• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نواز شریف سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت؟ ۔۔آصف محمود

نواز شریف سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت؟ ۔۔آصف محمود

نواز شریف کے ارشادات سنتا ہوں تو سوچتا ہوں : نواز شریف سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت؟ چونکہ صاحب کوہ قاف کی کسی کہانی کا عنوان نہیں ،ہمارے عہد کی ستم ظریفی کا استعارہ ہیں اس لیے اتنا تو ہم خوب جانتے ہیں کہ سادہ تو وہ ہر گز نہیں۔وصولی سیاست کی بہار رتوں میں اقتدار سے محرومی کے بعد البتہ وہ اب بقلم خود ایک نظریاتی سیاست دان ہیں۔ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر فقاریہ نظریہ متعارف کرایا گیا ہے چنانچہ پہلے لوگ اونٹ سے پوچھا کرتے تھے : اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی،آج کل یہی سوال وہ نظریاتی سیاست سے پوچھ رہے ہیں۔

نظریاتی سیاست اب تحریکِ عدل پر مائل ہے۔جسٹس قیوم جیسوں کی قوس قزح کے رنگ پھیکے پڑ گئے اور قانون نے پہلی دفعہ دستک دی تو مزاجِ یار برہم ہو گیا۔چنانچہ دربار عالی سے عدلیہ کے خلاف یلغار کا اعلان عام ہے اور گداگران سخن قطار اندر قطار دادِ شجاعت دے رہے ہیں۔لشکریوں کا نظریہ بہت واضح ہے جس کی منادی کی جارہی ہے۔ اگر عدلیہ ہماری ہم نصابی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتی رہے گی تو ہم اس کا احترام کریں گے لیکن اگر اس نے ہماری ہم نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر گرفت کی تو پھر یہ پی سی او عدلیہ ہے اور اس نے مشرف سے حلف لیا ہے اس لیے ہم جمہوریت اور آئین کے چمپیئن بنتے ہوئے اس کو سینگوں پر لے لیں گے۔اصول بہت واضح ہے۔جو ہمارے مفادات کا تحفظ کرے گا وہ اچھا ہے اور جو ہمارے مفادات پر پہرہ نہیں دے گا اس کی دھجیاں اڑا دی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں : مشال کیس: پارٹیوں کی قومی و مقامی قیادت کا متضاد موقف– طاہر علی خان

آپ نواز شریف صاحب کی ہشیاری ملاحظہ فرمائیں۔عدلیہ کو مشرف اور پی سی او کا طعنہ دے رہے ہیں اور گریبان میں نہیں جھانک رہے کہ مشرف کی باقیات ہی سے تو ان کا دربار منور ہے اور مہک رہا ہے۔مشرف کے خلاف جب مقدمہ قائم کرنے کا وقت آیا تو 12اکتوبر کی بجائے 3نومبر کے اقدام کو جرم قرار دیا گیا۔ جان کی مان ملے تو پوچھوں کہ تین نومبر سے کیوں؟بارہ اکتوبر سے کیوں نہیں؟

مشرف کے جس درباری نے تین نومبر کا حکم نامہ ڈرافٹ کر کے مشرف کی خدمت کی تھی اسی زاہد حامد کو نواز شریف وزیر قانون بنا لیتے ہیں۔وہ ان کا چہیتا قرار پاتا ہے۔تماشا دیکھیے جس وقت مشرف کے خلاف تین نومبر کے اقدام پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ چل رہا ہوتا ہے اس وقت تین نومبر کا وہی حکم نامہ لکھنے والا زاہد حامد نواز شریف کا وزیر ہوتا ہے۔جب عدالت اس کا نام بھی مقدمے میں بطور ملزم شامل کرتی ہے تو یہ استعفی دے دیتا ہے لیکن چند ماہ بعد پھر اسے وزیر بنا لیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ انتخابی قوانین میں ایک مشکوک ترمیم لائی جاتی ہے اور احتجاج ہوتا ہے، تب جا کر یہ صاحب اس منصب سے الگ ہوتے ہیں۔جمہوریت کو کالی کھانسی اور یرقان نہ ہو جائے تو سوال یہ ہے کہ مشرف کا وزیر قانون نواز شریف جیسے ’’نظریاتی‘‘ رہنما کے لیے اتنا ناگزیر کیسے ہو گیا؟

امیر مقام ، دانیال عزیز، طلال چودھری، ماروی میمن ، اویس لغاری سمیت مشرف کے اہل دربار میں سے کتنے ہیں جو ’نظریاتی‘ نواز شریف کی گود میں آ بیٹھے۔صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے کم از کم 146ایسے لوگوں کو الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دیے گئے جو مشرف کے دربار سے وابستہ رہے۔مشرف دربار کے ملک الشعراء قبلہ مشاہد حسین سید تو ابھی کل کی بات ہے ’ نظریاتی‘ ہوئے ہیں اور ’نظریاتی‘ رہنما نے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ بھی عطا فرما دیا ہے۔ معلوم نہیں یہ ڈھٹائی ہے یا استقامت کہ ٹکٹ لینے کے بعد عزیز ہم وطنو ں کو پہلا بھاشن جو قبلہ مشاہد حسین سید نے دیا وہ اصولوں کی سیاست کا تھا۔

یہ بھی پڑھیں :  اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان۔۔رشید یوسفزئی

مشاہد حسین کی واپسی پر تجربے میں بھیگی نظریاتی سیاست نے جو جواز پیش کیا وہ بھی سن لیجیے۔ارشاد ہوا کہ ہماری پالیسی یہ ہے جو وہ لوگ پارٹی میں واپس لیے جا سکتے ہیں جنہوں نے آمر کا ساتھ تو دیا مگر نواز شریف کے خلاف کچھ نہ بولے۔ گویا آئین اور اس کا احترام اہم نہیں ، قائد محترم کی ذات اہم ہے۔ یہی نرگسیت کیا ان کا نظریہ ہے؟نظریت سے مزید آ گاہی درکار ہو تو سینیٹ کے امیدواران پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔

آپ اتفاق دیکھیے اس وقت عدلیہ کے خلاف مہم میں جو حضرات پیش پیش ہیں یہ وہی ہیں جو مشرف کے درباری تھے۔ دانیال عزیز، طلال چودھری۔یا پھر وہ ہیں جن کی سیاست ہی نواز شریف کی قصیدہ گوئی کی مرہون منت ہے اور جو اپنا کوئی ھلقہ انتخاب نہیں رکھتے۔وزیر اطلاعات کو دیکھ لیجیے اور ان سے پہلے کے وزیر اطلاعات کو دیکھ لیجیے۔خواجہ آصف بھی جمہوریت کے رستم ہیں مگر یاد رہے ان کے والد محترم بھی آمر کے رفقاء میں تھے اور سعد رفیق کے ساتھ مل کر خود انہوں نے اسی مشرف سے حلف لیا تھا جس کا دوسروں کو طعنہ دیا جا رہا ہے۔

خود نظریاتی سیاست کی اپنی حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق آمریت کے پنگھوڑے میں لوری لیتے لیتے اس کی آنکھ کھلی۔جنرل ضیاء الحق چلتے تھے تو نظریاتی بھائی جان سر جھکائے یوں پیچھے پیچھے چلتے تھے کہ گماں ہوتا تھا نقش قدم دھونڈ کر پاؤں رکھ رہے ہیں۔ضیاء الحق کی بیٹی زین ضیاء اس وقت انہوں نے منہ بولی بہن بنائی ہوئی تھی۔ضیاء الحق نہ رہے تو بہن کا یہ رشتہ بھی بھول گیا۔زین ضیاء اب بھی گاہے اعجاز الحق سے پوچھ لیتی ہیں نواز بھائی کیسے ہیں۔بھائی کو تو کبھی اتنی تو فیق بھی نہیں ہوئی۔ سیاست کو شرافت کا نیا رنگ یوں دیا کہ جونیجو مرحوم کی تدفین بھی نہ ہونے دی ان کی سیاسی میراث بر قبضہ کر لیا۔ قاضی حسین احمد جیسے نجیب آدمی کی تذلیل کی اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ کی توہین میں تو ساری حدیں پھلانگ دی گئیں۔معصومیت دیکھیے آج کس شان سے ارشاد ہوتا ہے عمران خان نے سیاسی اخلاقیات کو مجروح کر دیا۔اس پر صبح و شام یہ غزل کہ ہم نظریاتی سیاست کر رہے ہیں۔ کون سا نظریہ؟ بچپن میں گاؤں کی گرم دوپہریں یاد آ تی ہیں ۔ایک فقیر گلی میں آواز دیتا تھا :’’ کوئی مرے تے کوئی جیوے ، بنتو گھول پتاسا پیوے‘‘۔ یہی ان کا نظریہ ہے۔یہ اب تک پتاسے ہی گھول گھول پی رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :  اک فاٹا والے کی کہانی۔۔عبدالصمد

آپ ان کے کمالات دیکھیے حکومت بھی انہی کی جماعت کی ہے ، یہ مزے بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کی مظلومیت بھی انہوں نے ہی اوڑھ رکھی ہے۔ یہ اگلے الیکشن میں اپنی کارکردگی کا حساب دینے کی بجائے ہمدردی لینا چاہتے ہیں۔آپ ان کا تجربہ دیکھیے یہ جے آئی ٹی کو دھمکیاں دے رہے ہیں ، عدالت کی توہین کر رہے ہیں ، نیب کے کہنے کے باوجود وزارت داخلہ ان کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈال رہی، یہ نیب سے نکلتے ہیں تو پنجاب ہاؤس میں بیٹھ کر میٹنگز کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ اس تاثر کو قائم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ تو ظلم ہو رہا ہے۔ان کا اپنا وزیر اعظم ہے جو کچھ کر نہیں پا رہا لیکن اس کی حکومت کے نقائص پر نادم ہونے کی بجائے یہ گلی گلی ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ دیکھا میری حکومت تھی تو حالات کتنے اچھے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال وہی ہے: نواز شریف سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply