بچے غیر سیاسی نہیں رہے۔۔گل نوخیزاختر

بیٹے نے بتایا کہ ’’بابا ہمارے سکول میں آج ایک ٹیچر بتا رہی تھیں کہ فلاں سیاسی پارٹی اچھی ہے ‘‘۔ ایک دم سے میرا ماتھا ٹھنکا۔ اگلے دن میں اس کے سکول پہنچا اور پرنسپل صاحب سے گذارش کی کہ نویں کلاس کے بچوں کو سیاست میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟۔انہوں نے مجھ سے تفصیل پوچھی اور پھر بظاہر بڑے آرام سے فرمایا کہ ’’بچوں کو صحیح اور غلط بتانا بھی تو ہمارا فرض ہے‘‘۔میں نے سرہلایا’’بالکل ٹھیک ہے لیکن اس کا تعین کون کرے گا کہ کون سی سیاسی پارٹی ٹھیک ہے اور کون سی غلط؟‘‘۔ اس بات پرانہوں نے تیوری چڑھائی تاہم بمشکل خود پر کنٹرول کرتے ہوئے بولے’’سب کو پتا ہے کون سی پارٹی غلط ہے اور کون سی ٹھیک‘‘۔ میں نے پہلو بدلا’’اگر ایسی بات ہے تو آئیے میرے ساتھ سکول سے باہر چلتے ہیں اور راہگیروں سے پوچھتے ہیں‘ آدھے ایک پارٹی کے حامی نکلیں گے آدھے دوسری کے۔‘‘ معاملہ چونکہ بچے کی فیس کا بھی تھا لہذا پرنسل صاحب نے مٹی پاؤ کی پالیس پر عمل کرتے ہوئے میری تسلی کرادی کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں :  اکّڑ بکّڑ بمبے بو۔۔شکور پٹھان

لیکن ایسا ہورہا ہے اور بہت سے تعلیمی اداروں میں ہورہا ہے۔ وہ اُستاد جنہوں نے بچوں کی تربیت کرنی ہے‘ انہیں صحیح اور غلط کی تمیز سکھانی ہے وہ از خود کسی نہ کسی پارٹی کے سپورٹر بنے ہوئے ہیں اور کھلے عام کلاس رومز میں بچوں کو اپنی پسندیدہ پارٹی کی خوبیاں اور مخالفین کی خامیاں بیان کرتے پھر رہے ہیں۔نفرت کا یہ زہر جس طرح سے پھیل رہا ہے اس کے مکمل نتائج کچھ عرصے بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک وڈیو دیکھی جس میں ایک تین یا چار سال کے بچے کو باپ موبائل پر ایک سیاسی مخالف کی تصویر دکھا رہا ہے اور پوچھ رہا ہے کہ ’’بیٹا بتاؤ یہ کون ہے؟‘‘۔ اور بچہ نفرت بھرے جملے بول رہا ہے۔ ظاہری بات ہے بچے کو پہلے یہ سبق یاد کرایا گیا ہے پھر اس کی وڈیو بنائی گئی ہے جسے اب تک سینکڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔یہ بچہ جب بڑا ہوگا تو کیا اپنے طور پر کچھ سوچنے کے قابل رہے گا؟ابتداء میں ہی اس کے ذہن کی ’نس بندی‘ کر دی گئی ہے اور بڑے فخر سے اسے شیئر بھی کیا جارہا ہے۔ایک تصویر دیکھی‘ یہ غالباً کسی بچے کا اپنے باپ کے نام خط تھا جس میں اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ایک چٹ پر لکھا ہے کہ ’’ابو جان! جب تک آپ فلاں پارٹی کی سپورٹ نہیں چھوڑیں گے میں گھر واپس نہیں آؤں گا۔‘‘ یہ بھی گویا ہونا تھا۔تصویر اس دلیل کے ساتھ شیئر ہورہی ہے کہ پارٹی کتنی مقبول ہے اورہر بچے کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ایک وڈیو میں باریش بزرگ ایک پارٹی کے چیئرمین کو ننگی گالیاں دے رہے ہیں اوربڑے فخر سے بتا رہے ہیں کہ جس نے ان کے خلاف جو کرنا ہے کرلے۔۔۔!!!

یہ بھی پڑھیں : امرتا پریتم جو ابھی تک امر ہے۔۔عظمٰی عارف/قسط1

ہمارے اندربے چینی‘ ڈپریشن‘ غصہ اوربات بات پر کاٹ کھانے کی عادت اس لیے بھی بڑھتی جارہی ہے کہ ہمارے موبائل فون پر ہر وقت سیاسی پوسٹ آجا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو شائد سب ہی نے سیاست کو اپنا فرضِ اولین سمجھ لیا ہے۔مخالف سیاسی جماعت کی معمولی سے معمولی بات بھی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے اور اپنی دو ٹکے کی بات کو بھی سونے کے ورق لگا دیے جاتے ہیں۔میں نے تو ایک طویل عرصے سے دوست احباب سے باقاعدہ گذارش کرکے اس مصیبت سے جا ن چھڑا لی ہے۔سیاسی کلپ بھیجنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ جو نہیں مانتے اُن کو یا تو میں نے بلاک کردیا ہے یا میسج پڑھنا ہی چھوڑ دیے ہیں۔ہر طرف ایک جنگ پلاسی کا سماں ہے۔ جو بندہ جس پارٹی سے محبت کرتاہے اس کے حق میں دن رات نئے نئے سٹیٹس ڈھونڈنے میں لگا ہوا ہے۔لوگ اتنے باریک بین ہوگئے ہیں کہ اب اس بنیاد پر بھی نفرتیں ہونے لگی ہیں کہ فلاں بندہ بے شک خود سیاسی نہیں لیکن اس کی فرینڈ لسٹ میں مخالف سیاسی جماعت کے لوگ کیوں موجود ہیں۔جن لوگوں کے گھروں میں لڑائیاں پڑی ہوئی ہیں‘ روٹی روزی کے لالے پڑے ہوئے ہیں‘ خاندانی نظام انتشار کا شکار ہے وہ سب سے زیادہ ملک و ملت کو درخشاں بنانے میں پیش پیش ہیں۔ڈر لگتاہے ایسی محفلوں میں جاتے ہوئے جہاں صرف سیاست ہی موضوع بحث ہوتی ہے۔ایسا لگتاہے جیسے دو قومی نظریے پربات ہورہی ہے۔لوگ اپنے سیاسی مخالفین کی بوٹیاں نوچنے پر تلے ہوئے ہیں‘ چونکہ سوشل میڈیا پر یہ ممکن نہیں لہذا گالیاں بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں۔
حالات یہی رہے تو آج سے محض پانچ سال بعد کا پاکستان (اللہ نہ کرے) کچھ اس قسم کا نظر آرہا ہے جہاں مختلف مسالک کی مساجد کی طرح سیاسی جماعتوں کی بھی الگ الگ ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہوا کریں گی۔ ہر سیاسی جماعت کے چاہنے والوں کی الگ دوکان‘ الگ ورکشاپ‘ الگ سکول ‘ الگ ہسپتال‘ اور الگ پارک ہوا کرے گا جہاں مخالف سیاسی جماعت کو قطعاً داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔جس نسل کو بچپن میں ہی نفرت کا زہر پلایا جا رہا ہے کوئی بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ مخالف کو جان سے مارنے میں بھی فخر محسوس کرنے لگے۔جن بچوں نے کھلے ذہن سے جائزہ لے کر صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا تھا اُنہیں ہم نے بچپن اور لڑکپن میں ہی اپنی عقل کے مطابق ’سیدھے‘ راستے پر لگا دیا ہے۔پہلے جب بچوں کی لڑائی ہوتی تھی تو وجہ کوئی کھیل ہوتا تھا‘ کسی بچے کی گیند گم ہوجاتی تھی‘ کسی کا بیٹ ٹوٹ جاتا تھا‘ کسی کو باری نہیں ملتی تھی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی پڑھیں : احوال ذلالت بطرز جدید چال چلن ۔۔مریم مجید/ آخری قسط

اب یہ لڑائیاں بھی سیاسی ہوگئی ہیں، بچے آپس میں الجھ پڑتے ہیں‘ دلائل ہوتے نہیں لہذا جو کچھ گھر سے سنا ہوتا ہے وہی اچھل اچھل کر بیان کرتے ہیں اورہاتھا پائی شروع ہوجاتی ہے۔ان بچوں کی اکثریت نیوز چینلز نہیں دیکھتی‘ اخبارات نہیں پڑھتی۔۔۔اِنہیں جو موٹی موٹی معلومات درکار ہوتی ہیں یہ اپنے والدین سے پوچھ لیتے ہیں اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ سچائی آشکار ہوگئی ہے۔کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارا بچہ اگر ہم سے پوچھے کہ ’’ ہم شیعہ ہیں‘ سنی ہیں‘ وہابی ہیں ‘ بریلوی ہیں یا دیوبندی؟‘‘ تو ہماری اکثریت کا بڑا سلجھا ہوا جواب ہوتاہے کہ ’’بیٹا ہم صرف مسلمان ہیں‘‘۔لیکن یہی بچہ جب ہم سے سیاسی حوالے سے کوئی وابستگی جاننا چاہتا ہے تو ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ ’’بیٹا ہم صرف اُس کے ساتھ ہیں جو پاکستان کا بھلا چاہے‘‘۔ ایسے موقعوں پر ہم فوراًاپنے پسندیدہ لیڈر کے اوصاف گنواتے ہیں اوربچے کے کچے ذہن میں پکی طرح بٹھا دیتے ہیں کہ فلاں پارٹی ہی بہترین ہے۔اچھے برے کی تمیز سکھاتے وقت ہم بچے سے جنرل بات کرتے ہیں لیکن سیاست کا ذکر آئے توپوری طر ح پن پوائنٹ کرتے ہیں کہ یہ ہے وہ بندہ جو پاکستان کے لیے ضرور ی ہے۔اِس پٹی کا اثر یہ ہورہا ہے کہ بچے غیر سیاسی نہیں رہے۔ اِ ن کے سامنے اگر خاندان کا کوئی بڑا بزرگ بھی بیٹھا ہو اور وہ ان کے سیاسی نظریات کے برعکس ہو تو یہ اس کو بھی تضحیک آمیز جملے لگا نے سے باز نہیں آتے۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی اِس گیم میں شامل ہونے والے بچے سکول کا سبق یاد کریں نہ کریں سیاسی نفرت کاپورا باب رٹ لیتے ہیں اور پھر جوش و خروش سے اس کا اظہار کرتے ہیں ‘ والدین کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا اور فوراً موبائل فون پر وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئرکردی جاتی ہے۔بدترین سیاسی نفرت کے اِس عہد میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی معراج اُس وقت دیکھنے کو ملے گی جب پتا چلے گا کہ سیاسی مخالفین کے کھانے کے برتن بھی الگ کردیے گئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply