وکیل بابو، ناک کی سنائیے

(محترم امتیاز خان نے یہ تحریر “مکالمہ” کیلیے بھیجی مگر نئی سائیٹ کے تکنیکی مسائل سے الجھتے اسکی اشاعت میں دیر ہوئی۔ ان سے انکے دل میں بدگمانی پیدا ہوئی کہ شاید میں نے کسی ذاتی وجہ یا وکیل بابو عنوان ہونے کی وجہ سے تحریر نا لگائی۔ تاخیر کی معذرت اور ان سے گزارش کہ بدگمانی سے بچا کریں، اسلام بھی یہی کہتا ہے۔ اگرچہ مکالمہ چھپی تحریر شائع کرنے سے گریز کرتا ہے مگر بدگمانی کے دور کرنے کو یہ تحریر بشکریہ “دلیل” شائع کی جا رہی ہے۔
امتیاز نے بات بھی درست کی ہے اور مسلئہ کی نشاندھی بھی درست۔ میں خود بھی وکلا تحریک کے بعد سے پیدا ہونے والی اس “وکلا گردی” کا شدید ناقد رہا ہوں۔ امتیاز نے مولوی اور وکیل کا جو تقابل کیا، گو وہ درست نہیں کہ دونوں کے علمی اور سماجی رتبے میں بہت فرق ہے، مگر افسوس کے بلند رتبے کے باوجود وکلا میں ایسے جاھل بھی موجود ہیں۔ مغرب میں وکیل کو معاشرے کیلیے آئیڈیل تصور کیا جاتا ہے اور اس پہ بھاری پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ افسوس پاکستان میں کئی وکلاء آیڈیل سے زیادہ ولن نظر آتے ہیں۔ میں شاید اتنی تمہید نا لکھتا مگر ایک تو امتیاز نے تحریر مجھے مخاطب کر کے لکھی، نہ جانے کیوں جبکہ میں تو کالے کوٹ والا وکیل ہی نہیں، اور دوسرا تاخیر سے یہ بدگمانی ہوئی انکو کہ شاید میری ناک کے ذکر کی وجہ سے تحریر نہیں لگی۔ تحریر کا انداز اگرچہ تیکھا ہے، مگر ایک مدرسے والے کا ایک کامریڈ سے اندازِ محبت سمجھیے، البتہ تحریر کا پیغام ناقابل نظر انداز ہے۔ چیف ایڈیٹر)

وکیل بابو!

ناک کٹ گئی یا تاحال سلامت کھڑی ہے؟

اگر نہیں کٹی تو سلام ہے اس پر۔

کوئی مولوی ناشائستہ حرکت دے، نازیبا جملہ بول دے، پوری مولویت کی ناک ایک دم سے کٹ جاتی ہے یا کم ازکم اس مسلک کی ضرور جس سے اس کا تعلق ہو۔ کیسے کیسے جملے پھڑکائے جاتے ہیں، کیا کیا جگتیں لگائی جاتی ہیں اور بھانت بھانت کے جملے کسے جاتے ہیں۔ ڈکشنری میں موجود ساری ضرب الامثال کام لائی جاتی ہیں اور حرف زنی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔ اور اگر کوئی کہہ دے کہ جناب سب کی نہیں کٹی، بس اسی سیاہ کرتوت کی کٹی ہوگی تو اسے ہی کاٹ پیٹ دیا جاتا ہے۔

تو پھر سنائیے وکیل بابو!

ناک کٹی یا نہیں؟

وہ تھپڑ ایک فرد کا دوسرے فرد کو اور ایک مرد کا دوسرے مرد کو ہوتا تو نارمل سی بات تھی۔ ایسے کتنے تھپڑ روزانہ دفتروں کی دیواروں میں جذب ہوجاتے ہیں، عقوبت خانوں کا رزق ہوجاتے ہیں اور کارخانوں کی مشینوں کے شور میں گم ہوجاتے ہیں۔ بس مارنے والے کے ہاتھ پر ہلکی سی کجھلی اور سہنے والے کے دل پر ایک داغ یا تنہائی کا ایک آدھ آنسو، اس کے سوا وہ کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑ پاتا۔

مگر

یہ تھپڑ تو ایک معصوم وجود کے سینے کا زخم اور دل کا داغ بن گیا جوسلگتا رہے گا، درد دیتا رہے گا۔ اس کی صدائے بازگشت تو ایک ننھے سے دماغ کا پیچھا کبھی بھی نہ چھوڑے گی، سدا گونجتی رہے گی۔ یہ تو ایک بدروح ایک نیک پاک روح پر مسلط کردی گئی جو ہمیشہ ایذا دیتی رہے گی۔
یہ تھپڑ ایک ”باپ“ کو ”بیٹی“ کے سامنے مارا گیا اور ان دو رشتوں کا اپمان کردیا گیا جو ایک دوسرے کے لیے سب سے خاص ہوتے ہیں، سب سے خاص۔ کوئی بیٹی کا باپ ایک لمحے کا بھی اس تھپڑ کی سنگینی کا تصور کرے تو اپنی ناک کٹ کر گود میں آگرے۔ بابا کی لاڈلی جس کے لیے اس کا بابا دنیا کی سب سے بڑی دولت، سب سے عظیم نعمت، سب سے ٹھنڈا سایہ، سب سے مضبوط سہارا اور سب سے اونچا سائبان ہوتا ہے، کیا وہ بھلا پائے گی کہ ایک دن وہ اپنے بابا سے اور بابا اس سے آنکھیں نہیں ملا پائے تھے اور دونوں منہ دوسری طرف پھیر کر رو دیے تھے۔

بار کونسل کے لیے تحریک انصاف کےلیے اور ہم لکھنے پڑھنے والوں کےلیے یہ ایک مذمتی قرارداد ایک شوکاز نوٹس یا ایک روتے رلاتے کالم کی بات ہے سو رات گئی بات گئی۔ مگرجس طرح تھپڑ کا یہ عفریت اس بچی کی زندگی کی جان نہیں چھوڑے گا، اسی طرح یاد رکھنا اس معصوم کے آنسو، درد بھری آہ اور بددعائیں تمھارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گی۔ وہ اپنی پوری زندگی جب جب اپنے بابا کو چہرہ دیکھے گی، جب اس روڈ سے گذرے گی، جب کسی تھپڑ کی آواز سنے گی، جب کسی لاڈو کو بابا کے ساتھ موٹر سائیکل پر سکول جاتے دیکھے گی اور جب بھی کسی کالے کوٹ والے کی شکل دیکھے گی تب تب اس کے دل سے ہوک اٹھے گی، اسے یہ منظر یاد آئے گی اور اس کی بددعا ہر اس شخص کا پیچھا کرے گی جس کی ناک نہیں کٹی، جسے یہ واقعہ ایک معمولی واقعہ لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بیٹی کے سامنے کالے کوٹ کی تو ناک کٹ گئی وکیل بابو! اپنی ناک کی سنائیے کٹی یا نہیں؟؟

Facebook Comments

امتیاز خان
دین کا طالبعلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply