ملتان کانفرنس عشایہ اور شامِ غزل

بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان کے شعبہ علوم اسلامیہ اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آبادکے زیرِ اہتمام بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان میں منعقدہ دو روزہ انٹر نیشنل کانفرنس (16،17،مارچ2017ء) کے پہلے دن اسپائر گروپ آف کالجز کے جناب شکیل گجر اور ڈاکٹر مجتبیٰ صاحب کی طرف سے کانفرنس کے مندوبین کو عشایہ دیا گیا، عشایے میں خوبصورت غزل گائیکی کا بھی اہتمام تھا ، اس کی خاص اور دل چسپ بات یہ تھی کہ غزل اور کھانے سے پہلے انٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد کے صدر جناب ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش (جواہل فکر ونظر کی کئی برس کی درستی کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں درویش ہی کہے جا تے ہیں) کی تقریر تھی۔جناب دریویش کی تقریر مختلف کانفرنسز میں متعدد بار سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ ان کے بارے میں میرا اور دیگر متعدد احباب کا بھی عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اپنی تقریر بہت لمبی کر دیتے ہیں، جس میں پہلے تقریبا پندرہ بیس منٹ تو رسمی سلام کرتے کرتے لگ جاتے ہیں اور آخری پندرہ بیس منٹ دعائیہ کلمات میں صرف ہوتے ہیں۔ ان کی تقریراکثر وبیشتر ہمارے یہاں کے جمعے کے عربی خطبے کے مشابہ ہوتی ہے۔ ان کی تقریر کے خاتمے پر تقریبا جمعے کی نماز کا ماحول بن گیا ہوتا ہے۔ مذکورہ عشایے میں ان کے پیدا کردہ اس ماحول کے بعد ایک دل چسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب وہ سٹیج سے اترے اور غزل گایئک نے سٹیج پر جاکر سُر چھیڑ دیا۔ کھانے کے دوران احباب کی طرف سے ازراہِ تفنن مختلف تبصرے ہوتے رہے۔ جب سرتال والے حضرات نے روایتی انداز میں برکت کے لیے ابتدائی اشعار میں نعرہ مولا علی دا لا۔۔ کا راگ الاپا، تو بعض نے کہا اب درویش صاحب کو اس کا ترجمہ کر کے بتائیں بھلا، لگ پتہ جاتا ہے۔ کسی نے کہا کہ اسلامی شامِ غزل منائی جا رہی ہے۔ میرا تبصرہ تھا کہ یہ متبادل بیانیے کا ایک حصہ ہے۔ اس سے بھی دل چسپ ماحول تب پیدا ہوا جب کھانے کے بعد نکلتے وقت میزبانوں کی طرف سے ڈھولوں والوں کا گروپ اپنے مخصوص لباس میں جناب درویش صاحب کے آگے آگے ڈھول بجاتا اور رقص کرتا ہوا، انھیں پروٹوکول کے ساتھ ان کی گاڑی تک رخصت کرنے جا رہا تھا، درویش صاحب ساتھیوں سے مسکراتے ہوئے اس پروٹوکول پر متعجب سے ہو رہے تھے، پیچھے پیچھے ہم بھی جا رہے تھے۔ اردن کے شیخ زید المحسن میرے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، میں نے ان سے کہا شیخ یہ پاکستانی ثقافت کا ایک حصہ ہے، تو انہوں نے کہا ہاں ہاں اس میں کیا حرج ہے ہمارے یہاں اس نوع کی ایکٹویٹیز تراث کے عنوان سے ہوتی رہتی ہیں۔ اس پروگرام کو اگرچہ بعض اہل تقوی اپنی گفت گو میں خلاف اسلام باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن ہمیں اچھا لگا، شاید ہمارے غلبۂ فسق کی وجہ سے!

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply