کینیڈین پاکستانی کمیونٹی کا سیاسی اتار چڑھاؤ

ہم ہر چیز کو ہاتهوں سے یا زبان سے روکنے کی اہلیت نہیں رکهتے کیونکہ بدقسمتی سے ہم ہر چیز کو اپنی مرضی سے کنٹرول نہیں کر سکتے حالانکہ ہمیں جب صاف دکهائی بهی دے رہا ہوتا ہے اور تکلیف بهی ہورہی ہوتی ہے لیکن پهر بهی ہم ان چیزوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے ۔بعض اوقات رواداری میں، شرافت، ہمدردی، لاچارگی بس کچھ بهی کہہ لیں مگر وہ چیزیں ہمارے بس سے باہر ہوتی ہیں پهر جب ہر چیز بس سے باہر ہوجائے تو مجھ جیسے گزارے لائق اہل قلم تنقید کا سہارہ لیتے ہیں مگر یقین جانئے اس بار نہ تو تنقید برائے تنقید ہوگی اور نہ ہی کوئی منفی پہلو زیربحث آئے گا، بلکہ اس بار تنقید ازتکلیف کا مسئلہ لاحق ہوگیا ہے۔ ہم اپنے آپس کےبے شمار اختلافات کے باوجود ملٹی کلچرل کینیڈا میں پاکستانی کمیونٹی کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں ہم بهلے ہی ٹائٹ جینز پہن کے بال بلونڈ کرلیں یا پهر مشکل سے انگریزی بول کے فخریہ پیشکش کے طور پر بتائیں کہ میرے بچے تو اردو سمجهتے تک نہیں یاپهر اپنے نام کے تلفظ کا بیڑہ تک خراب کرلیں پهر بهی ہم دیسی ہی کہلائیں گے ،اور اس سے بڑھ کر پاکستانی اور مندرجہ بالا تفصیلات کسی پرطنز یا تمسخر نہیں بلکہ موجودہ صورتحال کی ہلکی سی عکاسی ہے ۔مطلب یہ کہ مجموعی اور انفرادی حیثیت سے سب لوگ ہمیں پاکستانی ہی سمجهتے ہیں اوراللہ پاکستان اور کینیڈا دونوں کو اپنی امان میں رکهے ۔ہمیں دونوں پر انتہائی فخر ہے اور اس فخر کو برقرار رکهنے میں بہت سارے لوگ دن رات کام کررہے ہیں اور میں ان سب کو بہت زیادہ خراجتحسین پیش کرتی ہو ں،کیونکہ اگر میں خود کو ان کی جگہ رکهوں تو سب کچھ زیرو ہوتا نظر آتا ہے۔ اتنی خدمات، اتنا کام، اتنی یکجہتی چاہے اس سب کے پیچھےمحرکات کچھ بهی ہوں مگر پهربهی بہت سارے لوگ انتهک اور بے لوث کام کرتے نظر آتے ہیں مگر یہی صورتحال جب سیاسی تناظر میں آتی ہے تو یکسر مختلف ہوجاتی ہے ۔
ہماری کینیڈین اور پاکستانی روایات یکسر تبدیل ہوجاتی ہیں ہم سیاست کی اک چهوٹی سی سیٹ کیلئے اپنی بڑی بڑی انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ہم کینیڈا میں رہتے ہوئے پاکستانی سیاست کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں اور یہ بات کسی مخصوص فرد کیلئے نہیں یہ محض ایک مجموعی تناظر ہے جو پچهلے کچھ عرصے سے نظر آرہا ہے جس کا مشاہدہ کمیونٹی کا ہر ممبر کر سکتا ہے اور بہت سارے لوگوں کو احساس بهی ہورہا ہے کہ سیاسی صورتحال کے پس منظر میں بحیثیت کمیونٹی ہم بری طرح ٹوٹ رہے ہیں ۔آپس میں بهی اور دوسری کمیونیٹیز کے سامنے بهی۔چونکہ میں نے شروع میں ہی بولا تها کہ منفی تنقید نہیں ہوگی لہٰذامیں یہ کبهی نہیں کہوں گی کہ دوسری کمیونٹیز ہم سے بہتر ہیں ہماری کمیونٹی اچهی نہیں، ایسا نہیں ہماری کمیونٹی بہت اچهی ہے مگر ان کے پاس دوسرے لوگوں کے مقابلے میں کبهی تعداد کم ہے تو کبهی اسی تعداد میں آپس میں کسی مسئلے پر اتفاق نہیں۔ کہیں سیاسی اعتبار سے ہوم ورک کم ہے اور کہیں سیاسی اور سماجی اقدار کی بہت زیادہ ٹریننگ کی ضرورت۔ ہمیں سیٹ نہیں حاصل کرنی بلکہ بحیثیت کینیڈین پاکستانی اپنی یک جہت نمائندگی قائم کرنی ہے اور اسے برقرار رکهنا ہے ۔سیٹ کا کیا ہے آج ایک کے پاس اور کل دوسرے کے پاس لیکن نمائندگی کو برقرار رکهنے کیلئے محض سیٹ سے بہت اوپر کی سوچ چاہیے۔ خدارا اس کو وزیراعظم کی سیٹ سمجھ کے اس کیلئے نمائندگی کرنے نہ نکل جائیے گا کیونکہ اتنا بهی سیریس ہونا ابهی ہم افورڈ نہیں کرسکتے ابهی تو ہم محض مختلف پارٹیز میں داخلہ جمع کروارہے ہیں وہ بهی میرٹ چیک کئے بغیر ۔
اگر ہم دوسری طرف سکهوں کو بحیثیت کمیونٹی دیکهیں یا سری لنکن یا چائینیز کو ،تو وہ تعداد میں تو زیادہ ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپس میں یک جہتی میں بهی بہت بہتر ہیں حالانکہ اگر دیکها جائے تو ان کی کثیر تعداد ایسی ہے جو لسانی اور تعلیمی مسائل کا شکار ہے پهر کیا بات ہے کہ یہ لوگ نمائندگی میں پهر بهی آگے ہی رہتے ہیں ہمارے لوگ نسبتاً”زیادہ پڑهے لکهے اور ہر لحاظ سے ائڈوانس ہیں “پهر بهی ۔۔۔ہاں پهر بهی کیونکہ ہم اپنا لیول اپنی ہی نظروں میں اتنا بلند کئے ہوئے ہیں کہ سارے میری فوٹو دیکھ کے ہی مجھ سے امپریس ہوجائیں گے یا میرا تعلیمی ریکارڈ چیک کریں گے تو مجھ جیسا/جیسی کہاں ملنا انهیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ شام میں جو دیسی بهائی یا باجی چپ کرکے منہ پهیر کے ہمارے پاس سے گزر جاتے ہیں تو کیا کبهی ہم نے انهیں سلام ہی کیا ہو ؟۔ان سے پوچها ہو کہ عزیزم آپ کمیونٹی کے پروگرامز میں کیوں نظر نہیں آتے یا پهر کسی بہت سادہ نظر آنے والی بہن سے روزمرہ کے مسائل کے بارے میں کچھ پوچها ہو کہ ہم کس طرح سے آپ کی پریشانی یا دکھ درد میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں؟۔
پهر یہ کیسے تصور کرلیں کہ یہ مسائل کے مارے ہوئے افسردہ تهکے چہرے ووٹ ڈالنے کیلئے خود کو تکلیف دیں گے اور دوسری طرف دیکهیں تو وہ لوگ جو کبهی کپڑے بهی پریس نہیں کرتے انگوٹها لگانے پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ووٹ لینے والے ان کے ساتھ ان کے لیول پہ آکے بات کرتے ہیں نہ کہ اپنے لیول سے گردن اکڑاکے۔لوگوں کے مسائل مکمل طور پر حل کرنا کسی کے بهی بس کی بات نہیں مگر مسائل کو سننا ، انهیں متعلقہ پارٹی یا ادارے تک پہنچانا، فریقین سے مکمل رابطے میں رہنا کام تهوڑا مشکل ہے مگر انشاءاللہ اچهے نتائج کا حامل ہوگا ۔
دوسری طرف بات آتی ہے جہاں ایک ہی رائیڈنگ میں اپنے دو امیدوار کهڑے ہوجائیں تو بقول شاعر۔۔حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی،،،، جو پہلے آرام سے تهوڑے چهوٹے سکیل پہ ہارنا تها اب ذرا زیادہ تناسب سے منہ کی کهانی پڑے گی ہم کتنے بدقسمت ہیں یہ بهی نہیں سوچتے یہ جو ہمارے اپنے، جن کو محض ایک سیٹ کیلئے ہم نے کهڈے لائن لگادیا یہ اس سے پہلے ہمارے بہترین دوست تهے مگر بیچارے اپنے ترقی پسند خیالات ہم سے شئیر کر بیٹهے تو بنا کسی نقطہ نظر کے ہم بهی کود پڑے میدان میں ۔بنا سوچے سمجھے کہ جیتے یاہارے بہرحال دونوں صورتوں میں ہمیں کام اکٹهے ہی کرنا ہے۔ تو مندرجہ بالا دوست کبهی دوبارہ اعتماد کرنے کے قابل ہوسکیں گے یا کام کرنے میں وہ خوشگواریت ہی رہے گی کیونکہ یہ پاکستانی سیاست نہیں جہاں عمران خان اپنے کام کررہا ہے اور نواز شریف اپنے،کیونکہ یہاں پہ واقعی کام کرنا پڑتا ہے سیٹ کا مطلب جہاں پاکستان میں اجارہ داری ہے تو کینیڈا میں مکمل ذمہ داری ہے اور دوسری صورت میں دستبرادری بهی ہوسکتی ہے اور ویسے بهی کینیڈا نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے ۔واقعی میں ہماری اوقات سے بڑھ کے، تو ہمیں یہاں کی انسانی روایات کو برقرار رکهنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے اپنی استعداد سے بهی بڑھ کر ۔
ہمیں سیاسی مسائل کو سیاسی حکمت عملی اور سماجی اور انسانی اقدار کے اندر رہ کے حل کرنا ہوگا ۔مثبت تنقید یہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں جو چیزیں دیکهنے اور تجربہ کرنے میں نظر آئی ہیں ان سے سیکها جائے اور ہر طرح کی تنقید کو قبول کر لیا جائے ۔تعمیری تنقید کو جذب کیا جائے اور منفی آراء سے دل چهوٹا کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر ان کمیوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے ۔پبلک پلیٹ فارم پر آکر ہم سر سے لیکر پاوں تک عوام کی نظروں میں ہوتے ہیں۔ ایک بهائی نے تو بول ہی دیا آپ کے نمائندے کے تو کوٹ کا کلر ٹهیک نہیں جواباً۔میں نے بهی ہنس کے بول دیا آپ غور سے دیکهیں تو آپ کو بهی صحیح لگے گا، اور مزے کی بات کہ میں نے تو خود غور سےنہیں دیکها تها۔لہٰذاہم سب کو بہت ہی چهوٹی چهوٹی چیزوں پر غور کی ضرورت ہے اب پلیز اب سب نمائندے اپنے اپنے کوٹ چیک کرنے کےبجائے اپنے سماجی اور انسانی ہمدردی کے کاموں پر غور کریں ۔دل بڑا کریں ایک ایک دروازہ پر دستک دیں مجهے تو یہ کام کرتے بهی اکثر ڈر لگتا ہے کہیں اندر سے سواگت کرنے کیلئے انسانی آواز کی جگہ دوسری آواز ہی نہ نکل آئے کیونکہ اتنے سال کینیڈا میں رہنے کے باوجود بهی کتوں کی طرف میرا ری ایکشن وہی پاکستانی سٹائل کا ہے۔میں لمہ زاہد اور اقرا خالد کی انتهک محنت کو داد دیتی ہوں کہ وہ ہربندے سے بہت انکسارپسندی سے ملتی ہیں ۔کبهی لگتا ہی نہیں وہ ہمارے علاوہ اکثر ٹروڈو سے بهی ملتی ہوں گی اور محترمہ سلمہ تو دروازے کهٹکهٹاکے لوگوں کے مسائل سننے بهی جاتی رہی ہیں اب بهی جاتی ہیں یقیناً، ہمارے باقی سب نمائندگان بهی ایسے ہی بذلہ سنج طبیعت کے مالک ہیں اسی لئے آج اتنی کامیابی سے سیاست جیسی مشکل منزل کی سیڑهیاں چڑھ رہے ہیں ۔ہمیں ان کی روایات کو برقرار رکهنا ہے ہمیں سیاست کےپیچهے توڑپهوڑ جیسے رویے نہیں اپنانے۔ ہمیں جوڑنا ہے تمام کمیونیٹیز کو اور سب سے زیادہ اپنی کمیونٹی کو۔ جو بندہ واقعی سچائی ،ایمانداری، بےلوث خدمت اور کام کے جذبات کے ساتھ آگے آنا چاہتا ہے اس کی ٹانگیں نہ کاٹیں، اس کی مدد کریں اس کے حق میں بولیں ۔اللہ نے آپ کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے ۔آگے بڑهنا سیکهیں لیکن دوسروں کو دهکے دے کے نہیں بلکہ سب کے ساتھ سانجها بهائی چارہ پیدا کرکے۔ ہر فرد ہر ممبر کو یکساں عزت اور اہمیت دے کر کیونکہ چاہے کوئی بڑی گاڑی میں آئے یا چهوٹی میں ،ووٹ تو ایک ہی ڈالے گا۔ لہٰذاچند نقاط کو پیٹنے کی بجائےاپنے نقطہ نظر کو وسیع کریں۔ میں کمیونٹی کے بزرگ اور تجربہ کار افراد سے اپیل کروں گی کہ وہ آگے بڑھ کر نوجوان نسل کی صحیح معنوں میں ٹریننگ کریں ۔چاہے کوئی آپ سے مشورہ کرے یا نہ کرے۔ آپ سب پهر بهی سب کیلئے مشعل راہ بنیں، اور امید ہے کہ میں نے جو لکها اس میں مثبت پہلو زیادہ مل سکیں

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply