محرم الحرام اور مجالس عزا۔۔۔۔سبط حسن گیلانی

میں بنیادی طور پر محرم کو کسی ایک فرقے تک محدود نہیں سمجھتا یہ ایک اجتماعی مسلم المیہ ہے ۔ کربلا مسلم تاریخ کا اہم ترین باب ہے جو اس وقت کی مسلم حکومت کا سیاہ ترین کارنامہ ہے تو اس ظلم و ذیادتی کا شکار ہونے والے اپنے وقت کے عظیم ترین لوگوں کے حوالے سے روشن ترین باب ہے ۔ فرزند رسول ص نے اپنے اور اپنے عزیزوں دوستوں کے بے گناہ خون سے وہ روشن باب لکھا کہ قیامت تک اسلام کو ذندہ رکھے گا ۔ امام حسین ع کا سب سے عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خون سے اسلام و مذہب کے پردے میں چھپے ہوے ریاستی گھناؤنے چہرے کو ساری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ۔ اس کے بعد بہت ساری حکومتوں نے اپنے جبرو استحصال کو مذہبی جواز بخشنا چاہا مگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکے ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ آج بھی ریاستی جبر و استحصال کو مزہبی جواز بخشا جاتا ہے مگر یہ استحصالی قوتیں کامیاب نہیں ہو رہیں ۔ مسلمان خود ہی انہیں چیلنج کرتے ہیں یہ جمہوریت کے پردے میں چھپنے کی کوشش کریں تو ان کے خلاف ووٹ دیتے ہیں ۔ مسلمانوں میں یہ تنقیدی و احتجاجی شعور حسین ابن علی کا بخشا ہوا ہے ۔یہی حقیقی درس کربلا ہے ۔ آج بھی جو مسلمان مزہب کے پردے میں چھپی استحصالی و ریاستی قوتوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں وہ حسین ابن علی کے قافلے کے لوگ ہیں ۔ مجھے ایک سکھ سردار کے لفظ نہیں بھولتے کہ دنیا میں جو انسان بھی حریت پرست ہے ، آزادی اظہار پر یقین رکھتا ہے حسین ع اس کے رہنما ہیں ۔ مسلمانوں کی بدقسمتی دیکھیے کہ اتنے عظیم پیغام کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ شیعہ مسلمانوں کا کام ہے ۔ شیعوں نے بھی اس عظیم پیغام کی روح کو جی بھر کر کچلا ۔ مجھے کہنے دیجئے کہ جس طرح یزیدی افواج نے حسین ابن علی ع کا جسم اطہر کچلا تھا پامال کیا تھا ٹھیک اسی طرح سب نہیں اور عام بھی نہیں مگر نام نہاد شیعہ رہنماؤں نے حسین ابن علی ع کے آ فاقی پیغام حریت و فلسفہ شہادت کو پامال کیا ہے ۔ اپنی مجلسوں کو بدترین فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھایا دوسرے فرقوں پر بے جا تنقید و توہین کا ذریعہ بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ حال ہوا کہ وہاں غیر شیعہ مسلم شریک ہونے سے گھبرانے لگے ۔ زاکرین و واعظین کا ایک طبقہ وجود میں آیا جس نے مجالس حسین ع کو جنس بازار بنا کر رکھ دیا ۔ ایک ایک مجلس کا باقاعدہ بھاؤ تاؤ ہوتا ہے ۔ صف اول کے لوگوں کے لیے یہ اتنا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کہ عام آدمی سنے تو حیران رہ جاے ۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں پچھلے محرم کی ۔ ایک مشہور زاکر نے شمالی پنجاب میں چھ جگہ محرم پڑھا اور ہر جگہ سے پچیس پچیس لاکھ وصول فرمائے ۔ یعنی ڈیڑھ کروڑ روپے ۔ صرف دس دنوں میں ۔ تیسرے درجے کے زاکرین و واعظین بھی بیس بیس لاکھ کی گاڑیوں میں گھومتے اور گھر گھر پھیلی فرقہ واریت کی آگ پر پھونکیں مارتے ہیں ۔ یہاں تک تو معاملات آ ہی گئے تھے اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ اتنا بھیانک ہے کہ جس کی طرف بروقت توجہ نہ دی گئی تو بہت کچھ بھسم ہو جاے گا ۔ شیعہ تو اس کا شکار ہوں گے ہی مگر اسلام اور معاشرہ بھی ملک و قوم بھی بھگتیں گے ۔ وہ یہ ہے کہ ان زاکرین و واعظین میں ایک خاص طبقہ ہے جو شیعت اور اسلام کی آڑ میں ایسے عقائد و نظریات کی کھلم کھلا تبلیغ کررہا ہے جس کا قرآن و سنت اور بنیادی اسلامی و مذہبی مسلمات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں اور نیم خواندہ و نا خواندہ عوام تیزی سے اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔ یہ کام نہ صرف شیعت بلکہ اسی رفتار سے سنیت کی چھتری تلے بھی فروغ پا رہا ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر فرقے کے لکھے پڑھے باشعور لوگ آگے بڑھیں اور اپنے اپنے گروہ کی ان کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں اور آپس کے بھائی چارے کو بچا لیں ۔ شیعہ لکھے پڑھے طبقے کو چایے کہ اپنے ہاں کی ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کریں جو مکتب علی و آل بیت ع کو ان کی تعلیمات کے برعکس پراگندہ کر رہا ہے ۔ میں ایسے لوگوں کی نشان دہی کر سکتا ہوں لیکن ہر با خبر آ دمی ان عناصر سے آ گاہ ہے ۔ یہ لوگ کھلم کھلا یہ کہہ رہے ہیں کہ آئمہ آل بیت خالق و مالک ہیں ۔ حضرت علی ع کی طرف منسوب یہ جھوٹے اور من گھڑت اقوال کہ میں وہ ہوں جو سورج کو طلوع و غروب کرتاہے بارشیں برساتا ہے ۔ لوح محفوظ پر تمہارے مقدر لکھتا ہے ۔ رزق تقسیم کرتا ہے ۔ موت و حیات کے فیصلے کرتا ہے ۔ کیا یہی آل محمد ع کی تعلیمات ہیں ۔ یہ شیعہ مکتب فکر کے خلاف ایک سازش ہے ۔ اگر کسی بھی فورم پر ایسے عقائد و نظریات رکھے جائیں اور جملا علما و فضلا سے پوچھا جاے یا عوامی راے لی جاے تو ایسے عقائد و نظریات کا دفاع ممکن ہے ? پھر ایسے عقائد و نظریات کے خلاف کوئی تحریک چل نکلے اور پھر سے اس مزہبی بگاڑ کا سیاسی حل تلاش کرنے کی غلطی دوھرائی جاے تو سوچ کر ہی خوف آ تا ہے ۔ کیا ملک و قوم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں ? اس کا سب سے بڑا زمہ دار کوئی طبقہ ہے تو وہ شیعہ علما ہیں ۔ یہ علما دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو سیاسی ہیں ۔ دوسری مزہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نتھی ہو کر سیاسی و مالی مفادات دونوں ہاتھوں سے سمیٹ رہے ہیں ۔ دو دو کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیوں میں گھومتے ہیں ۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں کھڑی کر رہے ہیں ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو خود اس میں براہ راست شریک ہے ۔ فیس طے کر کے مجالس و محرم میں خطاب کرتے ہیں ۔ ایسے عقائد و نظریات پر نجی محفلوں میں تو تنقید کرتے ہیں مگر منبر پر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ پوچھا جاے تو عوامی رد عمل کے خوف کا اظہار کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں صرف اپنے پیٹ اور جیب کی فکر ہوتی ہے ۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply