طلباء سیاست یا غنڈہ گردی

چلیے، پہلے تصویر کا ایک رُخ دیکھتے ہیں۔ جامعہ پنجاب میں پختون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پی ایس او) کا ثقافتی میلہ جاری ہے جس میں پختون کلچر کی نمائش کی جا رہی ہے۔ ثقافتی میلے میں ایک پروگرام ہولی منانا بھی شامل ہے، گو کہ ہولی کا پختون کلچر سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے کیونکہ یہ پختونوں کا ثقافتی تہوار نہیں بلکہ ہندوؤں کا ایک مذہبی تہوار ہے۔ ہولی منانے پر پنجاب یونیورسٹی کی مضبوط ترین طلبہ تنظیم اسلامی جمعیتِ طلبہ کو اعتراض ہے اور جمعیت پی ایس او کے ثقافتی میلے میں ہولی منانے کی اجازت نہیں دیتی اور جمعیت پی ایس او کو یہ پیغام بھی بھیجتی ہے کہ اگر آپ ہولی منائیں گے تو گڑبڑ بھی ہو سکتی ہے۔ پی ایس او کا مؤقف ہے کہ یہ اُن کا پروگرام ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ سے پروگرام کی اجازت حاصل کی گئی ہے لہٰذا کوئی اور ٹھیکیدار نہ بنے۔ اِسی قضیے میں جمعیت کے ڈنڈابردار جتھے تقافتی میلے پر چڑھ دوڑتے ہیں اور دے مار ساڑھے چار جو کوئی بھی سامنے آتا ہے اُس کی دُھنائی کر ڈالتے ہیں، سارا پروگرام تہس نہس کر دیتے ہیں اور وہ میدان جہاں تھوڑی دیر قبل ثقافتی رنگ بکھر رہے ہیں، وہی میدان تھوڑی دیر بعد میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے۔
آئیے، اب تصویر کو دوسرے رُخ سے دیکھتے ہیں۔ 23 مارچ یومِ پاکستان کے سلسلے میں جمعیت پنجاب یونیورسٹی میں ہفتہء استحکامِ پاکستان منانے کا اعلان کرتی ہے اور اُسی سلسلے میں اسلامی جمعیتِ طالبات ایک پروگرام کا انعقاد کرتی ہے۔ طالبات کے اِس پروگرام کا شامیانہ بھی پختون ثقافتی میلے سے چند قدم کے فاصلے پر لگایا جاتا ہے۔ طالبات سے مخاطب ہونے کیلیے پنڈال میں مرحوم قاضی حسین احمد کی صاحبزادی، سابقہ رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی واحد خاتون رکن محترمہ سمیحہ راحیل قاضی بھی موجود ہیں، معروف سماجی کارکن فائقہ سلمان بھی طالبات کو لیکچر دینے کیلیے پنڈال میں موجود اور مدعو ہیں کہ اچانک ہاتھوں میں ڈنڈے، بَلے اور ہاکیاں لیے پشتون جوان پنڈال پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس، جو خود پختون کلچر میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، پامال کرتے ہیں اور وہاں موجود خواتین اور طالبات کو دھکے دیتے اور مارتے پیٹتے ہیں جس کے نتیجے میں دو تنظیمیں باہم متصادم ہو جاتی ہیں اور مقدس تعلیمی ادارہ اکھاڑہ بن جاتا ہے۔
فیصلہ کیجیے کہ تصویر کا کونسا رُخ خوبصورت ہے؟ یقیناً آپ بھی یہی کہیں گے کہ دونوں رُخ ہی بگڑے ہوئے ہیں، داغدار اور تاریک۔ ہم میں سے تقریباً سبھی لوگ حادثے کے وقت جامعہ پنجاب میں موجود نہیں تھے کہ اپنی آنکھوں سے واقعہ رُونما ہوتے دیکھ کر کوئی رائے قائم کرتے کہ کِس کا مؤقف درست ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے۔ دستیاب معلومات اور طلبہ سیاست کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی رائے قائم کی جا سکتی ہے اور بدقسمتی سے جامعات میں طلبہ سیاست کا ماضی کچھ خوشگوار کبھی نہیں رہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک طلبہ تنظیم کسی پروگرام کا انعقاد کرتی ہے اور اُس پروگرام پر کسی دوسری طلبہ تنظیم کو اُس کے خلافِ پاکستان یا اسلام ہونے کی وجہ سے اعتراض ہے تو کیا وہ ازخود اُس پروگرام کا اُلٹنے کیلیے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی مجاز ہے یا اُسے باقاعدہ ایک طریقِ کار کے مطابق انتظامیہ کو آگاہ کرنا اور درخواست کرنی چاہیے کہ چونکہ فلاں پروگرام نظریہ پاکستان اور اسلام سے متصادم ہے لہٰذا انتظامیہ اِس کا نوٹس لے؟ اور دوسری طرف جیسا کہ ابتدائی رپورٹ میں بھی کہا گیا اور صوبائی وزیرِ قانون نے بھی کہا تھا کہ یونیورسٹی کے باہر سے کچھ لوگ آئے اور ثقافتی میلے پر حملہ آور ہو گئے تو کیا اُس کے جواب میں ایک طلبہ تنظیم کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ یہ دیکھے بغیر کہ حملہ کرنے والے کون تھے، ساری انسانیت، اخلاقیات اور اپنی پختون روایات کو روندتے ہوئے مخالف تنظیم کی طالبات پر حملہ آور ہو جائے؟ پختون طلبہ تنظیم نے یقیناً پختون روایات پر جو دھبہ لگایا ہے وہ ایک عرصہ مندمل نہیں ہو سکے گا۔
میں پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکا ہوں اور اِس واقعے کے بعد بھی میری رائے مزید پختہ ہوئی ہے کہ جامعات کے اندر تعلیمی، تحقیقی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے بغیر کسی خلل کے فروغ کیلیے سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیز میں انتظامیہ ایسی کسی تنظیم کو اپنے ادارے کی حدود میں پَر مارنے کی اجازت بھی نہیں دیتی، نتیجتاً اُن اداروں کی رینکنگ اُن جامعات سے کہیں اوپر ہے جہاں طلبہ تنظیمیں اپنا اثرورسوخ رکھتی ہیں۔ یہ طلبہ تنظیمیں سرکاری جامعات میں ہی اپنے قدم جماتی ہیں جہاں عام آدمی اپنے بچوں کو پڑھنے بھیجتا ہے جہاں تعلیم اِن تنظیموں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے۔ میرے اِس مؤقف پر بعض احباب جو طلبہ سیاست میں حصہ لیتے ہیں وہ بہت چیں بہ جیں ہوتے ہیں کہ اگر جامعات میں طلبہ سیاست پر پابندی لگ گئی تو ملکی سیاست میں لیڈرشپ کہاں سے آئے گی؟ اُن کے مطابق موجودہ سیاستدانوں کی لاٹ میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اپنی جوانی میں طلبہ سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ دلیل انتہائی بودی محسوس ہوتی ہے۔ میں اُن سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے بتائیں کہ آج ہماری سیاست میں اگر سعد رفیق، احسن اقبال، صدیق الفاروق، رضا ربانی، جہانگیر بدر، بابر اعوان، جاوید ہاشمی اور لیاقت بلوچ نہ بھی ہوتے تو پاکستانی سیاست کونسے بحران کا شکار ہو جاتی؟ اِن کے نہ ہونے سے کونسا جوہری فرق پاکستانی سیاست کو پڑتا؟ البتہ نوابزادہ نصراللہ خان، سید مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، شاہ احمد نورانی، اصغر خان، ولی خان اور مفتی محمود نہ ہوتے تو شاید ماکستانی سیاست میں رواداری اور برداشت نام کی کوئی ایک مثال ڈھونڈنا بھی مشکل ہوتا اور اِن میں سے کونسا لیڈر تھا جو طلبہ سیاست کی نرسریوں میں پروان چڑھا ہو؟ لیکن اُن کی قائم کی ہوئی سیاسی روایات آج بھی روشن مثالیں لگتی ہیں جو آج کے سیاستدانوں میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ اگر طلبہ سیاست کی نرسریاں اسی طرح کے لوگ پیدا کرتی رہیں جو آج جامعات میں مار دھاڑ میں لگے ہوئے ہیں تو مجھے تو پاکستانی سیاست کا مستقبل تاریک ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ طلبہ تنظیمیں کوئی آکسفورڈ یونین تو ہیں نہیں جو کسی سیاسی جماعت کا سٹوڈنٹ وِنگ نہ ہوتے ہوئے بھی عالمی رہنما تیار کرتی ہے۔ جامعات میں تعلیمی ماحول پیدا کرنے اور جامعات کو غنڈہ گردی سے پاک کرنے کیلیے انتہائی ضروری ہے کہ طلبہ تنظیموں کا جامعات میں داخلہ بند کیا جائے۔ طلبہ کی رہنمائی اور ہم نصابی سرگرمیون کیلیے طلبہ کی ایسی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے جن کا تعلق نہ تو کسی سیاسی جماعت سے ہو اور نہ ہی کسی فرقہ پرست تنظیم سے ہو۔ صرف اسی صورت میں جامعات کو اکھاڑہ بننے سے روکا جا سکتا ہے ورنہ ہر کچھ عرصے کے بعد تعلیمی اداروں کا تقدس اِن طلبہ تنظیموں کے ہاتھؤن پامال ہوتا رہے گا۔ اکبر الہ آبادی نے شاید تعلیمی اداروں کے ایسے ہی ماحول کے پیشِ نظر کہا ہوگا کہ
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply