• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنگ، غریب سوڈانی اور عربوں کی دولت۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

جنگ، غریب سوڈانی اور عربوں کی دولت۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سپاہ گری کا پیشہ ہمیشہ سے انسانی معاشروں میں موجود رہا ہے اور اس کو بڑی عزت و احترام کا درجہ بھی دیا جاتا رہا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ پیسہ کی طاقت دکھاتے ہوئے نوجوان بھرتی کیے جاتے تھے اور انہیں بہترین تربیت و اسلحہ فراہم کرکے دشمن سے لڑا دیا جاتا تھا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ مقامی لوگوں سے بھی بے خوف لڑ جاتے تھے اور ہر صورت میں بادشاہ کا دفاع کرتے تھے، کیونکہ انہیں تمام مراعات کی ضمانت صرف اسی صورت میں میسر آسکتی تھی، جب تک بادشاہ تخت پر ہے, جس وقت بادشاہ تخت کی بجائے تختہ پر آجائے گا تو لڑنے والے بھی برے وقت کا شکار ہو جائیں گے اور انہیں بھی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہی چلن جاری رہا،یہاں تک کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں سپاہی ہندوستان سے اچھے مستقبل کی امید پر اس لالچ کے ساتھ بھرتی کیے گئے کہ انہیں اچھی تنخواہ ملے گی, ساتھ میں جب جنگ ختم ہوگی تو زمین بھی دی جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ پورے ہندوستان کی مجموعی فوج کا تقریبا~ ساٹھ فیصد پنجابیوں پر مشتمل تھا، کیونکہ کئی اور وجوہات کے ساتھ ساتھ زمینوں کا لالچ یہاں زیادہ کارگر ثابت ہوا تھا۔

پھر ایسا وقت آیا کہ انسانیت صرف پیسے پر لڑنے سے عار محسوس کرنے لگی اور اس کے لیے کرائے کے قاتل اور اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ استعمال کیے جانے لگے۔ وطن کا دفاع ایک مقدس فریضہ ہے، جس سے عہدہ برآں ہونا ہر محب وطن کی ذمہ داری ہے، اس کے علاوہ لوگ کسی اور مقصد کے لیے جان دینے سے ہچکچانے لگے۔ بین الااقوامی قوتوں کو ایسے لوگوں کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہوتی ہے، جو مشنری جذبے کے ساتھ ان کے لیے کام کریں۔ روس کے خلاف بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی ضرورت پیش آئی تو مذہب کا تڑکا لگا کر لوگوں کو اس امریکی جنگ کا حصہ بنا دیا گیا۔ روس کو ملحد اور امریکہ کو اہل کتاب قرار دے کر اس کے لیے بڑے پیمانے پر زمین ہموار کی گئی۔ سابقہ قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کو وہ دن نہیں بھولتے، جب برطانوی وزیراعظم فاٹا کا دورہ کرتیں اور وائٹ ہاوس میں ان مجاہدین کا استقبال ہوتا ہے۔ عربوں کے اربوں ڈالر اس جہاد کی نظر کیے گئے، دنیا بھر سے دین کی طلب رکھنے والے نوجوان بڑی تعداد میں بھرتی کیے گئے اور انہیں اس جنگ میں جھونک دیا گیا۔ اس جنگ کے بعد کیا ہوا؟ ان جوانوں کی زندگیاں کیسے برباد ہوئیں؟ یہی جوان جن کی تربیت ہم نے کی تھی، کس طرح ہمارے گلے پڑے؟ طالبان کے نام سے ہمارے علاقوں پر کیسے مسلط ہوئے؟ اور ہمارے کتنے سپاہی اور کتنے نہتے لوگ اس جنگ میں شہید ہوئے؟ یہ سب اب تاریخ کا حصہ ہے۔

اس وقت مشرق وسطی آگ میں جل رہا ہے، استعمار کی یہ کوشش ہے کہ فلسطین کو ختم کرنے کے بعد اہل فلسطین کو بھی تباہ و برباد کر دیا جائے، اس کے لیے ایک ایک کرکے تمام عرب مماک کو رام کر لیا گیا ہے۔ اب وہ نہ صرف یہ کہ اسرائیل کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ اسرائیل کے دوست ہیں۔ اس کی تازہ مثال اسرائیل کا اپنے شہریوں سے سعودی عرب جانے کی پابندیاں اٹھانا اور انہیں سعودی عرب جانے کی ترغیب دینا ہے، جسے خطے میں بڑی حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ یمن کی جنگ سعودی عرب اور عرب امارات کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ جذبات میں آکر طاقت کے نشے میں کیے گئے حملے سے یمنی عوام تو صعوبتیں برداشت کر ہی رہے ہیں، مگر سعودی عرب بھی ایک تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی آئل ریفائنریوں سے لیکر یمن میں اس کے اتحادیوں کی چھاونیاں تک یمنی مزاحمت کے نشانے پر ہیں، جب تک یمن میں بدامنی ہے، سعودی عرب امن سے نہیں رہ سکتا۔ سعودی عرب کو یہ حقیقت سمجھنے میں خاصا وقت لگے گا کہ وہ اپنے بارڈر پر جنگ لا کر ایک مصیبت میں پھنس چکا ہے۔

ابھی ابھی خبر دیکھی ہے کہ سواڈانیوں نے عرب امارات کے خرطوم میں واقع سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے بچوں کو دبئی کام کا ویزا دیا جاتا ہے، جس کے لیے باقاعدہ معاہد کیا جاتا ہے اور وہاں پہنچنے پر انہیں فوجی تربیت کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد ہمارے بچوں کو یمن اور لیبیا لڑنے پر بھیج دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بہت سے سوڈانی جو گھر سے دبئی میں کام کاج کرنے کے لیے نکلے تھے، وہ میدان جنگ کا ایندھن بننے کے لیے یمن و لیبیاء پہنچائے گئے ہیں، جہاں وہ سعودی و اماراتی مفادات کے لیے اپنا اور لوگوں کا خون بہائیں گے۔ یہ جنگ ہے، بچوں کا کھیل نہیں ہے، اس سے پناہ مانگنی چاہیئے۔ یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امارات نے اپنے شہریوں کو سوڈان کا سفر کرنے کے حوالے سے نئی ہدایات جاری کی ہیں، کیونکہ سوڈانی عوام میں عرب امارات کے اس اقدام کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم بہت عرصے سے سمجھا رہے ہیں کہ خطے میں جاری کشمکش کا فرقوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ خطے میں امریکیوں، امریکی اتحادیوں اور ان کے مدمقابل قوتوں کی لڑائی ہے، جہاں اسے شیعہ سنی رنگ دے کر عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ اب لیبیاء میں تو کوئی شیعہ نہیں ہے؟ مگر سوڈان کے سنیوں کو لیبیا کے سنیوں سے ہی لڑایا جا رہا ہے، مگر اب یہ الفاظ آپ نہیں سنیں گے، کیونکہ یہ چورن یہاں ان کے خلاف جائے گا، اس لیے نہیں بیچیں گے۔ یہاں حرمین کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہے، پھر بھی یہاں لوگوں کی زندگیوں کو برباد کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس پر اس لیے بھی یہ تشویش ہے کہ کہیں عرب امارات میں موجود پاکستانیوں کو بھی اس گھناونے کھیل کا حصہ نہ بنایا جا رہا ہو۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply