گستاخ سوشل میڈیا اور ہمارا کردار

کچھ دنوں کی بات ہے فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس کا لب لباب یہ تھا"اگر آپ صبح سو کے اٹھیں اور پتا چلے کہ فیس بک پر پابندی لگ چکی ہے تو آپ کی زبان سے نکلنے والے پہلے الفاظ کیا ہوں گے" سوچا فارغ ہیں تو چلو لوگوں کے تبصرے پڑھتے ہیں ۔ پوسٹ کھولی تو حیرت کی انتہاء نہ رہی ۔ سینکڑوں تبصرے تھے جن میں سے اکثریت کچھ اس طرح کے تبصروں کی تھی "الحمدللہ" "خدایا تیرا شکر ہے";شکر ہے گستاخوں کا اڈہ بند ہوا،وغیرہ وغیرہ
ہم میں بھی منافقت کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ ہم ایک چیز کا روزانہ پندرہ گھنٹے استعمال کرتے ہیں اور سوال آئے اس کے بند ہونے کا تو الحمدللہ کہہ کر اپنے مسلمان ہونے کی مہر ثبت کر کے چلتے بنتے ہیں۔ ان حضرات سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کس بنیاد پر اس کے بند ہونے پہ شکر ادا کر نے کا دعویٰ کر رہے ہیں تو اکثریت کا جواب ہو گا کہ اس پر پائے جانے والے گستاخانہ پیجز کی وجہ سے۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ جب تک آپ کی رسائی ہے تب تک تو ہر وقت اس پر سوار رہو اور اتناحوصلہ نہیں کہ اسے از خود چھوڑ دو اور جیسے ہی اس کے بند ہونے کی خبر ملے الحمدللہ پڑھنے لگ جاؤ۔ کبھی سوچا ہے کہ کوئی شخص جو اپنے والدین سے محبت رکھتا ہو وہ کسی گلی سے گزرے اور وہاں کے اوباش غنڈے اس کے والدین کو گالیاں دیں تو اس کا رد عمل کیا ہو گا؟ کیا وہ انتظار کرے گا کہ کوئی بندہء خدا اٹھے اور اس گلی کے داخلی راستہ کے آگے دیوار کھینچ دے تا وہ اس گلی میں جا ہی نہ سکے اور یوں اسکی دلآزاری کا سلسلہ انجام پذیر ہو اور وہ الحمدللہ پڑھ سکے؟ جی نہیں وہ از خود فیصلہ کرے گا اور اس گلی میں جانا ترک کر دے گا۔
چھوڑیں ہم بھی کس بحث میں پڑ گئے۔ سنا ہے جج صاحب نے سوشل میڈیا پہ پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ اور حکومتی کارندے بھی لبیک کہتے ہوئے اس معاملے میں سرگرم عمل ہیں۔ کسی نے سوچا کہ پابندی لگانی کیوں ناگزیر ہے؟جہاں اسکی اور بہت سی وجوہات ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ اخلاقی طور پر تو کسی میں ہمت نہیں کہ انہیں کہا جا ئے کہ سوشل میڈیا میں یہ یہ خرافات ہیں اس لئے اس کا استعمال بند کر دو تو وہ بند کردیں۔ اس لئے ان سے خود یہ سہولت چھیننا پڑے گی۔
ہم جس معاشرے کے باشندے ہیں اس میں سکھایا ہی یہی جاتا ہے کہ ہم نے اسی وقت کسی کام سے رکنا ہے جب ہم سے اس کے کرنے کی طاقت چھین لی جائے.
اور کوئی عمل اس وقت بجا لانا ہے جب اسکا بجا لانا ہمارے لئے انتہائی ناگزیر ہو.
بچوں کو دیکھا جائے تو وہ اس وقت تک کارٹون دیکھنا بند نہیں کرتے جب تک ہم آگے بڑھ کے ٹیلی ویژن بند نہ کردیں. یا اگر انکی رسائی ٹیب تک ہے تو انکی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے ٹیب چھیننا پڑتا ہے. سننے میں آیا ہے کہ جوان اولاد کو اگر میٹنگ کے لئے گھر میں فوری طور پہ اکٹھا کرنا ہو تو وائی فائی کا سوئچ نکالنا پڑتا ہے.
لال بتی پہ ہم اسی وقت رکتے ہیں جب گاڑی لگنے کا خطرہ ہو یا پھر وارڈن کھڑا ہو.
ذرا سوچیں اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر بھی آپ لال بتی پہ گاڑی روکیں گے؟ اور ہری بتی کا انتظار کریں گے۔

Facebook Comments

محمد شفیق عادل
ذیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا. اور ذیادہ کوشش بھی نہیں کی. بس کبھی آنکھ کھلتی ہے تو قلم پکڑ لیتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply