نہیں قاضی نذرلاسلام کی دھرتی تو بھگت سنگھ کو بہت عزیز تھی تاریکیوں کے ایک نمائندہ جنرل ضیاء الحق کے فوجی عقوبت خانے میں ایک اور انقلابی کامریڈ نذیر عباسی کا قتل ۔انقلابیوں کے کاسہ ء سر میں انہی کا لہو پینے کا خبط تو ضیاء کو افغانستان تک لے گیا۔ اپنے عہد کے اس جنرل ڈائر تمثال سے نبرد آزما بہت سے سرفروش، حمید بلوچ سے لے کر ایاز سموں ،ناصر بلوچ ،ادریس بیگ، عبدالرزاق جھرنا،عثمان غنی اور ادریس طوطی جیسے بے شمار نام ،بے شمار سولیاں ۔اس جنرل کے پیدا کردہ بہت سے مسلح نسل پرست اور مذہبی جنونی گروہ ،تباہی کی ایک المناک داستان ۔
اور اب میں اس موجودہ چلن کے بارے میں بھگت سنگھ کو کیا لکھوں کہ اب کسی شہید کی لاش بھی شناخت نہیں ہوتی،شناخت تو ایک طرف کہ لاش ہی دریافت نہیں ہوتی۔ان کے ناموں سے لوگ ناآشنا ہی رہتے ہیں ۔کبھی کبھار کوئی اجتماعی قبر دریافت ہو تی ہے یا مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں لیکن جبر کی ان نت نئی صورتوں اور حربوں کے بارے میں لب کشائی جرم اور غداری یا پھر جبری گمشدگی ہے ۔
اور پھر میں کامریڈ بھگت سنگھ کو یہ بھی تو نہیں لکھ سکتا کہ سرحد کے اس پار جو دیس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا مدعی ہے وہاں جمہوری ملبوس میں بورژوا آمروں نے ،مذہب کے نام نہاد ٹھیکہ داروں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں ۔میں کیا لکھوں کہ مغربی بنگال کا ایک نکسل باڑی نامی گاؤں ہے جو اب محض ایک گاؤں نہیں بلکہ بھگت سنگھ کی انقلابی میراث سے جڑی علامت ہے ۔ سرخ راہداری کی شکل میں ایک ایسی دنیا جہاں طبقے کی بندوق اور پرچم لہراتے ہیں ۔ اس تحریک کا ایک بانی تھا کامریڈ چارو مجمدار ۔وہ بھی بہروں کو سنانے کے لیے دھماکوں کی ضرورت کا قائل تھا ۔ اسے 28جولائی 1972کو لال بازار (مغربی بنگال)کے عقوبت خانے میں وردی پوش غنڈوں نے عدم کے سفر پر روانہ کیا تھا ۔ہاں گاندھی اور نہرو کی فکری وارث اندرا گاندھی سریکا کولم کا قتلِ عام منظم کرتی ہے ۔وہی سریکا کولم جہاں 300سے زائد دیہاتوں میں کسانوں نے سرخ اقتدار قائم کیا تھا ۔اس کے بعد کبھی آپریشن گرین ہنٹ کا آغاز کیا جاتا ہے تو کبھی سلوا جدوم کے نام سے مسلح لشکر تیار کیے جاتے ہیں ۔میں کامریڈ بھگت سنگھ سے کیسے کہہ سکتا ہوں کہ کامریڈ چارو مجمدار سے لے کر کامریڈ موپالاں لکشمن راؤ کی شہادتوں کے درمیان کتنی سولیاں سجائی گئیں ۔اور آج بھی ہندوا توا کے علم بردار اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔ اس تحریک کے خلاف سارے لبرل بورژوا نقاب پوشوں، ترمیم پسندوں اور دھرم سینکوں نے ایک غیر علانیہ مقدس اتحاد قائم کر رکھا ہے ۔
میں بھگت سنگھ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اس کی جنم بھومی کے حکمران لاہور میں اس چوک کو اس سے موسوم کرنے پر آمادہ نہیں جہاں کبھی اسے پھانسی دی گئی تھی ۔کیوں کہ اس کا نام بھگت سنگھ تھا ۔ بھگت سنگھ جو دھرم کی تفریق سے کہیں اونچا ہے ۔لیکن یہاں شہروں کے نام ایبٹ آباد ، جیک آباد اور جیمس آباد ہوسکتے ہیں لیکن بھگت سنگھ پور نہیں ،کیونکہ اس کا تعلق حکمران انگریز طبقے سے نہیں تھا،وہ ساتھ سمندر پار سے نہیں آیا تھا بلکہ اس کا تعلق اس دھرتی ،یہاں کے محنت کش عوام سے تھا ۔
میں بھگت سنگھ کو خط نہیں لکھ سکتا کہ میری نسل انقلابات کے شکستوں کے دور کی پیداوار ہے اور فی الحال انقلابی فتوحات سے ناآشنا ہے ۔ اس کی موہوم یاداشتوں میں ایک سرخ جنت کے انہدام کی گرد ہے ۔اورکامریڈ نکولائی چاؤ شسکو ، کامریڈالینا چاؤ شسکو اورکامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ جیسے کچھ انقلابی شہیدوں کی لہو رنگ لاشیں ہیں۔ ہاں لیکن یہ نسل تبدیلی اور حرکت کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے ۔یہ اس امر کی قائل ہے کہ لمحہ ء موجود کچھ بھی نہیں ہے ۔تاریخ کا ایک سفر ہے جو جاری ہے اور ایک فتح ہے جو اس سفر میں کہیں منتظر ہے ۔یہ نسل اس میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈال رہی ہے ۔
ہاں لیکن وہ وقت آئے گا جب کوئی فاتح انقلابی بصدِ غرور کامریڈ بھگت سنگھ کو خط لکھے گا کہ ’’ کامریڈ بھگت سنگھ ! ہم نے تمام انقلابی شہیدوں کا،ہرظلم و جبر کا بدلہ لے لیا ہے۔ سرخ پرچم سرافراز ہو چکا ہے اور انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے ۔سرمایہ داری اور سامراجیت کی جہنمی مشین کو، اس کی پیدا کردہ تمام غلاظتوں کو ،نسل پرستی اور مذہبی جنونیت کومکمل طور پر نابود کر دیا گیا ہے ۔محنت کش عوام کا غیض و غضب اور جلال سارے کاشانوں کوبہا لے گیا ہے ۔درانتی اور ہتھوڑے سے مزین سرخ پرچم نے سارے کرہ ارض کو ڈھانپ لیا ہے ۔اب بہروں کو سنانے کے لیے دھماکوں اور انقلاب کی قربان گاہ کو خونی غسل دینے کی ضرورت ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے ۔‘‘

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply