فلیٹ ارتھر حقیقت یا افسانہ؟۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط8

 اعتراض 121: اگر سورج انتہائی بڑا اور چاند انتہائی چھوٹا ہے تو دونوں کا سائز ایک جیسا کیسے ہے؟
جواب: ہمارا چاند چونکہ سورج سے 400 گنا چھوٹا ہے جبکہ سورج ہم سے چاند کی نسبت388 گنا دُور ہے اسی خاطر دونوں کا سائز ایک جیسا دِکھائی دیتا ہے، یہ اعتراض بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی مینارِ پاکستان سےکچھ دُوری پر کھڑے ہوکر تصویر کھینچوائے اور دوسروں کو بتائے کہ مینارِ پاکستان مجھ سے چھوٹا ہے۔
اعتراض 122:  ناسا اور امریکی حکومت نے ایک سازش کے تحت فلیٹ ارتھرز کو بدنام کررکھا ہے۔
جواب: اس کا مطلب ہے کہ فلیٹ ارتھرز خود بھی مانتے ہیں کہ اپنے مضحکہ خیز اعتراضات کے باعث وہ دُنیا بھر میں بدنام ہیں۔ بہرحال یہ ایک غیر سائنسی اور جھوٹا اعتراض ہے۔ ان کے اعتراض میں اگر ذرا بھر بھی سچائی ہوتی تو امریکا کے حریف ممالک میں سے بیشتر اپنی سیٹلائٹس خلاء میں پہنچا چکے ہیں ۔ کوئی ایک ملک سرکاری طور پر گول زمین کے “جھوٹ” ہونے کا بھانڈا پھوڑ چکا ہوتا ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ دنیا کے تمام ممالک کے تمام سائنسدان جھوٹ بول رہے ہوں صرف ایک اقلیتی طبقہ سچا ہو۔
اعتراض123: پچھلے کچھ سو سالوں کے درمیان کئی بار سائنسدانوں نے قلابازیاں کھا کر سورج کی زمین سے دُوری کے متعلق calculations کو بدلا ہے، جبکہ فلیٹ ارتھرز صدیوں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ سورج اور چاند صرف 32 میل قُطر کے حامل ہیں جو زمین سے چند ہزار کلومیٹر کی اونچائی پر گھوم رہے ہیں۔
جواب: سائنس کی یہی خوبی ہے کہ اس میں وقت کے ساتھ ساتھ نکھار آرہا ہے ، اگر کسی چیز کو ہم سو سال پہلے  اچھی طرح نہیں سمجھ پائے اور آج اس کے متعلق باریکی سے جان چکے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ جھوٹ ہے ۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی محض بغض سائنس پر مبنی ہے ۔
اعتراض 124: عموماً جب فلکیات کے شوقین لوگ ہیلیئم گیس سے بھرے غبارے میں کیمرا لگا کر اونچائی سے ویڈیو بناتے ہیں تو اس میں سورج کے نیچے سمندر پر پیلے رنگ کا داغ نظر آرہا ہوتاہے اگر سورج کروڑوں میل دُور ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔
جواب: روشنی کے reflect ہونے کے لئے فاصلہ معانی نہیں رکھتا، سُورج بے انتہاء بڑا ہے جس کی وجہ سے بے انتہاء دور ہونے کے باوجود اس کا image سمندر کے پانی پہ بنا نظر آتا ہے۔
اعتراض125: سورج کروڑوں میل دُور نہیں  بلکہ انتہائی نزدیک ہے اس کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ بادلوں سے چھن کر آنے والی سورج کی روشنی مختلف زاویوں سے زمین پر گرتی دِکھائی دیتی ہے۔
جواب: یہاں پر فلیٹ ارتھرز سائنس سے اپنی ناواقفیت کا اظہار کرتے ہوئے scattering of light کے مظہر کو بھول رہے ہیں۔ بادلوں سے روشنی جب چھن کرآتی ہے تو پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے مختلف زاویوں میں دِکھائی دیتی ہے۔لیکن بادلوں کی غیرموجودگی میں (خصوصاً غروب آفتاب کے وقت) ایسا نہیں ہوتا اگر سورج انتہائی قریب ہوتا تو بادلوں کی غیرموجودگی میں بھی روشنی ایسی ہی دِکھائی دیتی۔
اعتراض126: سائنسدان کہتے ہیں کہ گرمیاں اور سردیاں زمین کے جھکاؤ اور زمین کے سورج کے گرد بیضوی مدار کے باعث ہے اگر دیکھا جائے تو ان کے ماڈل کے تحت جب زمین دسمبر اور جنوری میں سورج کے نزدیک ترین ہوتی ہے تب یہاں سردیاں ہوتی ہیں اور جب زمین سور ج سے جون ، جولائی میں دُور ہوتی ہیں اس وقت یہاں گرمیاں ہوتی ہیں۔
جواب: فلیٹ ارتھرز یہاں پر دوبارہ کم علمی کے باعث جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں، سائنسدان کبھی ایسا نہیں کہتے کہ زمین کے سورج کے نزدیک جانے سے گرمی اور سردی ہوتی ہے بلکہ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ زمین کے جھکاؤ کے باعث دسمبر اور جنوری میں زمین کا جنوبی کُرہ سورج کے سامنے ہوتا ہے جبکہ جون، جولائی میں زمین کا شمالی کُرہ سورج کے سامنے ہوتا ہےاِس جھکاؤ کے باعث موسم بدلتے ہیں۔
اعتراض 127: سمندر پر سورج اور چاند کا عکس سیدھی لکیر بناتا ہے جس کا مطلب ہے کہ زمین فلیٹ ہے۔
جواب: ہم نے پچھلی اقساط میں بھی سمجھا  ہےکہ زمین بے پناہ وسیع ہے جس کی وجہ سے کچھ کلومیٹر دُور آنے والا curve اتنا معمولی ہوتاہے کہ اس کو عام آنکھ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ اگر آپ سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر دیکھ رہے ہیں تو 10 کلومیٹر کے علاقے کے کناروں پر 0.09 ڈگری جھکاؤ آئے گا ، یہاں پر میرا فلیٹ ارتھرز سے سوال ہے کہ کیا سورج کے عکس سے بننے والی سیدھی لکیر میں 0.09 ڈگری کا curve انسانی آنکھ نوٹ کرسکتی ہے؟
اعتراض 128: پوری دُنیا میں صدیوں سے ایسی بڑی بڑی شمسی گھڑیاں اور قمری گھڑیاں اب تک موجود ہیں جو آج تک ایک ایک منٹ صحیح بتاتی ہیں۔ اگر جدید فلکیات کی تھیوریاں سچ ہوتیں تو ان کا اب تک صحیح وقت بتانا سمجھ سے باہر ہے۔
جواب: سورج ، زمین اور چاند کی گردش سینکڑوں سال سے ویسی ہی ہے سو ان گھڑیوں میں فرق آنا بھی نہیں چاہیے۔ یہاں پر فلیٹ ارتھرز یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ زمین کے جھکاؤ میں فرق کے باعث ان گھڑیوں کو غلط وقت دِکھانا چاہیے لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ فرق انتہائی معمولی ہے 2 ہزار سال میں زمین کے جھکاؤ میں صرف اور صرف  0.25 ڈگری کا فرق آیا ہے (اس کی وضاحت اگلے اعتراض کے جواب میں موجود ہے)، بہرحال ابھی تو ان گھڑیوں کو بنے کچھ سو سال ہوئے ہیں۔
اعتراض 129: William Carpenter کہتے ہیں کہ آپ اپنی ٹیلی سکوپ کو ایک پتھر کر جما دیں اتنا زیادہ کہ وہ ایک بال برابر بھی نہ ہل پائے، اب خود سوچ کر جواب دیجئے کہ ایک ایسی زمین جو اپنے محور پر 19 میل فی سیکنڈ کے حساب سے سپن کررہی ہے، اس کے علاوہ سورج کے گرد بھی ہوا میں گھوم رہی ہے، اتنی تیز رفتار سے سب ہورہا ہے کہ توپ کا گولہ بھی اس کی رفتار کو نہ چھُو سکے۔ اس سب کے باوجود آپ کی ٹیلی سکوپ ایک بال برابر بھی حرکت نہیں کرپارہی ،اس کو چھوڑیں پولارس ستارہ پورا سال شمالی قطب پر ایک جگہ ہی رہتا ہے ،زمین کی حرکت کے باعث اس کی جگہ بھی بدلتی دِکھائی نہیں دیتی، کیا وجہ ہے؟
جواب:ٹیلی سکوپ کے نہ ہلنے کی وجہ کشش ثقل اور اس کا زمین کے فریم آف ریفرنس میں موجود ہونا ہے ، جس کا ہم شروع والی اقساط میں بہت تفصیل سے پڑھ چکے ہیں۔جہاں تک بات پولارس ستارے کی ہے تو جو ستارہ ہم سے جتنا دُورہوگا اس کی جگہ میں تبدیلی اتنی کم ہمیں دِکھائی دے گی، پولارس ستارہ ہم سے 434 نوری سال دُور ہے۔ زمین کا اپنے محور پر جھکاؤ تبدیل ہوتا رہتا ہے ، زمین لٹو کی طرح ہےجیسے لٹو کو گھمایا جائے تو لٹو اپنے axisپر بھی سپن کرے گا اس کے علاوہ اپنے axis کے گرد بھی ایک چھوٹا سا چکر کاٹ رہا ہوگا، ویسے ہی زمین سپن بھی کررہی ہے اور جھکاؤ کے باعث اپنے axis کے گرد چھوٹا سا چکر بھی کاٹ رہی ہے ، یہ چکر 26 ہزار سال بعد مکمل ہوتا ہے، تبھی آج سے 5 ہزار سال پہلے پولارس ستارہ قطبی ستارہ نہیں تھا بلکہ ثعبان نامی ستارہ شمالی قطب پر واقع تھا ، آج پولارس قطبی ستارہ بن چکاہے کچھ ہزار سال بعد کوئی اور ستارہ اسکی جگہ آجائے گا 26 ہزار سال بعد پولارس دوبارہ قطبی ستارہ بن جائے گا، جس سے ثابت ہوتا ہےزمین گول ہے اور جدید فلکیات کی تمام “تھیوریاں” سچی ہیں۔
اعتراض 130: ڈاکٹر سیموئل روبوتھم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دو پائپ لیں ان کو کسی لکڑی یا پتھر پر لگا دیں دونوں  کے مابین ایک گز فاصلہ رکھیں ، ٹائم نوٹ کریں اور دونوں کو کسی ایک ستارے پر فوکس کردیں ، اب چھ ماہ کے لئے انہیں ایسا ہی چھوڑ دیں، چھ ماہ بعد آکر اسی ٹائم انہی ٹیوبز سے مشاہدہ کریں گے تو وہی ستارہ ان ٹیوبز میں دِکھائی دے گا جس کا مطلب ہے کہ زمین نہ اپنے محور پر جھکی ہے نہ ہی گردش کررہی ہے۔
جواب:ایسا تجربہ شوق سے کیجئے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قُطبین کے آس پاس موجود ستاروں کے علاوہ دیگر ستارے چھ ماہ بعد اُسی پوزیشن پر دوبارہ دِکھائی دیں۔زمین کے اپنے محور پر جھکاؤ اور گردش کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ ہمیں مختلف موسموں میں مختلف ستار وں کے جھرمٹ  آسمان پر دِکھائی دیتے ہیں، اگر تھوڑا سا خلوصِ نیت کے ساتھ غور و فکر کیا جائے تو  کوئی بھی باآسانی ان حقائق کو سمجھ سکتا ہے۔
اعتراض 131: چاندکی ہئیت کو سمجھا جائے تو معلوم ہوگا کہ چاند کوئی ٹھوس شے نہیں جس پر انسان قدم رکھ سکے، اسکے علاوہ چاند کی اپنی روشنی ہے ، یہ مشاہدے کے ذریعے باآسانی معلوم کیا جاسکتاہے۔
جواب: یہاں پر فلیٹ ارتھرز اپنے نظریات کا پرچار کرنے میں مصروف ہیں ، چاند ٹھوس ہے یا نہیں ہم ٹیلی سکوپ کے مشاہدے سے معلوم کرسکتے ہیں،چاند کی اگر اپنی روشنی ہوتی تو جزوی چاند گرہن کے دوران چاند کا آدھا حصہ غائب کیوں ہوجاتا ہے اس کا جواب فلیٹ ارتھرز آج تک نہیں دے سکے۔
اعتراض132: سورج اور چاند کی روشنی میں بے انتہاء فرق ہے، دونوں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں ، یہی بات فلیٹ ارتھ ماڈل میں موجود ہے، جو کہ فلیٹ ارتھ ماڈل کی سچائی کی دلیل ہے۔
جواب: غالباً یہاں فلیٹ ارتھرز یہ اعتراض اٹھانے کے مُوڈ میں ہیں کہ اگر چاند سورج کی روشنی منعکس کرتا تو دونوں کی روشنیوں میں اتنا وسیع فرق کیوں ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ  منعکس شدہ روشنی میں وہ تپش ، ریڈیشن اور وہ خاصیت نہیں ہوتی جو اصل روشنی میں ہوتی ہے ، اس کے علاوہ چاند چونکہ سورج سے چھوٹا ہے اس خاطر یہ سورج کی ساری کی ساری روشنی کو منعکس نہیں کرتا، چاند کی روشنی بھی زمین کو گرم کرتی ہے مگرصرف  0.001 ڈگری تک۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی غیر سائنسی ہے۔
اعتراض133: دو تھرما میٹر لئے جائیں ایک کو سورج کی روشنی میں جبکہ دوسرے کو سائے میں رکھا جائے، سورج کی روشنی والا تھرمامیٹر زیادہ درجہ حرارت دِکھائے گا، اب یہی تجربہ چاند کی روشنی میں کریں  سائے والا تھرمامیٹر زیادہ روشنی دِکھائے گا جبکہ چاند کی روشنی میں رکھا تھرمامیٹر کم درجہ حرارت دِکھائےگا، اس کے علاوہ سورج کی روشنی لینز کے ذریعے کسی ایک نقطے پر مرکوز کریں اس جگہ کا درجہ حرارت بے انتہاء بڑھ جائے گا، جبکہ چاند کی روشنی لینز سے کسی نقطے پر مرکوز کریں تو درجہ حرارت 8 سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں بڑھے گا۔
جواب: ان تجربات کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا، بہرحال چاند کی روشنی اور سائے میں رکھے تھرما میٹر کے مابین درجہ حرارت کے فرق کے ذریعے کسی طور یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ چاند کی اپنی روشنی ہے ۔چاند سے آنے والی روشنی سورج کی روشنی کے مقابلے میں4 لاکھ گنا ہلکی ہے جس کی وجہ سے مذکورہ اعتراض کے دوسرے تجربے میں چاند کی روشنی کسی چیز پر مرکوز کرنے کے باوجود درجہ حرارت بہت زیادہ نہیں بڑھے گا۔
اعتراض134: چاند کی روشنی زمین پر سیدھی پڑتی ہے  اور چاند گول ہے ، اگر چاند سورج سے روشنی ادھار لے کر زمین پر پھینک رہا ہوتا تو گول چاند سے ایسا ممکن نہیں تھا۔
جواب: پہلے تو ہمیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ چاند ہمارے سامنے ہے ورنہ فلیٹ ارتھرز نے چاند کو بھی چپٹا قرار دے دینا تھا۔ اگر اس اعتراض کو صحیح مان لیا جائے کہ گول اشیاء روشنی کو منعکس نہیں کرتیں تو پھر فٹ بال، کرکٹ بال، مساجد کے گنبدوغیرہ سب گول ہیں اور ہمیں اسی خاطر دِکھائی دیتے ہیں کہ ان سے منعکس شدہ روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے، انہیں بھی سورج اور چاند کی روشنی منعکس نہیں کرنی چاہیے۔
اعتراض135: دن کے اوقات  میں جب چاند آسمان پر نمودار ہوتا ہے تواس  میں نیلا آسمان صاف دِکھائی دیتاہے، اس کے علاوہ رات کے وقت اس میں سے ستارے بھی واضح دِکھائی دیتے ہیں، جو کہ گول زمین کے ماڈل کی نفی کرتے ہیں۔
جواب: فلیٹ ارتھرز کے مطابق چاند ٹھوس نہیں بلکہ 2 سینٹی موٹا کاغذ جیسا ہلکا سا وجود ہے۔بہرحال یہ اعتراض جھوٹا اور انتہائی بچگانہ ہے ، آج تک چاند میں سے نیلا آسمان  یا ستارے نہیں دیکھے گئے، اس ضمن میں کچھ فلیٹ ارتھرز نے فوٹو شاپ تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پہ اپلوڈ کررکھی ہیں۔ لیکن براہ راست ٹیلی سکوپ سے کسی نے ایسا مشاہدہ کبھی نہیں کیا۔ حیرانگی ہوتی ہے کہ فلیٹ ارتھرز ناسا اور دنیا کے دیگر مستند و معتبر ترین اداروں کی ریسرچز کو ٹھکرا کر انٹرنیٹ پہ موجود گُمنام لوگوں کی جانب سے اپلوڈ کی جانے والی فوٹو شاپ ویڈیوز پر اندھا اعتقاد قائم کیے ہوئے ہیں، یہ محض ہٹ دھرمی اور ضد کے سوا کچھ نہیں ہے۔
(جاری ہے!)
قسط نمبر 7 میں موجود اعتراضات کے جوابات پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے
https://www.mukaalma.com/22611

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply