حبیب بینک ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ 

سرکار    حکومتی اداروں کو نجی اداروں میں منتقل کرنے میں مگن ہے۔ ریاست کے ان اقدامات کی وجہ سے غریب لوگ اور نچلے درجے کے ملازمین متاثر ہورہے ہیں۔پرائیویٹ مالکان اور سرمایہ دار ملازمین سے ان کے بنیادی حقوق چھین کر انہیں جبری طور پر ملازمت سے فارغ کر رہے ہیں۔سینکڑوں پنشنرز عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔حکومت یا حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے مظلوم ملازمین کی رسوائی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔اسے ریاستی کمزوری سمجھا جائے ؟یا پھر سرمایہ داروں کے لئے منافع خوری؟

ہمیشہ کی طرح 22دسمبر2017کے دن ایچ بی ایل بینک ملازمین پوری تیاری کے ساتھ اپنے دفتروں میں داخل ہوئے۔کام کے آغاز کے لئے سسٹم کو لاگ ان کرنا چاہا مگر سسٹم نے ایرر  دکھانا شروع کردیا۔ملازمین نے اسے معمول کی خرابی تصور کرتے ہوئے اپنا کام شروع کردیا۔اتنے میں پوسٹ ماسٹر زآئے اور پاکستان بھر میں 144ایچ بی ایل ملازمین کو خط تھما کر چلے گئے۔خطوں کو دیکھتے ہی ملازمین کے پاؤں تلے زمین نکلنے لگی۔لمحہ بھر کے لئے سکتے میں چلے گئے۔خط کو ڈراؤنا خواب تصور کرنے کی بھی کوشش کی۔مگر حقیقت سے منکر نہیں ہوا جا سکتا۔دیکھتے ہی ساری ہمت اور چہرے کی رونق گہری گرد کی لپیٹ میں آگئی۔ چہروں پر حیرت کے بادل چھا گئے۔بعض تو یہ گہرا صدمہ سہہ نہ پائے اور ادھ موا ہوکر بے ہوشی کی حالت میں چلے گئے۔باقی اس آفت سے بچے ملازمین کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگ گئے۔سرگودھا برانچ کے ایک صاحب کا دل یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا۔دل کے دورے نے انہیں گرنے پر مجبور کردیا۔تمام متاثرہ ملازمین وہی خط اٹھائے بدحواسی کی حالت میں پہلے پہر ہی گھروں کو لوٹنے لگے۔ایچ بی ایل کے اس خط میں ان ملازمین کی نوکری سے برخاستگی  کے الفاظ درج تھے۔یہ دن ان کے لئے قیامت صغری ٰ سے کم نہ تھا۔نکالے جانے والے ان ملازمین کی عمریں45سے55سال تک کی تھیں۔ نچلے درجے کے ان کمزور وبڑی عمر کے ملازمین کے نہ جانے کتنے ارمان بکھر ے ہوں گے۔کسی نے اپنی  بیٹی کو پوری شان و شوکت سے رخصت کرنا تھا۔کسی کو ابھی اپنا گھر بنانا تھا۔کسی نے اپنے بچوں کو مہنگی و معیاری تعلیم دلانا تھی۔ اسی طرح کسی نے کاروبار اور کسی نے خاندان کی لئے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔جو ان کو ملنے والی پنشن اور رقم سے ہی ممکن ہونا تھا۔نہ ختم ہونے والی پریشانیوں سے یہ لوگ بیمار ہونے لگے۔اسی  دوران    کراچی ناظم آباد برانچ کے کمال مصطفی صدمے کے باعث اپنے خاندان کو بے آسرا چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں :  کشمیری جوانوں کی بیروزگاری،اسباب،سدِ باب۔۔ غازی سہیل خان

سجاد احمد، اصغر ندیم اور عبدالشکور جیسے بہت سے ملازمین 30سے35برس تک محنت و دیانتداری سے بینک کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔دوران ملازمت بہت سے بینکوں کی آفرز کو ٹھکرایا۔اب جب بڑھاپا قریب ہے اور ریٹائرمنٹ میں صرف چند ماہ یا سال باقی ہیں۔ایسے میں بینک کی طرف سے جبری طور پر ملازمت سے فارغ کر کے صرف چھ ماہ کی تنخواہیں تھما دینا کہاں کا انصاف ہے۔بینک کی طرف سے ان کے ریٹائرمنٹ اور پینشن کے حقوق صلب کرنا انتہائی گھٹیا اور قابل مذمت اقدام ہے۔بینک کے دسمبر2017میں ریٹائر ہونے والے صدر نعمان کے ڈار کی تنخواہ ان 144ملازمین کی مجموعی تنخواہ سے بھی زیادہ تھی۔ ان ملازمین کو پنشن دینا بینک کے لئے ایسے ہے جیسے چیونٹی کا سمندر سے پانی پینا۔مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہی ہے!

قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں گزشتہ سال 2017میں امریکی ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سےHBLبینک کو 66کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔یہ جرمانہ بعد میں سودے بازی کے تحت کم کروا کے22.5کروڑ ڈالر جمع کروا دیاگیا۔اسی ضمن میںHBLنیو یارک برانچ کو بھی بند کرنا پڑا۔امریکی فنانشل سروسز کی رپورٹ کے مطابق حبیب بینک پر50کے قریب الزامات عائد کیے  گئے۔جن کی بنا پر انہیں جرمانہ عائد کیا گیا۔جن میں منی لانڈرنگ، بلیک مارکیٹ ٹریڈنگ، دہشتگردوں کی مالی امداد اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے الزامات شامل تھے ۔بتایا گیا کہ2007سے2017تک منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس میں بڑی سیاسی شخصیات بھی ملوث رہیں۔بینک کے ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔سٹاک مارکیٹ میں نقصان ہوااور ڈالر کے ریٹ بڑھ گئے۔پاکستان کو بڑا معاشی دھچکا لگا۔ان اقدامات پر   حکومت یا اداروں   کی طرف سے کوئی ایکشن سامنے  نہ آیا۔ایسے میں بینک انتظامیہ کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے اپنا مالی خسارہ پورا کرنے کے لئے نچلے درجے کے ملازمین کے حق صلب کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ پاکستان بھر سے 144ملازمین کو جبری ریٹائر کردیا گیا اور انہیں ان کے بنیادی ریٹائرمنٹ کے حقوق سے بھی محروم کردیا۔اطلاعات کے مطابق بینک انتظامیہ نے مزید 2000کے قریب ملازمین کو فارغ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

متاثرہ ملازمین نے قانونی جنگ کا فیصلہ کیا تو انہیں ماسٹر اینڈ سرونٹ رول کے تحت ٹرخایہ گیا۔بلا آخر ان کی جدوجہد کے باعث NIRCکورٹ کراچی نے بینک کے جبری ریٹائرمنٹ آپریشن کو12جنوری2018کے روز معطل کر کے17ملازمین کی فوری بحالی کا حکم صادر فرمایا۔مگر اس دن سے لے کر آج تک ملازمین HBLبینک کے دفتروں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔بینک انتظامیہ عدالت کے اس حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:  کراچی کی تہذیب و ثقافت کو خطرہ آپ سے ہے جناب!

حکومت پاکستان نے بہت سے سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کو بیچنے کے ساتھ نچلے درجے کے ملازمین کے بنیادی حقوق بھی بیچ دیے۔جن کاادراک عوام کو اب ہورہا ہے اور وقت کے ساتھ ہوتا رہے گا۔ہماری حکومتی ناکامی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ اپنے ریاستی ادارے سرمایہ داروں کے آگے اونے پونے بیچ رہی ہے۔وہی سرمایہ دار ایک طرف عام عوام سے سروسز کی صورت میں اضافی ٹیکسز وصول کررہے ہیں اور دوسری طرف اپنے عام ملازمین کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کررہے ہیں۔یہ صرف حبیب بینک ہی کا معاملہ نہیں بہت سے پرائیویٹ اداروں میں ایسا ہورہا ہے۔ایسے تمام اداروں کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے ۔جنہیں حکومت ،وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ایسے میں بے چارے مظلوم و لاچار ملازمین کہاں جائیں؟ کیا کریں؟

Advertisements
julia rana solicitors

امید کرتے ہیں کہ جس طرح چیف جسٹس نے اس معاملے پر سوموٹو ایکشن لیا ہے۔وہ جلد ان مجبور ملازمین کو ان کے حقوق دلائیں گے ۔ حکومت کی ناہلی پر اس کی سرزنش اور پرائیوٹ اداروں کو جرمانہ عائد کریں گے۔

Facebook Comments

ذوالقرنین ہندل
چوہدری ذوالقرنین ہندل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں،مکینیکل انجینیئر، اور وائس آف سوسائٹی کے سی ای او ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply