ہماری درسگاہیں اور سیاست

یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ کچھ چیزیں آپ کے علاقائی اور خطے کی اساس ہوتی ہیں میری نظر میں اگر ان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائیگی کہ انہیں کسی بھی طرح کے ثقافتی رقص سے جوڑنا یقیناً منافقت کہلائے گا.
سب سے پہلے تو ہمیں رقص و سرُود کی محافل اور روائیتی و علاقائی ثقافت کے اجتماعات میں فرق تلاش کرنا ہوگا اور یہ سیکھنا ہوگا کہ ثقافت ہر علاقے کی شناخت اور انکا اپنا ذاتی معاملہ ہے کہ وہ اسے کیسے اور کس طرح مناتے ہیں اور اسکا فیصلہ بھی منانے والوں پر چھوڑنا چاہیے نا کہ ان پر ڈنڈے برسا کر انہیں ہم مجبور کیا جائے کہ بھئی جو ہم نے کہا ہے اسی پر عمل کرتے ہوئے ویسی ہی ثقافت مناؤ جو ہم چاہتے ہیں تو جناب یہ بے انہتا زیادتی ہو جائیگی اور نا صرف زیادتی بلکہ یہ بات انسانی قدروں خلاف بھی جاتی ہے.
ہم اِس چیز سے واقف ہیں کہ ہر خطے کی اپنی کوئی نہ کوئی پہچان ضرور ہی ہوتی ہے جسے اس خطے میں آباد صدیوں سے بسنے والے خوشی کے تہواروں میں گاتے بجاتے ہیں.
کئی علاقوں میں تو اب باقاعدہ کلچر ڈے منایا جاتا ہے اور یہ منایا جانا بہت اچھا عمل ہے اس سے گروہی قبائلی لسانی و علاقائی دوریوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے. اس طرح ایک دوسرے کے صوبائی و علاقائی ثقافتی پروگرامز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے میں بھی کافی حد تک مدد ملتی ہے.
جہاں ہمارے کئی مسائل ہیں وہیں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اُس سیاست کے زیرِ اثر ہیں جسے آئے روز کوئی نہ کوئی ایک نیا موضوع چاہیے ہوتا ہے جس پر دو چار روز سیاسی حلقوں نے میڈیا کے ساتھ مل کر ڈھول پیٹنا ہے اور اس ڈھول پیٹائی کے دوران کئی ایسے سنگین مسائل جن کا عوام کو ادراک ہونا لازمی ہے وہ کہیں پیچھے چھوڑ دیئے جاتے ہیں.
اسی طرح مملکت خداداد وہ واحد سرزمین ہے جہاں آئے روز سیاسی جماعتوں کو لازماً ایک نیا موضوع بحث کے لیے دریافت کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے انکی بھی مرتی ہوئی سیاسی زندگی کو تھوڑی بہت آکسیجن مل جاتی ہے.
آج پنجاب یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں کی جانب سے ایک دوسرے پر پتھروں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا مگر لڑنے والے طلبہ اس بات سے بے خبر رہے کہ ڈنڈے پتھر تو وہ کھا رہے ہیں مگر انکے پتھروں کو حکومتی اور انکی جماعت کے نمائندے ٹی وی چینلز پر انٹرویوز کے دوران کس خوبی سے استعمال کر رہے ہیں یہ تو ان معصوم طلبہ کو شاید عملی سیاست میں ہی آکر اس بات کا علم ہو کہ دورِ جوانی میں وہ کیسے اپنی " مدر ونگز " کے اشاروں پر استعمال ہوتے رہے جس کی مثال آج کا جھگڑا ہے جس میں طلبہ ہاتھ پاؤں کی ہڈیوں کو تڑوا بیٹھے اور شاید اگلے کئی ہفتے ہاسٹل کی چارپائی سے بھی اٹھنے کے قابل نہیں رہے.
جہاں طلبہ سیاستدانوں کی سیاست کا ایندھن بنتے ہیں وہیں اب انکے اس موضوع پر رات گئے تک میڈیا خصوصاً اینکرز کی جانب سے اس پر ایک کے بعد ایک پروگرام کر کے اِس ایک موضوع میں سے بھی کئی اور موضوع نکالنے سمیت چینلز کی " ٹی آر پی " کو بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی.
دوسری جانب مجھے ان جماعتوں کی طلبہ تنظیموں پر حیرانگی سے بڑھ کر صدمہ ہوتا ہے جو بغیر کسی تحقیق بغیر کسی ٹھوس وجہ اور بغیر کسی عقلی سوجھ بوجھ کے ایسے فنکشنز پر ہلہ بول دیتے ہیں جن کی مدد سے پاکستان کا سافٹ امیج برقرار رکھنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے الٹا ان ہی کلچرل شوز سمیت ہم آہنگی کے پروگرامز کو تہس نہس کر کے ہمارا وہ چہرہ بین الاقوامی میڈیا کو دکھایا جاتا ہے کہ لوگوں دیکھو ہم وہ پگلوٹ ہیں جو اپنی درسگاہوں کا تقدس اپنے ہی ہاتھوں پامال کرتے ہیں یہ پتھر تو کچھ بھی نہیں اگر ہمارے ہاتھوں میں بندوقیں ہوں تو ہم ایک دوسرے کو مارنے میں بھی زرا برابر دیر نہ کریں…!
میری ذاتی رائے میں تو پاکستان میں چند ایک ہی اب ایسی جماعتیں رہ گئی ہیں جو اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے مخالفین کے خلاف تشدد پسندانہ رویہ اختیار کرتی ہیں.
ایسی ہی ایک جماعت سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیم نے آج پنجاب یونیورسٹی میں پختون کلچر ڈے کی مناسبت سے کیئے جانے والے پروگرام کو تو اپنے حساب سے خاصہ درہم برہم کیا بلکہ انہوں نے تو شاید اسلام و پاکستان کا نام فخر سے بلند کرتے ہوئے پختون کلچر منانے والوں کو ڈنڈوں، مکوں، چپلوں، جوتوں ،پتھروں کا بھرپور آزادانہ استعمال کرتے ہوئے کافی حد تک زیر بھی کیا مگر افسوس انکی اس محنت پر کہ کچھ ہی دیر بعد انکا فتح کیا گیا علاقہ دوبارہ سے بلکہ پہلے سے زیادہ پرجوش طریقے سے ڈھول کی تھاپ پر جھوم رہا تھا جس میں پختون اور انکے ساتھ انکے ہمدرد سندھی و بلوچی طلبہ نے انکا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے ثقافتی رقص پیش کیا.
دوستو بات بہت سادہ سی ہے اور سمجھنے والوں کے لیے اتنی ہی آسان ہے جتنی ایک سمجھانے والے کے لیے ہے وہ یہ کہ " رقص و سرُودکی محفل اور ثقافتی رقص میں فرق کو سمجھا جانا چاہیے.
ثقافت ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہے جسے ہم چھوڑ نہیں سکتے یا چھوڑنا چاہیں بھی تو اسکے لیے صدیاں درکار ہوں گی.
مخالفین کو ڈنڈے کے زور پر اس طرح زیر کرنا کسی انسان دوست تنظیم کا کام نہیں اور نا ہی کسی سمجھدار انسان کا کام ہے کہ وہ ایسے کسی بھی تشدد پسندانہ رویے کی حمایت کرتے ہوئے اس عمل کو درست قرار دے.
میرے پڑھنے والوں میں سے کئی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آج سے تین چار عشرے قبل کراچی کے کئی علاقوں میں ایسے ہی ایک عمل کی شروعات کی گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ جامعہ کراچی میں اس مذہبی سیاسی جماعت کا طوطی بولنے لگا اور مخالف طلبہ روزانہ مار کھا کھا کر ادھ موئے ہوجاتے تھے اور کئی تو بیچارے امتحانات دینے کے قابل بھی نہ رہتے.
مارنے والی تنظیم کی مدر ونگ بڑے بھاری مینڈیٹ سے الیکشن جیت کر ایوانوں میں بھی پہنچ جاتی تھی اس لیے بھی اس کا رعب و دبدبہ مخالف شاگرد تنظیموں پر گویا کسی آسیب سے کم نہیں ہوتا تھا.
مگر قدرت کا بھی ایک اصول ہے اس نے ہر عروج کے لیے ایک زوال رکھا ہے اس لیے جو جتنا بڑا ظالم ہوتا ہے اسے کسی بڑے طاقتور کیساتھ لڑا دیتی ہے اور پھر پہلی طاقت کا کوئی وجود نہیں رہتا..
ایسا بالکل سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوا اور پھر وہاں ایک ایسی شاگرد جماعت ابھری جس نے ہمیشہ ڈنڈے کھائے مگر پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہوا نے اپنا رخ بدلا اور ایسا بدلا کہ ڈنڈے اٹھانے والوں پر ہی ڈنڈے برسنا شروع ہو گئے.
( یہ وہ رویہ تھا جس سے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی آج الیکشن کے دوران خواہ کتنے ہی سخت پہرے ہوں مگر اس مذہبی جماعت کا مینڈیٹ اب ہر الیکشن میں چھ سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوتا )
گو کہ دونوں ہی جماعتوں کا عمل بالکل خراب غیرقانونی اور غیر انسانی تھا اور کسی بھی جماعت کی طلبہ تنظیم تو کیا کسی بھی انسان کو ہمیشہ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنے کے لیے تہذیب کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے.
اس طرح کی ہاتھا پائی کرنا گالم گلوچ دینا دوسروں کے کیمپ اکھاڑنے کو ہم اچھی سیاسی تربیت ہرگز نہیں کہہ سکتے اور ایسی تشدد پسندانہ تربیت شاید ہی کوئی جماعت دیتی ہوگی مگر جو کچھ پنجاب یونیورسٹی میں سب نے دیکھا وہ میرے لیے یعٰنی ایک کراچی کے رہائشی کے لیے تو کم سے کم حیران کن نہیں ہے..
اس بات سے بھی سب متفق ہوں گے کہ اپنے ہی طرز کا اسلامی انقلاب زبردستی لانے والی باتیں کرنے سے شدت پسندی کو مزید عروج ملے گا.
ایسی جماعتوں میں اکثر اب ایسے لوگ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو صرف اور صرف ایک مخصوص شدت پسندانہ ذہنیت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور وہ معصوم بھولے بھالے نوجوانوں میں کچھ دیر کو مذہبی جوش کا ٹیکہ لگا کر انہیں تصوراتی انقلاب کا محمد بن قاسم بنا کر مخالفین کے خلاف بےدریغ استعمال کرنے کے بعد لاتعلقی کے اظہار سمیت باغی کا سرٹیفیکیٹ دیکر نکال باہر کرتے ہیں..
آج پنجاب یونیورسٹی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جس میں شدت پسندانہ اور صرف اپنے آپ کو سچا اور سامنے والے کو غلط ماننے جیسی باتوں پر اندھی تقلید کرنے والے کئی نوجوان بغیر کسی تحقیق کے صرف باتیں ہی سن کر اتنے جذباتی ہو گئے کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کو کئی گھنٹے تک میدان جنگ بنا ڈالا..
میرا ان سے صرف یہ سوال ہے کہ مذہب کی آڑ میں جس انقلاب کی روشن نویدیں پچھلے ستر برس سے آپ سنا رہے ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انقلابیوں والا آپ کا یہ چورن ہر بار ہاتھوں ہاتھ فروخت بھی ہوجاتا ہے آیا اس مذہبی چورن نے کیا کبھی ہمارے سماج کے گندے ہاضمے کو درست کرنے میں کوئی مدد کی ؟
کیا صرف اپنے اپنے علاقے کی ثقافت کو منانے سے جنت اور جہنم کا کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے ؟
اب زرا سنیئے کہ ایک کتاب سے اقتباس ہے کہ " ایک دن ایک بچہ نیکر پہن کر نماز/ سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا، مولوی صاحب غصے میں آگئے. بولے تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آئے ہو ایسا کرو گے تو جہنم میں جاؤ گے.
بچہ ڈرتا سہمتا گھر آیا اور اپنی ماں کو قصہ سنایا تو رحمدل ماں نے اس بچے کو کہا کہ پتر! مولوی صاحب غصے میں ہوں گے جو انہوں نے ایسا کہہ دیا دل پر مت لے، ورنہ تو بیٹا جہنم میں جانے کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہے،
پتر! جہنم حاصل کرنے کے لیے انسان کو پتھر دل ہونا پڑتا ہے، جہنم کے لیے دوسروں کا حق کھانا پڑتا ہے جہنم کے لیے قاتل بننا پڑتا ہے پتر! انسان کو جہنم میں جانے کے لیے فسادی بننا پڑتا ہے، مخلوق خدا کو اذیت دینا پڑتی ہے،
ان سے ناحق لڑائی جھگڑا کرنا پڑتا ہے. نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ہے، شیطان کا پیروکار بن کر محبت سے نفرت کرنی پڑتی ہے اور نفرت سے محبت کرنا پڑتی ہے، پتر ! جہنم کے لیے ماؤں کی گود اجاڑنا پڑتی ہے۔ خالق اور رحمت العالمین سے تعلق توڑنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر یہ جہنم ملتی ہے"….
صاحبو..! میرا بھی یہ ہی ماننا ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ اللہ کے حوالے کر دینا چاہیے اور ہر مکتبہ فکر کو اپنے طور سے جینے کی بھرپور اجازت دینا چاہیے اور ہاں آج شاید مولوی صاحب غصے میں ہوں گے اس لیے پختون بھائیوں کو چاہیے کہ دل پر نہ لیں اور سینہ چوڑا کریں درگزر کریں اور اپنے بھائیوں کو سینے سے لگا لیں…

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply