گڈانی سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے سزا دی جائے

طاہر یاسین طاہر
ہر سانحہ کے اسباب ہوتے ہیں اور ہر سبب کا مسبب۔بے شک سانحہ گڈانی حفاظتی تدابیر سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ایسی غفلتیں دانستہ کی جاتی ہیں اور اس میں سرمایہ ادارنہ تکون باہمی مفادات کی زنجیر بنا کر مزدوروں کو قید کر لیتی ہے۔انتظامیہ،ٹھکیداری نظام اور سرمایہ دار کی منافع کی ہوس ایسے المناک واقعات کا سبب بنتی ہے۔بلوچستان کے علاقے گڈانی میں حادثے کا شکار ہونے والے بحری آئل ٹینکر میں کتنے مزدور کام کر رہے تھے، کتنے ہلاک ہوئے؟ حکام ابھی تک اس کا تعین ہی نہیں کر سکے ہیں۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کی تعداد 20سے زیادہ ہو چکی ہے،مگر یہ تعداد غیر سرکاری طور پہ بتائی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں تازہ انکشاف یہ ہوا ہے کہ جہاز کی کٹائی بغیر این او سی شروع کی گئی اور اس میں کئی سو ٹن تیل موجود تھا۔جمعرات کو ایک طرف جہاز سے سیاہ دھواں اٹھ رہا تھا تو دوسری جانب مزدور سرخ جھنڈے اور بینر لیے نعرے لگا رہے تھے۔شپ بریکنگ ورکرز یونین کے رہنما بشیر احمد محمودانی نےایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ابھی تک صرف اندازے لگائے جا رہے ہیں اور کسی کے پاس ریکارڈ نہیں،کہ کتنے مزدور ہلاک ہوئے،اور کتنے زخمی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں لوگوں کو گدھوں اور خچروں کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے، اتنے لوگوں کو اس خطرناک کام پر بھیجنے سے قبل ان کا شناختی کارڈ نمبر اور نام تک نہیں رکھتے۔
خیال رہے کہ اس بد نصیب بحری ٹینکر کی آگ پر تیسرے روز بھی قابو نہیں پایا گیا تھا، یہ مار واقعی ہے کہ وہاں موجود ڈی جی انوائرمنٹ نے ایک مزدور کو حکم دیا کہ جہاز میں سوراخ کیا جائے اس سے پانی اندر داخل ہو جائے گا اور آگ بجھ جائے گی۔‘شپ بریکنگ ورکرز یونین کے رہنما نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایک مزدور نےانھیں بتایا کہ نیول حکام نے گذشتہ روز کہا تھا کہ اگر جہاز میں سوراخ کیا گیا تو انسانی نقصان ہو سکتا ہے، اس لیے (سوراخ کرنے کی بجائے) اس جگہ پر گولے مارے جا سکتے ہیں۔‘اس بحری ٹینکر کی چادر تقریباً ڈیڑھ سے دو انچ چوڑی ہے۔ جہاز میں ہونے والا دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ کئی میٹر طویل اور بھاری عرشہ اڑ کر زمین پر آگرا۔یہ بات یاد رہے کہ اس اس جہاز کے پاس این او سی نہیں تھا۔وزیر اعظم نواز شریف نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے اور جمعرات کو وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ حاصل بزنجو جائے وقوع پر پہنچے۔انھیں ڈپٹی کمشنر لسبیلہ ذوالفقار ہاشمی نے بتایا کہ خام تیل نکالنے والے ٹھیکیدار فاروق بنگالی زیر حراست ہیں اور انھوں نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ جہاز میں 85 سے زائد لوگ نہیں تھے۔ اس وقت تک 58 زخمی اور 17 ہلاک ہیں یہ ملا کر 75 بنتے ہیں اس حساب سے دس ابھی لاپتہ ہیں۔حکام نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ مزدور ٹینک میں سوراخ کر رہے تھے تاکہ خام تیل نکالا جا سکے اور یہ سوراخ ویلڈنگ سے کیا جا رہا تھا، جس وجہ سے اس نے آگ پکڑ لی اور دھماکہ ہو گیا۔ڈی سی کے مطابق مالک کو گرفتار کیا گیا ہے اور اس سے بھی تفتیش ہو رہی ہے۔شپ بریکنگ اونرز ایسوسی ایشن کی قیادت بھی جمعرات کو موجود تھی۔گڈانی شپ بریکنگ زون بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ماتحت ہے۔ وفاقی وزیر حاصل بزنجو نے غفلت کا ذمہ دار اتھارٹی کو قرار دیا، تاہم اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر شعیب گولا نے اس سے لاتعقلی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس میں محکمہ ماحولیات کا این او سی اہم ہوتا ہے۔ڈی جی انوائرمنٹ نے دوبارہ تصدیق کی جہاز کوکہ این او سی جاری نہیں کیا گیا تھا جس پر وفاقی وزیر نے سوال کیا کہ پھر یہ کام کیسے شروع کیا گیا؟حکام سے پوچھ گچھ کے دوران شپ اونرز کے چیئرمین دیوان رضوان فاروق کا کہنا ہے کہ جہاز سے تیل نہیں نکالا جا رہا تھا۔ڈائریکٹر جنرل پورٹ اینڈ شپنگ اسد رفیع نے دیوان رضوان سے جذباتی انداز میں سوالات کیے اور کہا کہ آپ کی تنظیم نے اپنے مفادات کا تو تحفظ کیا لیکن مزدوروں کے لیے کیا کیا؟ ڈی سی کے مطابق جہاز میں 11 سو ٹن تیل تھا اور دو ہزار ٹن خام تیل تھا۔‘دیوان رضوان نے انھیں بتایا کہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ جہاز میں تیل تھا، جس پر ڈی جی پورٹس نے انھیں کہا کہ یہ چیک کرنے کے لیے خصوصی آلات اور انسپیکٹر ہوتے ہیں جو جا کر دیکھتے ہیں۔دیوان رضوان نے حکام کو بتایا کہ وہ جہاز کا 15 سے 20 کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور جب تک یہ ادائیگی نہ کریں اس وقت تک جہاز توڑا نہیں جا سکتا۔‘وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے بھی جمعرات کو جائے وقوع کا مختصر دورہ کیا۔ پانچ منٹ کے دورانیے میں انھوں نے گاڑی میں سوار ہو کر جہاز کا معائنہ کیا اور صحافیوں سے مختصر بات چیت میں کہا کہ وہ تحقیقات کر رہے ہیں اور جو بھی اس میں ملوث ہو گا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ امر واضح ہے کہ اس سانحہ کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو بچانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔یہاں روز حادثات ہوتے ہیں اور ذمہ داروں کا تعین جانتے بوجھتے ہوئے بھی نہیں کیا جاتا۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں بلیو ایئر ویز کے طیارے کو حادثہ پیش آیا تھا۔اس کی تحقیقات کا کیا بنا؟ آئے روز ریلوے کے حادثات ہوتے ہیں جیسا کہ گذشتہ روز کے حادثات کیا کبھی ذمہ داروں کو سزا ملی؟ کبھی ایسا ہوا بھی تو اس سزا کی زنجیر سے کسی محنت کش کو باندھ کو داد انصاف حا صل کیجاتی ہے۔اگر کسی ایک بھی بڑے حادثے کے اصل ذمہ داروں کا تعین کر کے انھیں سزا دے دی جائے تو ایسے واقعات میں کمی ممکن ہے۔ گڈانی سانحہ کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی تک نہ تو مزدوروں کی تعداد کا تعین ہو سکے کہ کتنے مزدور جہاز پر کام کرنے کو بھجوائے گئے تھے اور نہ ہی یہ تعین ہو سکا کہ کتنے ہلاک ہو چکے ہیں۔یہ بھی حیرت انگیز ہے کہ جہاز کو این او سی بھی جاری نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ شپ بریکنگ کے لیے جانے والے مزرودوں کو حفاظتی سامان بھی نہیں دیا جاتا۔ یہ سب ایک ظالمانہ طرز عمل ہے جس میں طاقتور طبقات سرمایے کی ہوس میں اندھے ہو چکے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سانحے کے اصل ذمہ داروں کا ایک ہفتہ میں تعین کر کے انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے نیز آئندہ مزدورں کی حفاظت کا انتظام بھی یقینی تر بنایا جائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply