بنی ہاشم پر حلت و حرمتِ زکوٰۃ

اﷲ تبارک وتعالی نے انسانی تخلیق میں مساوات کے اصول کے بجائے تنوع اور انفرادیت کے عنصر کو مدنظر رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ نہ تو انسان صورتاً ایک جیسے ہیں نہ ہی عادتاً اور نہ ہی مال و دولت کے اعتبار سے ۔الغرض انسانوں اور کائنات میں کسی بھی جگہ یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ باوجود عدمِ یکسانیت کے جو تنوع اورحسن موجو د ہے وہ بے مثال ہے ۔ اسی عدم ِ یکسانیت کے سبب معاشرے میں کوئی امیر ہے تو کوئی غریب ،لہذا اس عدم مساوات کو تو ہم اﷲ کا نظام کہہ سکتے ہیں مگر یہ عدم مساوات کی وجہ انسانوں کے امتحان سے مشروط ہے، آیا کیا وہ جسے ہم نے مال دیا وہ اس مال کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے کیا اس پر طمع وحرص کی پٹی اس طرح بندھ چکی ہے کہ وہ کسی کی مدد کو تیارنہیں ہے ،بالکل اسی طرح جسے غریب بنایا ہے کیا وہ اس پر صابر وشاکر ہے یا شکوہ کناہ ہے۔ مال کی محبت اور اس کے جمع کرنے کی طمع اور دوسروں پر خرچ نہ کرنے کی انسان کی اس فطرت کی اصلاح کے لئے خدائے وحدہ لاشریک نے حضرات انبیاء کو بھیجا تاکہ معاشرہ انسانی اعتدال پر آسکے ۔نا صرف یہ بلکہ امراء کے لئے یہاں تک ہدایت دے دی کہ
فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم{معارج۷۰:۲۴}
ترجمہ :ان کے اموال میں سائل ومحروم کا حق موجود ہے۔
یہ ان کاحق ہی ہے کہ جب تک اس کی ادائیگی نہ ہوجائے، ان کے مال پاک نہیں ہوتے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
خذ من اموالھم صدقۃ وتطھرھم {التوبہ۹:۱۰۷}
ترجمہ:ان کے مال سے صدقہ لواور انہیں پاک کرو۔
اسلام نے زکوٰۃ وعشر کی فرضیت کی صورت میں غرباء وفقراء وغیرہ کی امداد و اعانت کا وہ بے مثال انتظام کیا ہے جو اپنی مثال آپ ہے ۔خود پیغمبر نے اپنی زندگی میں جب ان کے لئے اور ان کے اقرباء کے لیے قرآن نے اموالِ فئی وغنیمت میں سے حصہ متعین کردیا تو پیغمبر نے زکوۃ کے مال سے اپنے ذاتی خرچ و اقرباء کے لے زکوۃ کو حرام ٹھہرا دیا اور یہی حالت آپﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے تک رہی لیکن بعد از وصال ِنبی ﷺ رسول اﷲ کا حصہ تو بالاتفاق فقہاء ساقط ہو گیا(سوائے امام شافعی کے)لیکن اقرباء کے حصہ میں فقہائے ثلاثہ اس کے جاری رکھنے کے حامی ہیں جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک بنو ہاشم کا حصہ بھی ساقط ہوگیا ہے۔بہر حال صورت مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا حکم ہے؟ کیا بنوہاشم پر زکوۃ اب بھی حرام ہے جبکہ اب انہیں اموالِ فئی کا حصہ بھی نہیں مل رہا ہے؟ زیرِ مطالعہ آرٹیکل میں اسی چیز کو موضوع بنایا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ فقہاء کی آراء ،بدلے ہوئے حالات اور حرمت زکوۃ کی اصل علت کیا تھی اور اب بھی وہ علت باقی ہے یا نہیں، پر آگاہی حاصل کرکے اصل حقیقت تک پہنچا جائے۔اسی لئے اولاً مصارفِ زکوٰۃ واموالِ فئی بتائے گئے ہیں،حرمت زکوۃ بنی ہاشم پر ،تقسیم ِ خمس بعد از وصالِ رسولﷺ زکوۃ کی حرمت وحلت میں فقہا ء کے نظریات، صحیح مسلم کی حدیث پر کلام اور آخر میں نتائج ذکر کیے ہیں۔
مصارفِ زکوٰۃواموال ِفئی۔
اسلامی ریاست مسلمانوں سے ریاستی ذمہ داریاں اور غرباء کی امداد و اعانت کے لئے زکوۃ و عشر وصول کرتی ہے اور غیرمسلم جوکہ مسلمانوں سے صلح پرآمدہ ،ایک خاص رقم سالانہ ادائیگی کے طور پر لے گی جسے جزیہ کہتے ہیں ۔اسی طرح کسی قوم سے بغیر لڑے صلح ہوجائے تو ان کی طرف سے دیے جانے والے تحائف ورقوم کو فئی کہتے ہیں ، اسی طرح اگر کسی قوم سے جنگ کے نتیجے میں مال وسامان ہاتھ آئے اسے غنیمت کہتے ہیں ۔قرآن ِکریم نے اموال ِزکوۃوعشر اور فئی وغنیمت دونوں کے مصارف واضح طور سورہ توبہ وانفال میں بتادیئے ہیں۔ ارشاد ہوتاہے۔
انما الصدقات للفقراء والمساکین والعاملین علیھا والمؤلفۃقلوبھم وفی الرقاب والغرمین وفی سبیل اﷲوابن السبیل فریضۃ من اﷲ واﷲ علیم حکیم{التوبہ۹:۶۰}
ترجمہ:یہ صدقات تو بس فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان کے لئے جو ان پر عامل بنائے جائیں اور ان کے لئے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو اور اس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے اور تاوان زدوں کی مدد کرنے ،راہِ خدا میں اور مسافروں کی بہبود کے لئے خرچ کیے جائیں، یہ اﷲ کا مقرر کردہ فرض ہے اور اﷲ علیم وحکیم ہے۔
اموالِ غنیمت کی تقسیم:
واعلموا انما غنمتم من شیء فان لللہ خمسہ و للرسول ِ ولذی القربی و الیتمٰی والمساکین وابن السبیل ۔۔{الانفال۸:۴۱}
ترجمہ: اور جان لو کہ تم جس قسم کی جو غنیمت حاصل کرو اور اس میں پانچواں حصہ تو اﷲ کاہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا۔
دونوں مقامات پر فقراء کا حصہ عام ہے خواہ وہ بنو ہاشم سے ہوں یا ان کے غیر الا یہ کہ اﷲ کے رسول نے خود مالِ غنیمت میں سے حصہ ملنے کے بعد عام صدقات میں سے اپنے اقرباء کو کچھ بھی نہیں لینے دیا۔
بنی ہاشم پر زکوٰۃ کی حرمت:
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے زکوۃ کو خود پر اور اپنی آل پر حرام قرار دیا تھا ۔حرمت زکوۃ کے سلسلہ میں حدیث کی تمام ہی امہات کتب میں روایات موجود ہیں ،جو اس امر کی وضاحت کرتی ہے آلِ محمد پر زکوۃ حرام ہے(۱) حرمتِ زکوٰۃ کی وجہ بعض کے نزدیک خمس سے ذوالقربیٰ کا حصہ ملنا تھی ۔جیساکہ ابن ہمام نے روایت نقل کی ہے کہ “یا بنی ہاشم ان اﷲ کرہ لکم غسالۃ ایدی الناس و اوساخھم وعوضکم منھا بخمس الخمس” (۲) جبکہ بعض کے نزدیک اس کی علت اوساخ الناس ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے “عبد اﷲ بن محمد بن اسماء بن اضبعی بیان کرتے ہیں کہا ہمیں بتایا جویریہ نے جنہوں نے مالک سے ،انہوں نے زہری سے روایت کیا کہ عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ بخدا اگر ہم ان دو لڑکوں کو رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیں اور یہ دونوں(یہ میر ے اور فضل بن عباس کے متعلق کہا) رسول اﷲ ﷺ سے عرض کریں کہ آپ ان دونوں کو زکوۃ وصول کرنے پر عامل بنا دیں اور یہ دونوں آپ کو اس طرح لاکر دیں جس طرح اور لاکر دیتے ہیں اور جو اور لوگوں کو ملتا ہے ان کو بھی مل جائے اسی اثناء میں حضرت علی بھی آکر کھڑے ہوگئے ،انہوں نے حضرت علی سے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ،حضرت علی نے فرمایا ایسا مت کرو،آپ اس طرح کرنے والے نہیں ہیں، اس پر ربیعہ حضرت علی کو برا بھلا کہنے لگے اور کہا کہ خدا کی قسم تم صرف حسد کی بنا پر ایسا کہہ رہے ہو تمہیں رسول اﷲ کی دامادی کاشرف حاصل ہے ہم تو اس بنا پر تم سے حسد نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم میں سے ایک نے گفتگو کی اور عرض کیا یارسول اﷲ آپ سب سے زیادہ احسان اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور ہم نکاح کے قابل ہوگئے ہیں، ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ آپ ہمیں ان بعض صدقات پر عامل بنادیں ہم بھی آپ کو مال وصول کرکے لاکر دیں ،جیسا کہ اور لوگ لاکر دیتے ہیں اور ہم کو بھی اس میں سے اسی طرح حصہ مل جائے جیساکہ لوگوں کو ملتا ہے۔ ربیعہ کہتے ہیں حضور کافی دیر تک خاموش رہے۔۔پھر حضور نے فرمایا آلِ محمد کو صدقہ استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ لوگوں کا میل ہوتا ہے(۳)۔
تقسیم ِخمس بعد از وصالِ نبی ﷺ
بعد از وصال ِنبی ﷺ آلِ رسول کو خمس سے حصہ دیا جائے گا یا نہیں۔۔ اس ضمن میں فقہاء ثلاثہ شافعی، مالک ، احمد بن حنبل کے مطابق خمس کا ذوالقربیٰ کا حصہ جاری رہے گا، جبکہ اس کے برعکس ابوحنیفہ کے مطابق آپ ﷺ کے وصال کے بعد قرابت داروں کا حصہ بھی ساقط ہوجائے گا اور فقراء بنو ہاشم کی مدد خمس میں موجود فقراء کی صنف میں ہی سے کی جائے گی ،علیحدہ کسی حصہ کے وضع کی ضرورت نہیں ہے۔ درج ذیل میں ان تمام فقہاء کے موقف کو درج کیا جارہا ہے۔
فقہائے شافعیہ کے مطابق: فخر الدین الرازی لکھتے ہیں”رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد بھی امام شافعی کے نزدیک خمس کے پانچ حصے کیئے جائیں گے ،ایک حصہ رسول اﷲ ﷺ کے لئے ہو گا اور اس کو مصالح المسلمین میں صرف کیا جائے گا،جہاں اس کو رسول اﷲﷺ خرچ کرتے تھے ،مثلا مجاہدوں کے لئے گھوڑوں اور ہتھیاروں کی خریداری کے لئے ،ایک حصہ آپ کے قرابت داروں کے لئے خواہ وہ غنی ہوں یا فقیر ،اس کی تقسیم ان میں اس طرح ہو گی کہ مردوں کو دو حصے ملیں گے اور عورتوں کو ایک حصہ ملے گا اور خمس کے باقی تین حصے یتیموں ،مسکینوں اور مسافروں میں تقسیم کئے جائیں گے (۴)۔
فقہائے حنابلہ کے مطابق: علامہ موفق الدین عبداﷲ بن قدامہ مقدسی حنبلی لکھتے ہیں “حضرت جبیر بن مطعم بیان کرتے ہیں کہ وہ اور حضرت عثمان رسول اﷲﷺ کے پاس آئے جبکہ آپ نے خمس کوبنو ہاشم اور بنو المطلب میں تقسیم فرمایا ۔میں نے عرض کیا یارسول اﷲ آپ نے ہمارے بھائیوں میں سے بنو المطلب میں خمس تقسیم فرمایا اور ہمیں کچھ بھی نہیں دیا ،حالانکہ ان سے آپ کی قرابت اور ہماری قرابت واحد ہے، پس نبی ﷺ نے فرمایا صرف بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک چیز ہیں ۔حضرت جبیر نے کہا نبی ﷺنے اس خمس میں سے بنوعبدشمس اوربنو نوفل کو بالکل عطا نہیں فرمایا، جیساکہ آپ نے بنو ہاشم اور بنوالمطلب کے درمیان خمس کو تقسیم فرمایاتھا، اور حضرت ابو بکر بھی رسول اﷲ کی تقسیم کے مطابق خمس کو تقسیم فرماتے تھے۔ البتہ رسول اﷲ ﷺ اپنے قرابت داروں کو جو عطا فرماتے تھے حضرت ابو بکر ان کو وہ عطا نہیں کرتے تھے لیکن ان کے بعد حضرت عمر بن الخطاب اور ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان نبی ﷺ کے قرابت داروں کو خمس میں سے عطاکرتے تھے۔ امام داؤد کے علاوہ کسی نے یہ جملہ روایت نہیں کیا کہ حضرت ابوبکر حضور کے قرابت داروں کو نہیں دیتے تھے ۔حافظ ابن ِحجر نے کہا کہ یہ اضافہ زہری نے اپنی طرف سے کیا ہے (ابن ِحجر ، فتح الباری شرح البخاری، ج:۶،ص:۲۴۵،سنن ابو داؤد رقم الحدیث :۲۹۷۸)اور ان کے درمیان بر طریق عموم تقسیم کرنا واجب ہے کیونکہ اﷲ تعالی نے عمومی طور پر فرمایا ہے اور(آپﷺ کے)قرابت داروں کے لئے اور اس لیے کہ اس حق کا استحقاق قرابت کی وجہ سے ہے لہذا اس میں عموم ہوگا، جس طرح میراث میں عموم ہوتا ہے۔ پس ان میں سے غنی اور فقیر اور مرد اور عورت سب کو دیا جائے گا۔(5)
فقہائے احناف کے مطابق:
علاء الدین ابو بکربن مسعود کاسانی لکھتے ہیں:
رسول اﷲ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے حصے اور ذوالقربی کے حصہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ہمارے علماء احناف نے یہ کہا ہے کہ رسول اﷲ ﷺکی وفات کے بعد آپ کا حصہ ساقط ہوگیا ۔۔۔۔ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ خمس رسول اﷲﷺ کی خصوصیت تھی جیسا کہ آپ کی زندگی میں صفی اور فئی آپ کی خصوصیت تھی ،پھر آپ کے بعدصفی اور فئی میں کسی کی خصوصیت نہ تھی ۔اس لئے واجب ہے کہ خمس میں بھی کسی کی خصوصیت نہ ہو ۔۔۔۔۔ہمارے نزدیک بنوہاشم کے اغنیا ء کو خمس میں سے نہیں دیا جائے گا ،البتہ بنو ہاشم کے فقراء کو خمس میں سے دیا جائے گا اور ان کے لئے علیحدہ حصہ وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ فقراء کے حصے میں داخل ہیں بلکہ دوسرے فقراء پر مقد م ہیں(6)۔
زکوٰۃ کی حلت بعد از وصالِ نبی ﷺ میں فقہاء کے نظریات “اکثریت فقہاء بنو ہاشم پر زکوٰۃ کے حرام ہونے کی قائل ہے ۔ہاں البتہ فقہائے مالکیہ میں سے ابوبکر ابھری اور متاخرین مالکیہ،ابو حنیفہ ایک روایت کے مطابق اور شافعیہ میں سے ابوسعید الاصطخری، قاضی یعقوب اور ابوالبقاء حنبلی، اسی طرح ابو یوسف اس نظریہ کے حامی ہیں کہ “ان منعوا الخمس اخذوا الزکاۃ”۔(7)
ترجمہ: اگر انہیں خمس میں سے نہ دیا جائے تو زکوۃ سے لیں گے۔
وقال ابوحنیفہ رحمہ اﷲ ایضا:انھا کلھا حلال لبنی ھاشم وغیرھم ،وانماکان ذلک محرما علیھم اذکانوا یاخذون سھم ذوی القربی ،فلما قطع عنھم حلت لھم و نحوہ عن الابھری من شیوخنا،وروی عن ابی یوسف انھا حرام علیھم من غیرھم حلال لھم صدقۃ بعضھم علی بعض۔(8)
اسی قسم کی عبارات دیگر کتبِ حنفیہ میں موجود ہیں ان میں مُلاعلی قاری کی مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،ج:۴ص:۳۳۵،مکتبہ حقانیہ،ابوبکر جصاص رازی کی احکام القران،ج:۳،ص:۱۹۳،قدیمی کتب خانہ،ابو بکر بن علی حداد یمنی کی کتاب الجوہر ۃالنیرۃ،ج:۱،ص:۱۶۰،مکتبہ حقانیہ ملتان، ابن ِھمام نے فتح القدیر شرح الھدیہ،ج:۲،ص:۲۷۷،دارالکتب العلمیہ، شیخ احمد طحطاوی نے حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،ص:۳۹۳،میر محمد کتب خانہ۔
اسی طرح مسئلہ ہذا میں عبدالرحمن الجزیری نے مالکی فقہا ء کا نظریہ اس طر ح ذکر کیا ہے”و ان لا یکون کل منھما (الفقیر والمسکین)من نسل ھاشم بن عبد المناف اذا أعطوا ما یکفیھم من بیت المال والا صح اعطاء ھم ،حتی لایضر بھم الفقر”(9)
ترجمہ اور نہ ہو فقیر ومسکین بنی ہاشم میں سے جب کہ انہیں بیت المال سے ان کی گذر اوقات دی جارہی ہو ورنہ انہیں دینا صحیح ہے تاکہ فقر انہیں نقصان نہ پہنچائے۔
اسی قسم کا فتوی ٰ رائے فقہا ئے احناف میں سے عبداﷲ بن محمود بن مودود الموصلی نے دیا ہے”وذکر بعض اصحابنا :یجوز للھاشمی ان یدفع زکاۃ مالہ الی الھاشمی عند ابی حنیفۃ، خلافا لابی یوسف؛وجھہ ان المراد بقولہ اوساخ الناس غیرھم ھو المفھوم من مثلہ، فیقتضی حرمۃ زکوۃغیرھم علیھم لا غیر،و ذکر فی المنتقی عن ابی عصمۃ عن ابی حنیففۃان الدقۃ تحل لبنی ھاشم ،وففقیرھم فیھا کفقیر غیرھم،ووجھہ ان عوضھا وھو خمس الخمس لم یصل الیھم لاھمال ِ الناس امر الغنائم و قسمتھا وایصالھا الی مستحقھا،و اذا لم یصل الیھم عوض عادوا الی المعوض عملابمطلق الایۃسالما عن معارضۃ اخذ العوض،و کما فی سائر المعادضات،ولانہ اذا لم یصل الیھم واحد منھما ھلکوا جوعا،فیجوز لھم ذلک دفعا للضرر عنھم “(10)۔
ترجمہ “اور ہمارے بعض اصحاب نے ذکر کیا ہے ، ایک ہاشمی کی زکوۃ دوسرے ہاشمی کو دی جاسکتی ہے ابو حنیفہ کے مطابق ،بر خلاف ابو یوسف کہ، اور قول اوساخ الناس کی توجیہ یہ ہے کہ اس سے مراد ان کے غیر سے ہے پس اسی وجہ سے غیر ہاشمی کی زکوۃ ان پر حرام ہے نہ کہ ہاشمی کی، اور منطقی میں مذکور ہے کہ ابو عصمہ نے ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ بنی ہاشم کے لئے صدقہ حلال ہے اور ان کے فقراء ان کے غیر سے فقراء کی مثل ہیں اور اس کی وجہ ان کے لئے مختص عوض خمس کا خمس ہے جو کہ اب انہیں نہیں ملتا لوگوں کے روکنے کے سبب امور ِغنائم اور اس کی تقسیم اور اس کے مستحقین تک پہنچنے کے سبب، اسی لئے جب انہیں عوض نہیں ملتا تو معوض عملی طور پر دوبار لوٹ جائے گا آیت کے مطلق ہونے کے سبب، تاکہ معارض ِ اخذ ِزکوۃ سے محفوظ رہے اور جیساکہ تمام معاوضات میں ہوتاہے اور اسی وجہ سے جب ان میں سے کسی کو زکوۃ نہ دی جائے گی تو وہ سبب بھوک کے ہلاک ہو جائیں گے، پس اسی سبب ان کے لئے زکوۃ لینا جا ئز ہے دفع ضرر کے لئے۔
صحیح مسلم کی حدیث پر کلام
صحیح مسلم میں ذکر کردہ حدیث کہ جس میں اوساخ الناس کی علت ہے جوحرمت زکوۃ کا باعث ہے بنی ہاشم پر، اولا یہ کہ اسی کی مثل روایت سنن نسائی (۱۱)میں بھی موجودہے اور امام مسلم کی ذکر کردہ روایت شرح معانی الآثار میں امام طحاوی نے ذکر کی ہے، تو ذخیرہ احادیث میں یہ دو روایتیں ہی ہیں جنہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور ساری روایتیں زہری ہی کے واسطے سے ہیں، اور زہری سے متعلق آئمہ حدیث اس بات کے حامی ہیں کہ زہر ی روایت بیان کرنے میں ارسال، ادراج اور تدلیس سے کام لیتے تھے۔ جیساکہ اس کا اقرار امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ(ج:۲،ص:۱۰۶) میں کیاہے کہ:ابو داؤد نے کہ زہری کی حدیثیں ۲۲۰۰ ہیں، جن میں نصف مسند ہیں باقی سب مرسل ہے(12)۔زہر ی کے ادراج کا ذکر ما قبل بحث تقسیم خمس میں فقہا ء حنابلہ کے موقف میں ابن ِ حجر کے حوالے سے گذر چکاہے۔مزید یہ کہ کتاب المعتصر من المختصر ص:۱۲۵ میں زہر ی سے متعلق لکتے ہیں “کان یخلط کلامہ بالحدیثِ ولذلک قال موسی ٰ بن عقبہ افصل کلام رسول اﷲ من کلامک “یعنی زہری حدیث میں اپنی بات ملا دیا کرتے تھے، اسی لئے موسی ٰ بن عقبہ نے زہری کو ڈانٹا تھا کہ تم رسول اﷲ ﷺ کے کلام کو اپنے کلام سے الگ رکھا کرو۔(13)
اسی طرح زہری کی تدلیس کو حافظ ابن ِ حجر نے اپنی کتاب طبقات المدلسین ص:۱۵ میں زہری کابھی ذکر فرماتے ہیں،
“وصفہ الشافعی والدارقطنی و غیر واحد بالتدلیس” یعنی اما م شافعی ،دار قطنی اور متعدد لوگوں نے زہری کو تدلیس کی صفت سے متصف کیاہے۔
زہر ی کے اس حال کے بعد صاف واضح نظر آتا ہے کہ اوساخ الناس کی علت زہری کے ادراج میں سے ہے، یہی نہیں بلکہ اس روایت میں مذکور ربیعہ کا حضرت علی کو برابھلا کہنا اور حسد کا الزام لگانا بھی اسی ادراج کی کہانی لگتی ہے۔ دوسری اہم چیز یہ کہ مسلم کی روایت امام مالک کے واسطے سے زہری سے ہے۔ حالانکہ امام مالک نے اپنی موطا میں اس قسم کی کسی روایت کو رد نہیں کیا ہے۔تیسری اہم چیز یہ کہ اگر ان احدیث کو صحیح بھی مان لیاجائے تب بھی اس میں موجود علت مانع زکوۃ نہیں ہوگی کیونکہ یہ احادیث اخبار ِاحاد ہیں اور خبر واحد سے قرآ ن کے عموم (فقراء مصارف ِ زکوۃ میں)کو خاص نہیں کیاجاسکتا۔اور آخری چیز یہ کہ اگر سب کو ایک طرف رکھ کر زکوۃ کو آج بھی حرام قرار دے دیں تو فقرائے بنو ھاشم کی ذمہ داری کس طرح ادا کی جائے گی کیونکہ اب خمس کا سلسلہ باقی نہیں ہے؟
حاصل ِ بحث ۔۔اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ:
1۔زکوۃ بنو ھاشم پر خمس کے سبب حرام تھی ۔
2۔خمس کی ادائیگی کی صورت میں زکوۃ کسی طور پر بھی بنوھاشم کو نہیں دی جاسکتی،
3۔بنو ھاشم کی زکوۃ بنو ھاشم کو دی جاسکتی ہے
4۔اوساخ الناس کی علت والی احادیث زہری سے مروی ہونے کے سبب اس درجہ میں نہیں پہنچتی کہ حرمت کو ثابت کرے ،کیونکہ زہری ارسال ،ادراج اور تدلیس کے سبب غیر معتبر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ جات:
۱۔ترمذی ،باب ماجاء فی کراھیۃ صدقۃ لنبی ، ص:۲۶۰،مکتبہ رحمانیہ ، صحیح بخاری ، باب ۹۴۲،رقم الحدیث:۱۳۹۷،الالمام باحادیث ِ الاحکام ،قاضی تقی الدین الھروی،ج:۱ ،ص:۳۳۰،دارالمعراج الدولیہ للنشر طبع ۲۰۰۲
۲۔ غریب بھذااللفظ،کذا قال الزیلعی فی نصبالرایہ ۴/۴۰۳،ماخوذاز ابن ِھمام، فتح القدیر ،ج:۲، ص:۲۷۷،دارالکتب العلمیہ بیروت، الطبعہ الاولیٰ ۲۰۰۳
۳۔صحیح مسلم، رقم الحدیث:۲۳۷۷
۴۔ فخرالدین الرازی، تفسیرِ کبیر، دار احیاء الترث العربی ۱۴۱۵،ج:۵، ص:۴۸۵
۵۔ابن ِ قدامہ حنبلی،الکافی ،ج:۴ ،ص:۱۵۴،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ۱۴۱۴،ماخوذ از تبیان القرا ن، غلام رسول سعیدی، ج:۴،ص:۶۴۱،طبع رابع ۲۰۰۴
۶۔ علاء الدین کاسانی،البدائع الصنائع،ج:۹،ص:۴۹۹۔۵۰۰،دارالکتب العلمیہ،۱۴۱۸،ج:۵،ماخوذ از تبیان القرا ن، غلام رسول سعیدی،ج:۴،ص:۶۴۲،طبع رابع ۲۰۰۴، المبسوط لشمس الدین ابوبکر محمدالسرخسی، ج:۲،ص:۱۷،دارالفکر۲۰۰۰
۷۔علامہ بدرالدین عینی،،نخب الافکارفی تنقیح ِمبانی الاخبار شرح شرح معانی الآثار،ج:۵،ص:۵۔۶،قدیمی کتب خانہ
۸۔علامہ بدرالدین عینی،،نخب الافکارفی تنقیح ِمبانی الاخبار شرح شرح معانی الآثار،ج:۵،ص:۶،قدیمی کتب خانہ ۔
۹۔الفقہ علی مذاہب ِ الاربعہ، جزء اول،ص:۳۲۱، دارالکتب العلمیہ
۱۰۔کتاب الاختیار لتعلیل ِ المختار،ج:۱،ص:۱۵۶۔۱۵۷،
۱۱۔ سنن نسائی،ج:۱،ص:۳۶۶، قدیمی کتب خانہ
۱۲۔علامہ تمنا عمادی، امام زہری و امام طبری تصویر کا دوسرا رخ،الرحمن پبلشگ ٹرسٹ،ص: ۱۴۷
۱۳۔علامہ تمنا عمادی، امام زہری و امام طبری تصویر کا دوسرا رخ،الرحمن پبلشگ ٹرسٹ،ص: ۱۴۸

Facebook Comments

سید محمد کاشف
شہادۃ العالمیہ، ایم اے جامعہ کراچی، فاضل عربی، ایم فل جامعہ کراچی۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply