جبر و قدر

جبر و قدر کے لاینحل مسئلے پر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے پاس ارادہ کرنے کی اور اس پر عمل کرنے کی آزادی ہے، یہ بالکل سامنے کی بات ہے اسی لیے اپنی برائیوں اور برے ارادوں کو اللہ کے ذمہ ڈال دینے کو قرآن جہالت کہتا ہے اور اسے مشرکین کا قول کہتا ہے، یہ مشرک لوگ کہتے ہیں کہ ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے”(سورۃ الانعام) ۔
رسول ﷺ ایک رات علی رض اور فاطمہ رض کے پاس آئے، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ ( تہجد کی ) نماز نہیں پڑھو گے؟ حضرت علی رض نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہماری روحیں خدا کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ ہماری اس عرض پر آپﷺ واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپﷺ ران پر ہاتھ مار کر (سورہ کہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے)” آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے”-
انسان کو اپنی غلطی کا ذکر ایسے ہی کرنا چاہیے کہ وہ واقعی اس کی غلطی تھی،اس کی غفلت تھی، ہر برائی کو خود سے منسوب کرے گا اور ہر اچھائی کو اللہ کا فضل کہے گا – یہی طرز فکر اس وقت عین مومنانہ ہو گا جو اس کی شخصیت میں بہتری لائے گی۔
لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں اللہ کے اذن کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا، نہ کوئی نیکی کر سکتا ہے اور نہ برائی اور یہ یقین رکھنا بھی عین توحید ہے۔یہ صرف اللہ کے کام ہیں کہ سب کچھ ایک ساتھ دیکھتا ہے اور انتظام و انصرام کرتا ہے،وہ خالق ہے،بندہ مخلوق۔۔۔اللہ کے کام سمجھ سے بالا تر ہیں ،انسانی عقل کے لیئے اس کے اختیارات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔
عقل میں جو گھِر گیا ، لا انتہا کیونکر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا

Facebook Comments

اسرار
سوشل میڈیا ایکٹوسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply