مذہب اور سائنس کی تقسیم۔۔ عزیر سالار

اکثر لوگ انباکس میں طرح طرح کے سوال کرتے ہیں مخصوص سوال جو تواتر سے کیے جاتے ہیں وہ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ سائنس معراج کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ یا ولادت مسیح یا آمد مہدی کو کیسے ایکسپلین کرتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔

ان سوالوں کا سائنٹفک جواب تو کچھ اور ہے لیکن میں آج آپ کو صرف ایک بنیادی بات سمجھانا چاہوں گا کہ سائنس اور مذہب دونوں کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں کوئی تعلق نہیں کوئی واسطہ نہیں، درحقیقت انسانی نفسیات اور ضروریات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ سائنس اور مذہب دونوں ہی ہمارے لیے ضروری ہیں، انسانوں کی مثال دو متوازی پٹریوں کی سی ہے جن پر دو ریل گاڑیاں ایک ساتھ چل رہیں ہیں ان میں سے ایک ریل گاڑی میں انسانوں کی روحانی خوراک ہے اور دوسری میں جسمانی، جو لوگ سائنس کو مذہب کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہیں وہ سائنس پر بھی ظلم کرتے ہیں اور مذہب کے ساتھ بھی ناانصافی کرتے ہیں، دراصل سائنس مشاہدات اور تجربات کا نام ہے جبکہ مذہب عقیدت، تسلیم و رضا کا، سائنس میں نہ تو عقیدت ہے نہ ہی تسلیم و رضا، جبکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب لیبارٹری میں مشاہدات اور تجربات سے ثابت نہیں کیا جا سکتا-

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس مشکل کو اس طرح آسان کیا جا سکتا ہے کہ جیسے آپ اپنی عبادت گاہ میں نیوٹن کے لاز آف موشن ساتھ نہیں لے جاتے یا وہاں جا کر آئین اسٹائن کی مائنڈ بلوئنگ تھیوریز کا چرچا نہیں کرتے ٹھیک اسی طرح آپ کو اپنے مذہبی عقائد سائنس کی کلاس یا لیبارٹری کے دروازے پر رکھ کر اندر جانا چاہیے- جس طرح نیوٹن کے قوانین اور آئن اسٹائن کے نظریات عبادت گاہ کے باہر چھوڑنے سے معطل نہیں ہو جاتے بلکہ وہاں بھی گریویٹی اور ٹائم سپیس فیبرک موجود رہتی ہے ٹھیک اسی طرح رضا و تسلیم کو لیبارٹری سے باہر چھوڑنے سے اس میں بھی کوئی خلل واقع نہیں ہوگا- لیکن اگر آپ انڈے پر مائکرو سکوپ لگا کر ظہور دجال تلاش کریں گے تو اپنی قوم کو کچھ نہیں دے سکیں گے سوائے مزید پستی، ذلت اور تاریکی کے-

Facebook Comments

Uzair Salar
تعارف کی ضرورت نہیں، نام ہی کافی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply