اختلاف کب رحمت کب زحمت

اختلاف کب رحمت کب زحمت
سید عبدالوہاب شیرازی
اختلاف اگر اختلاف رہے تو رحمت ہے، لیکن اگر اختلاف خلاف بن جائے تو زحمت بن جاتا ہے۔ اختلاف توصحابہ میں بھی تھا لیکن خلاف نہیں تھا۔ اگر ہم یہ بات ذہن میں بٹھا لیں کہ کبھی بھی کسی علمی اختلاف کو باہمی خلاف میں نہیں بدلیں گے تو پھر اختلاف نقصان دہ نہیں رہتا۔حضرت عمرؓ اور عبداللہ بن عباس کا آپس میں سو سے زائد مسائل میں اختلاف تھا لیکن اس اختلاف کی وجہ سے کبھی ایک دوسرے پر فتوے نہیں لگے اور نہ ہی ملنا جلنا ختم ہوا۔
ماضی قریب میں مولانا ثناء اللہ امرتسری بہت بڑے مناظر تھے، قادیانیوں،عیسائیوں،آریوں سمیت مختلف فرق باطلہ سے مناظرے کیے لیکن مناظرے کے بعد مخالف فریق نہ صرف کھانا کھلاتے بلکہ اس دن لازما اپنے گھر ٹھہرا کر خوب مہمان نوازی کرتے تھے۔
تفرقہ کیسے بنتا ہے؟
ایک طبقہ دین کا ایک شعبہ لے کر اسی کو سارا دین سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ دوسرا طبقہ دین کا دوسرا شعبہ پکڑ کر اسی کو سارا دین سمجھنا شروع کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سوچ، وفاداریاں ہرچیز تقسیم ہوجاتی ہے۔ پھر محبت بھی تقسیم ہوجاتی ہے، چنانچہ ایک کہتا ہے محبت صرف اللہ کے لئے خالص ہے۔ دوسرا کہتا ہے محبت رسول اللہ کے لئے ہے، تیسرا کہتا ہے صحابہ کے لئے ہے ۔چوتھا محبت کو صرف اہل بیت کے لئے خالص کردیتا ہے۔اس طرح دین ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور ہر طبقہ اپنی اسی سوچ کے ساتھ تعبیر وتشریح کرتا ہے۔
موجودہ صدی میں بے شمار جماعتیں اور تنظیمیں بنی، جنہوں نے لوگوں کو سنگل پوائنٹ ایجنڈا دیا، اور اسی سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر لوگوں کو برین واش کیا۔ دراصل سنگل پوائنٹ ایجنڈے پر لوگوں کو برین واش کرنا نہایت ہی آسان معاملہ ہے۔ دین کا ہمہ گیر تصور دینا اور اس پر لوگوں کو اکھٹا کرنا مشکل کام ہے چنانچہ لوگوں نے دین کا ہمہ گیر تصور ایک طرف رکھتے ہوئے سنگل پوائنٹ ایجنڈے سے کام لیا اور کسی ایک بات یا نظریے پر لوگوں کو اس طرح اکھٹا کرنا شروع کیا کہ اب ہرجماعت اور طبقہ کے لوگ صرف اسی ایک بات کو مکمل دین سمجھتے ہوئے باقی تمام جماعتوں اور دین کے شعبوں کا انکار کررہے ہیں۔ لیکن عموما ہوتا یہ ہے کہ جیسے جیسے عمر اور علم بڑھتا ہے اور چالیس پنتالیس سال کی عمر میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ میری پچھلی ساری سوچیں غلط اور محدود تھیں۔
اس صورت میں ایک اور نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ایسا شخص اپنے ان اساتذہ اور تعلیمی اداروں سے متنفر ہوجاتا ہے جن کے پاس اس نے آٹھ دس سال لگائے تھے اور انہوں نے اسے وہ سوچ نہیں دی جو اسے چالیس سال کی عمر میں مختلف تجربات ، مشاہدات، معاشرے کے رویوں، خارجی مطالعے، اور ٹھوکریں کھا کر حاصل ہوئی۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا مسلک ضرور پڑھایا جائے لیکن اسے اختلاف کی حد تک رکھتے ہوئے خلاف سے بچنے کی تعلیم بھی دی جائے اور بچوں کو سمجھایا جائے کہ اصول اور فروع میں فرق کیا ہے۔ اصول اور فروع میں وہی فرق ہے جو فرض اور واجب یا فرض اور سنت یا فرض اور مستحب میں ہے۔ جب تک یہ فرق نہ سمجھ آئے چھوٹا ذہن ہر اختلاف کو فرض اور حرام کا فرق سمجھتے ہوئے اپنے مسلک کے علاوہ ہر مسلک کو مکمل باطل،مردود اور کافر تک سمجھتا ہے، پھر جب وہ عملی طور پر معاشرے میں قدم رکھتا ہے تو انتشار ، افتراق و تشتت پیدا کرتا ہے۔
ہم جب مسلکی جھگڑے چھوڑنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلک کو چھوڑدیا جائے بلکہ اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ اپنا مسلک چھوڑو نہ دوسرے کا مسلک چھیڑو نہ۔ ہر کوئی اپنے مسلک میں رہتے ہوئے اس جھگڑے کو ختم کرسکتا ہے۔ دلائل کے ساتھ اپنا مسلک اپنے طلباء کو ضرور سمجھایا جائے لیکن اسے عوام میں بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں پائے جانے والے تینوں مسالک یعنی دیوبندی، بریلوی،اہلحدیث کا صرف پانچ فیصد باتوں میں اختلاف ہے باقی پچانویں فیصد باتوں میں مکمل اتفاق ہے۔ پھر ان پانچ فیصد میں سے بھی تین فیصد میں محض ظاہری اختلاف یا تعبیر کا فرق ہے بات دونوں فریق ایک ہی کررہے ہوتے ہیں محض تعبیر کا فرق ہوتا ہے، یعنی دونوں ایک ہی کان پکڑ رہے ہوتے ہیں بس ایک دائیں طرف سے تو دوسرا بائیں طرف سے۔
یہ غلط فہمی آپس میں مل بیٹھنے سے ختم ہوسکتی ہے۔ جب آپس میں دوریاں ہوتی ہیںاور ملنا ملانا نہیں ہوتا تو بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر علماء آپس میں ملنا ملانا رکھیں تو یہ تین فیصد مسائل بھی حل ہوجائیں گے اور محض دو فیصد واقعی اختلاف رہ جائے گا جو فطری عمل ہے کوئی بری چیز نہیں۔اپنی جماعت اور اپنے مسلک پرلوگ کتنے سخت ہیں اور ان کا رویہ کیاہے، اس کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا جب میں نے فیس بک پر فرقہ واریت کے حوالے سے مختلف علماء کے اقوال پوسٹ کرنا شروع کیے، جب ایک مسلک کے علماء کے اقول پیش کیے تو کوئی خاص ہلچل نہیں مچی مگر جب میں نے دوسرے مسلک کے علماء کے فرقہ واریت کے خلاف اقول پیش کرنا شروع کیے تو بے شمار لوگ اشتعال میں آگئے، یعنی وہ کسی دوسرے مسلک والے کی بات سننے تک گوارا نہیں کرسکتے اور نہ ہی احترام کے ساتھ اس کا نام لکھنا گوارا کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنے ہی مسلک کے اکابرین کے مسلک پرستی اور فرقہ واریت کے خلاف موقف کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply