کرپشن کا طبقاتی نظام

پرویز مشرف کی مرہون منت میڈیا کی آزادی سے ایک فائدہ تو ہوا کہ ہم پاکستان میں اندها دهند پائی جانے والی کرپشن کو سرِ عام نہ سہی مگر پهر بهی ایک واشگاف حد تک کرپشن بول سکتے ہیں، ثابت کرسکتے ہیں بلکہ اس سے مکمل اختلاف کرنے کا اختیار بهی رکهتے ہیں بہت سال پہلے تک کوئی بهی عام بندہ کسی سیاست دان کو چور تو کیا چور کو بهی چور نہیں بول سکتا تها مگر میڈیا کی اس قدر آسان رسائی کا یہ فائدہ ہوا کہ آجکل آئے دن شرافت کے لبادوں میں چهپے ہوئے اصل چور بڑے ہی دهڑلے سے بے نقاب کر دئیے جاتے ہیں کاش ہمارے ہاں عدلیہ بهی اتنی ہی آزاد اور لبرل ہوجائے کہ قانون واقعی اندها ہوکے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر غیرجانبدارانہ فیصلے سناسکے قانون کی بالادستی ہر خاص و عام پر یکساں لاگو ہو مگر المیہ یہی ہے کہ سال بهر سے پانامہ کے زمرے میں آنے والے زیرِ اقتدار خاندان کا ابهی تک عوام کچھ بهی نہیں بگاڑ سکے ہیں سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے مگر سیاست کے ساتھ ساتھ ملکی عدلیہ کی ملی بهگت اور کرپشن بهی کهل کر سامنے آگئی ہے مگر ابهی بهی پاکستانی عوام صدیاں پیچھے ہے کیونکہ ابهی انہوں نے صرف کرپشن بولنا ہی سیکها ہے اس کے سدِباب کی راہیں ابهی تک عام آدمی کی سمجھ سے باہر اور پہنچ سے دور ہیں مگر مسئلہ بهی تو عام آدمی کا ہے جو خود بهی کسی نہ کسی زاویے سے اس کرپشن اور اندها دهند نظام کے فروغ کا حصہ ہے اس میں سیاست کے اوپر والے طبقے کا کردار آہم لیکن غیرسیاسی ہے۔
پچهلے دنوں ایک رپورٹ پڑهی جس میں جیل میں کام کرنے والے کم تنخواہ دار ملازمین کے مسائل اور مشکلات پر روشنی ڈالی گئی تهی مضمون کافی تکلیف دہ تها جس میں جیل کے ملازمین کی زبوں حالی کی روداد سنائی گئی تهی اور میں سوچ رہی تهی اگر جیل ملازمین کا یہ حال ہے تو جیل میں رہنے والے قیدیوں کا کیا حال ہوگا انتہائی ابتر درجے کے ایک ایک کوارٹر میں دس سے زائدملازمین کو رہائش جیسی قید سےنوازا جاتا ہے ذاتی صفائی ستھرائی کے فقدان سے لیکر کوارٹر کے گهٹن زدہ رہائشی ماحول ان ملازمین کی زندگیوں، صحت اور نفسیات پرکیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے۔۔یہ بات قابل ِ فکر ہے، رپورٹ کے مطابق ان ملازمین کو ہفتے میں صرف ایک بار چکن جیسی عیاشی سے نوازا جاتاہے جبکہ قیدیوں کو ان سے بہتر کهانا فراہم کیا جاتا ہے۔صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث اکثر ملازمین ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار ہوجاتے ہی اوپر والی پوسٹس پر ترقیاں بهی ہوتی ہیں اور مراعات اور تنخواہیں بهی بڑھتی ہیں لیکن چهوٹی ملازمتوں پر تقرر شدہ غریبوں کی تنخواہوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں جیلوں پہ تعینات یہ ملازمین قیدیوں اور ان سے ملاقات کو آنے والے لواحقین کے ساتھ انتہائی بدسلوکی کا رویہ اختیار کئے رکهتے ہیں قیدیوں کو پورا کهانا بهی نہیں پہنچایا جاتا اور پهر مخالف پارٹیوں سے رشوت پر کسی بهی قسم کے جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ پنجاب پولیس تو اس زمرے میں سب سے آگے ہے خاص طور پر کوٹ لکهپت جیل ملازمین کے حالات سب سے زیادہ ابتر ہیں، اوپرلے طبقے کی نااہلی اور انسانی حقوق کی باہم رسائی کی عدم موجودگی اس طبقے کو کرپشن پر مجبور کرتی ہے اور کچھ لوگ اپنی عادت سے بهی مجبور ہوتے ہیں ابهی پچهلے دنوں دبئی سے پاکستان آتے ہوئے فلائٹ میں عام مسافروں کی طرف سے کچھ ناخوشگوار تجربات کا سامنا ہوا جسے دیکھ کر خیال آیا کہ کرپشن ہماری جڑوں میں اتنی رچ بس گئی ہے کہ ہم غلط اور صحیح میں تمیز کرنے سے بھی قاصر ہوچکے ہیں، جہاز چلتے ہی ٹیک آف کے ٹائم پر بار بار اعلان ہوا کہ اپنے موبائل فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات کو بند کردیں خیر ٹیک آف ہی ماشاءاللہ پونا گهنٹہ تاخیر سے ہوا، بہرحال میں نے اپنے بچوں کو ٹیبلٹس آن نہ کرنے دئیے لیکن دائیں بائیں دیکها تو تمام ہی خواتین و حضرات اپنے اپنے فون پرجو جو کرسکتے تهے کررہے تهے مطلب ہمیں کوئی پرواہ نہیں جتنے مرضی اعلانیے جاری ہوجائیں ہم فون میں سے باہرنہیں نکل سکتے ایک انتہائی رومینٹک اور اس سے بهی زیادہ جاہل جوڑا اپنے بےتکے رومینس میں مصروف ویڈیو بنائے چلا جارہا تها جن کو ائیرہوسٹس نے دهمکی تک دے دی کہ اگر اب فون بند نہ کیا تو کچھ دیر کے لیئے انتظامیہ ان کا فون قبضے میں لے لےگی،اس واضح وارننگ کے باوجود سب کچھ ویسے ہی جاری و ساری رہا۔بہرحال ان کے انہی عجیب و غریب حرکات و سکنات پہ لاحول پڑهتے ہوئے فلائیٹ کا وقت ختم ہوا جیسے ہی لینڈنگ ہوئی ابهی جہاز چل ہی رہا تها کہ کسی بانکے جوان یا بوڑهے نے سگریٹ سلگا دی، میرا تو دماغ تک سلگ گیا کہ جہاز میں وہ بهی چلتے ہوئے جہاز میں سگریٹ نوشی۔ کیا یہ بهی کرپشن نہیں کہ آپ فلائیٹ کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔۔؟
ائیرپورٹس پرتعینات ملازمین کرپشن کے معاملے میں سب سے آگے ہوتے ہیں رشوت کے نام پر مسافروں سے تحفے وصول کرنا، بلاوجہ کی کسٹم ڈیوٹیز لگا کر مسافروں سے پیسے اینٹهنا اور تو اور واش روم کی صفائی ستھرائی پر تعینات خواتین ملازم واش روم پہ پانی مارکر ڈهیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتے ہوئے ڈالرز کی ڈیمانڈ کرتی ہیں، بیچارے مسافر اپنی آخرت سنوارتے ہوئے ان خواتین کے ہاتهوں میں پیسے رکھ جاتے ہیں لیکن اگر ان ملازمین کو مناسب تنخواہیں دی جائیں تو یہ دعاؤں کے نام پر مسافروں کو بلیک میل نہ کریں۔
ہمارے ہاں برائی بهی وہی منظرِ عام پر آتی ہے جو آجکل خبروں میں گرم مرچ مصالحہ لگا کر پیش کی جارہی ہو، ان سامنے کی چیزوں کی آڑ میں ہم سے بہت سے تلخ حقائق چھپا لیئے جاتے ہیں، ایسے حقائق جو ہماری روزمرہ زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں اس پر سے ہماری توجہ ہٹادی جاتی ہے عام عوام کو حکومتی مسائل میں الجهاکر سر عام دهماکہ کروا دیا جاتا ہے، قتل و غارت ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے ہم نےانفرادی مسائل کو مسائل کہنا چهوڑ دیا، ان کو حل کرنے کی طرف بهی ہمارا کوئی رجحان نہیں کیونکہ ہم تو روزمرہ کے مسائل اور ان کے ذریعے ہونے والی کرپشن میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ چهوٹے سے چهوٹا محکمہ اور چهوٹے سے چهوٹا ملازم کرپشن کا عادی ہے رشوت کے ذریعے ہر کام کروایا جاتا ہے ہم لوگ بهی اس سسٹم کے عادی ہوچکے ہیں ہم سٹاف کی نااہلی کی وجہ سے بننے والی لمبی لمبی لائنوں سے ڈرتے ہوئے آسان راہِ تلاش کرتے ہوئے پیسے دے دلا کر اپنا کام کروالیتے ہیں سفارش اور غنڈہ گردی سے دوسروں کا حق مارنا ہمارے نظام میں رچ بس گیا ہے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کہاں کیا غلط ہے غیر محسوس طریقے سے ہم اس کرپشن کا حصہ بنے ہوئے ہیں مگر ہمیں بالکل بهی پتہ نہیں چلتا ہمارے اینکرز ٹی وی پروگرامز میں اعلیٰ درجے کی کرپشن پر بات کرتے ہیں اور نچلے درجے کی کرپشن میں ہم سب خود برابر کے شریک نکلتے ہیں

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply