عمران خان کی احتجاجی سیاست

پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان پر “پانامہ لیکس” کیس سننے کے سلسلے میں اعتماد اور کیس کے سلسلے میں تعاون کرنے کا عندیا دینے سے ملک میں جاری محاز آرائی فی الحال ختم ھوگئی ۔ مگر پی ٹی آئی کی سیاست کے حوالے سے گرما گرم بحث کو جنم دیا ۔

پی ٹی آئی، ملک کی دیگر جماعتوں کی نسبت ایک نئی جماعت ہے ۔ اور بہت جلد ایک مقبول پارٹی بن گئی۔ پی ٹی آئی نے انتہائی کم وقت میں بیشمار کامیابیاں حاصل کی مگر عمران کی غیر لچکدار روئے اور سولو فلائٹ کی خواھش نے اس کو ناکامی سی دوچار کیا ۔ سیاسی شخصیات اور جماعتیں عوامی ملکیت ھوتی ہے اور کوئی پسند کرے یا نہیں عام لوگ اس پر رائے زنی کرتے ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگار اس کی اچھائیوں ، برائیوں ، کامیابیوں اور ناکامیوں پر تبصرے کرتے رہتے ھیں ۔ تنقید چاہے منفی ھو یا مثبت اس میں ھوشیار اور باشعور لوگوں کیلئے ھمیشہ اصلاح اور بہتری کا پہلو بھی ھوتا ہے۔ بشرطیکہ ان میں سننے اور برداشت کا جذبہ ھو۔ پی ٹی آئی کیلئے یہ ایک اچھا موقع ہے کہ وہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کے تناظر میں اپنے احتجاجی تحریکوں کا طائرانہ جائزہ لیں اور تجزیہ کریں کہ بحیثیت جماعت اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ کونسی سٹرٹیجی کیوں کامیاب یا ناکام رہی۔ زندہ اور متحرک جماعتوں کا یہ خاصہ ھوتا ہے کہ وہ سیاسی عمل اور تجربوں سے سیکھتی ھیں اور اس کی روشنی میں پالیسیاں بناتی اور ضروری ایڈجسٹ منٹ کرتی رہتی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب میڈیا میں پیشہ وارانہ حسد اور مقابلے کی وجہ سے ایک صف بندی موجود ہے تو سیاسی صف بندی نے اس کو مزید شہہ دی اور شدید کیا۔ اب میڈیا اداروں ، اینکرز اور رپورٹرز کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے حسابات بیباک کرنے کا موقع سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ زور آزمائی ، نیچا دکھانے اور حتی کہ منہ کالا کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کا بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ سیاسی جماعتوں کو بھی مل رہا ہے۔ دیگر حزب اقتدار اور حزب اختلاف راھنماوں سے بغض معاویہ میں بعض تجزیہ نگار عمران خان کی پبلک میں صرف تعریفیں کرتے رہتے ھیں اوران کی خامیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی کرتے ھیں مگر نجی محفلوں میں بالکل مختلف رائے کا اظہار کرتے ھیں۔

کارکن ٹشو پیپرز نہیں ھوتے کہ بوقت ضرورت اس کو استعمال کیا جائے بلکہ جاندار وجود ھوتے ھیں جو جذبات، احساسات اور عزت نفس بھی رکھتے ھیں۔ سیاسی جماعتوں میں فیصلے جتنے کارکنوں اور حمایتیوں کی خواہشات ، ضروریات اور مطالبات کی مطابق ھوتے ھیں، اتنے ہی فیصلوں کی ملکیت زیادہ ھوتی ہے اور احساس ملکیت سے کارکنوں میں قربانی کا جذبہ بڑھتا ہے۔ اب تحریک انصاف میں کچھ عرصے سے بڑے بڑے فیصلے ھوتے ھیں مگر کارکنوں اور حتی کہ راھنماوں کی مشاورت کے بغیر ۔ پہلے سے کئے گئے فیصلوں کی توثیق کیلئے اجلاس بلانے کو مشاورت نہیں کہتے۔

موروثی سیاست صرف راھنمائی کا اپنے اولادوں یا قریبی رشتہ داروں کو منتقل کرنے یا ان تک محدود کرنے کو نہیں کہتے بلکہ فیصلہ سازی کے انداز کو بھی کہتے ھیں کہ آیا اپ سیاسی جماعت کو ایک خاندانی جائیداد کی طرح ڈیل کرتے ھو مثلا تن تنہا ہی تمام فیصلے کرتے ھو یا کسی اور کو بھی مشاورت کے قابل سمجھتے ھو۔ نواز شریف کو مغل بادشاہ کا خطاب دینے والوں کا آمرانہ روئہ کسی طور مغل بادشاہوں سے کم نہیں۔ ایک راھنما ملک کو اور دوسرا پارٹی کو مغل بادشاہ کی طرح چلاتے ھیں۔ آمرانہ رویہ جس سطع پر بھی ھو ایک غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویہ ہے۔

سیاست لکچدار روئیوں اور متبادل امکانات کا نام ہے ۔ سیاست میں آئیڈیل اور بلند مقاصد رکھنے پڑتے ہے مگر اس تک پہنچنے کیلئے ٹھوس عملی کام اور مرحلہ وار قابل حصول مقاصد کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اور ضروری نہیں کہ آپ کا ھر قدم آپ کو منزل تک پہنچائے بقول کامریڈ لینن بعض اوقات سیاست میں ایک قدم آگے بڑھنے کیلئے دو قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ سیاست میں ضد ، ہٹ دھرمی اور اپنی بات پر آڑ جانا جیسے قبائلی روئے چل تو سکتے ھیں مگر سیاست میں کامیابی کے امکانات بہت کم ھوتے ھیں ۔ یہ روئے انسان کو ھمیشہ دیوار سے لگا دیتے ھیں اور پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا دیتے ھیں۔ اور ھم دیکھتے ھیں کہ گزشتہ چند سالوں میں پی ٹی آئی کو کئی بار اس قسم کی صورتحال سے دوچار ھونا پڑا۔

سیاسی جماعتوں کیلئے ایک اہم مسلہ اپنے کارکنوں کی جماعتی وابستگی اور جوش و خروش کو مصروف رکھنا بھی ھوتا ہے ۔ پی ٹی آئی نے تو کارکنوں کو کافی مصروف رکھا مگر ان کی توانائی اور وسائل کو اتنی بیجا اور غیر ضروری طور پر صرف کیا گیا کہ نہ صرف وہ ضائع ھوئی بلکہ ان کو تھکا بھی دیا ۔ دوسرا کارکنوں کے توقعات کو ایک خاص سطع تک بڑھانا اور برقرار رکھنا ھوتا ہے بہت زیادہ توقعات بڑھانا بھی خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ توقعات پوری نہ ھونے سے مایوسی پھیلتی ہے اور مایوسی انسان کو بے عمل اور لاتعلق بنا دیتی ہے۔

عمران خان کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ وہ کارکنوں کی حد سے زیادہ توقعات بڑھا دیتے ھیں اور وہ پوری نہ ھونے کے بعد وہ مایوس ھو جاتے ھیں۔ یہی عمل پہلے دھرنے کے دوران ھوا۔ کارکنوں کو بتایا گیا کہ وہ گھروں سے نکلے نہیں اور اسی وقت نواز حکومت ڈھیر ھوجائیگی۔ پھر کہا گیا کہ اسلام آباد پہنچے نہیں تو نواز حکومت مستعفی ھوجائیگی۔ جب وہ اسلام آباد پہنچے تو کہا گیا کہ کارکنوں کے شاھراہ دستور پر پہنچنے سے پہلے حکومت گر گئی ھو گی۔ پچھلے دھرنے سے لیکر آسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے تک خان صیب کی من مانی اور عقل کُل کی ذھینیت نے اس کو دوسرے ساتھیوں کی رائے سننے اور اس کو درخور اعتنا سمجھنے کی توفیق نہیں دی۔ اور جماعتی فیصلوں کو بلڈوز کرتا رہا ہے۔ جس سے نہ صرف کارکنوں بلکہ راھنماوں میں جماعتی فیصلوں کے بارے میں احساس ملکیت کمزور ھوتی گئی. نتیجتاََ جماعتی سرگرمیوں میں ان کی شرکت اور حصہ واجبی ھوتا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تبدیلی نعرے سے زیادہ ایک پراسس کا نام ہے ۔ تبدیلیاں لانے کیلئے نیک خواہشات اور ارادوں سے زیادہ باشعور اور منظم قوت کی ضرورت ھوتی ہے ۔ ہجوم سے سیاسی دباؤ تو بڑھایا جاسکتا ہے مگر بڑی اور دیرپا تبدیلیاں نہیں آسکتی ۔ پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں کی طرح منظم ھونا پڑے گا۔ جو توانائی اور وسائل دھرنوں کی سیاست پر صرف کیےگئے وہ اگر پارٹی کو منظم کرنے پر لگائے جاتے تو آج پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی غیر منظم جماعت کی نسبت سب سے منظم جماعت ھوتی ۔ کارکنوں میں مایوسی اور چندہ دینے والوں کی چندہ دینے کی سکت کمزور اور دلچسپی کم ھو رہی ہے ۔ بدقسمتی سے تبدیلی کی دعویدار جماعت نے جماعتی انتخابات میں کچھ نئے رحجانات متعارف کرانے یا تجربات کی کوشش کی جو کامیاب نہ ھوسکی کیونکہ اندرونی الیکشن کمیشنوں اس کی رپورٹوں اور سفارشات کا جو حشر کیا گیا وہ پارٹی کیلئے نیک نامی کی بجائے بدنامی کا باعث بنی۔

برصغیر پاک و ھند کی سیاسی تاریخ میں بہت سے ایسی تحریکوں کی مثالیں موجود ھیں جہاں راھنما کارکنوں کے ساتھ ساتھ میدان میں رہے اور خود پر آسائش اور آرام دہ کمروں میں نہیں چپکے رہے اور کارکنوں کو گرمی ، سردی، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا اکیلے مقابلے کیلئے نہیں چھوڑا ۔ احتجاجی تحریکوں میں راھنماوں اور کارکنوں میں یہ دوری کا عمل زیادہ دیر تک چلنے والہ نہیں۔

ہر جماعت میں قماش قماش کے لوگ ھوتے ھیں ۔ ایک قلیل تعداد سرمایہ کاروں کی ھوتی ہے جو جماعتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پارٹی راھنما کے گھر یا ذاتی اخراجات بھی برداشت کرتے ھیں ۔ سرمایہ کاروں کا گروہ عموماََ کسی نظریے یا سیاسی مقصد کیلئے نہیں بلکہ بنیادی طور پر اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ اور فائدے کیلئے سرمایہ کاری کرتے ھیں۔ جبکہ کثیر تعداد عام کارکنوں کی ھوتی ھے جو راھنما کی اشارے پر جان دینے کیلئے تیار ھوتے ھیں ۔ پی ٹی آئی کے پاس بےلوث ، مخلص اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کی بڑی کھیپ موجود تھی اور ہے۔ مگر ملک کی دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی میں بھی سرمایہ کار گروپ غالب آگیا ہے جو جماعتی فیصلوں پر اثرانداز ھوتے ھیں ۔ دیرینہ اور مخلص کارکن اور راھنما پس منظر میں چلے گئے اور ان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جس سے مخلص کارکن ایک ایک کرکے مایوس ھوکر جماعتی معاملات سے لا تعلق ھوتے جارہے ھیں۔

بیشک اس بار عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کا بڑا جوا کھیلا ہے۔ یہ تو وقت ثابت کرئیگا کہ وہ کتنا کامیاب یا کتنا ناکام رہا۔ دھرنے کی نسبت اسلام آباد لاک ڈاؤن میں کارکنوں کی دلچسپی انتہائی کم رہی ۔ اور اب اسلام آباد کی لاک ڈاؤن کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حمایتیوں میں مایوسی بہت بڑھ گئی ہے۔ موقعے بار بار نہیں ملتےاور تحریک انصاف نے کئی سنہری مواقع گنوا دیے۔ دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی پی ٹی آئی کی پاس اصلاح احوال کیلئے وقت موجود ہے۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply