شاہی داماد کے لیے تلوار کے بجائے پھولوں کی چھڑی— حفیظ نعمانی

تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
لوک سبھا کے الیکشن کے موقع پر وزیر اعظم کے امیدوار شری نریندر مودی نے نہ کہا ہوگا تب بھی پچاس جگہ کہا ہوگا کہ ہریانہ اور راجستھان میں سونیا جی کے داماد رابرٹ واڈرا نے کوڑیوں کے مول زمین خریدی اور سونے کے بھاؤ فروخت کردی، وہ اپنے خاص انداز میں کہا کرتے تھے کہ جادو گری کا اس سے اچھا نمونہ کیا ہوگا کہ رات کو جیب ۵۰لاکھ روپے ہیں اور دوسرے دن ایک شاہی داماد ہریانہ جاتے ہیں اور وہاں صرف دو دن میں وہ ۵کروڑ بن جاتے اور تھوڑے دنوں کے بعد وہ پچاس کروڑ بن جاتے ہیں۔

اترپردیش کے الیکشن کو الٹ پلٹ کر دینے کی شہرت رکھنے والی پرینکا گاندھی کے شوہر کے بارے میں کسی نے نہیں سنا تھا کہ زمین کی خرید وفروخت کا کاروبار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہڈّا نے سن رکھا ہو کہ بنسی لال جب وزیر اعلیٰ تھے تو ا نھوں نے ایئر پورٹ کے قریب بہت بڑی زمین سنجے گاندھی کو کوڑیوں کے مول دی تھی اور جب ان کے دوستوں نے کہا کہ یہ کیا کررہے ہو تو اس نے کہا تھا کہ اگر گائے کو قابو میں کرنا ہو تو اس کے بچھڑے کو باندھ لو اور میں یہی کررہا ہوں۔ ہریانہ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ میڈم کواپنے قابو میں کرنا ہے تو داماد کو مالا مال کردو۔ جس کی آسان صورت یہ ہے کہ ہریانہ کی وہ زمین جو دہلی کے قریب ہونے کی وجہ سے دہلی کے بھاؤ بکتی ہے وہ ان کے داماد کو دلوادو اور شیرکے منہ کو انسان کا خون لگا کر اسے آدم خور بنا دو، داماد رابرٹ واڈرا نے ہریانہ میں ایک کے بعد ایک کئی سودے کیے۔ وہیں زمین خریدی اور وہیں چار گنی قیمت پر فروخت کردی اور ہوسکتا ہے کہ انھیں جیب سے سو روپے بھی نہ لگانا پڑتے ہوں۔ سب کچھ اس وزیر ا علیٰ نے کردیا ہو جو ہر حال میں سونیا جی کو خوش رکھنا چاہتا تھا۔ ان سودوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کا میڈیا میں اس زمانہ میں شور نہ مچا ہو۔ ہر سودے کی تفصیل ہر ٹی وی برابر سنا رہاتھا کہ کون سی زمین کس کام کے لیے تھی وہ واڈرا کو دی اور وہ کب کسے فروخت کردی؟

بات صرف ہریانہ کی نہیں، راجستھان کی بھی ہے کہ وہاں بھی جو زمین انہیں پسند آگئی اس کا سودا وزیر اعلیٰ نے کرادیا۔ یہ دونوں ریاستیں وہ تھیں جہاں کانگریسی وزیر اعلیٰ تھے اور ان کی شکایتیں سونیا جی کے پاس برابر آرہی تھیں اور دونوں نے داماد کو ہی پکڑا۔ لوک سبھا الیکشن کے موقع پر ہر لیڈر نے یقین دلایا تھا کہ اگر ہماری حکومت بن گئی تو داماد اور دونوں وزیر اعلیٰ جیل میں ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب مودی سرکاری پوری اکثریت کے بل پر بن گئی تو سی بی آئی سے تحقیقات کراتے، اس کے بجائے ایک ریٹائرڈ جج کے سپرد تحقیقات کردی، جو دو برس تک تحقیق کرتے رہے اور اپنا وظیفہ لیتے رہے اور جب ۱۸۰ صفحات کی رپورٹ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کے سپرد کی تو ایسا پوز بنایا تھا جیسے سزائے موت کا وارنٹ سپرد کررہے ہیں۔ جج صاحب نے خاص انداز سے فرمایا کہ اگر ان معاملات میں گڑبڑی نہ ہوتی تو یہ رپورٹ ایک صفحہ کی ہوتی جس میں صرف یہ لکھا ہوتا کہ سودوں میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئی لیکن ان میں گڑبڑی ہے اس لیے یہ ۱۸۰ صفحات کی رپورٹ ہے۔

وزیر اعظم کوئی نئے نہیں ہیں پرانے کھلاڑی ہیں۔ وہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ سونیا کے داماد کو سزا دی جائے اس لیے بجائے مقدمہ چلانے کے یا مقدمہ سی بی آئی کو دینے کے، کمیشن قائم کردیا جو کسی بدعنوانی کے لیے قائم کیا گیا پہلا کمیشن ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ ملک میں درجنوں کمیشن قائم ہوچکے ہیں، مسلمانوں کے نزدیک سب سے ہم کمیشن شری کرشنا کمیشن تھا۔ جسے ۱۹۹۳ء میں اس فساد کی تحقیقات کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا جس میں مسلمانوں کے مشاہدے کے مطابق دو ہزار مسلمان شہید کیے گئے تھے اور تین ہزار سے زیادہ اتر باسی مسلمان زخمی ہوکر اپنے وطن بھاگ گئے تھے۔ اوردو سو کروڑ سے زیادہ ان کے کاروبار کو لوٹ لیا اور جلا دیا تھا۔ وہ رپورٹ جو ایک ہزار صفحے سے زیادہ ضخیم ہے چھپ بھی گئی اور عام بھی ہوگئی، اس رپورٹ میں جسٹس کرشنا نے صاف صاف لکھا ہے کہ بی جے پی، شیو سینا، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد اور پولیس نے مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا ، انھوں نے مرنے والوں کی تعداد نو سو سے زیادہ لکھی ہے۔ زخمیوں کی اس لیے نہیں لکھی کہ کرفیو میں کوئی زخمی ممبئی میں کیا کرتا؟ وہ گرتا پڑتا اپنے گھر چلا گیا۔ البتہ نقصان کی بات تسلیم کی ہے اوریہ اس زمانہ کی بات ہے جب مرکز اور صوبہ دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی اورکانگریس کو معلوم تھا کہ ہر مسلمان کا دل بابری مسجد کی شہادت سے زخمی ہے اور اسے یقین ہے کہ اگر وزیر اعظم نرسمہا راؤ چاہتے تو مسجد کی ایک اینٹ بھی نہ گرتی۔ اس کے برعکس شہرت کے مطابق اگر ممبئی کے چند مسلمانوں نے بم دھماکے نہ کیے ہوتے تو ممبئی کا فساد شہر کو مسلمانوں سے خالی کردیتا اور کانگریس نے بم دھماکہ کے ہر مشتبہ ملزم کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سزادی اور داؤد ابراہیم کی پھانسی کی حسرت دل میں لیے ہوئے وہ بے عزتی کے ساتھ اب صرف پارلیمنٹ کی ایک عام ممبر جیسی رہ گئی۔

نریندر بھائی مودی کو ہم کیا کہیں جب ۱۹ مہینے کی جیل سے رہا ہو کر آر ایس ایس ، جن سنگھ سوشلسٹ اورباغی کانگریسوں نے جنتا پارٹی بنائی اور الیکشن میں ہر زبان پر یہ تھا کہ سنجے کو پھانسی اوراندرا کو عمر قید اور شمالی ہند کے ہر وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کے ساتھ ہر ضلع کے اس زمانہ کے ڈی ایم اور ایس پی سب کے خلاف مقدمات قائم ہوں گے اور ان سے گن گن کر بدلے لیے جائیں گے۔ لیکن جب عوام نے مودی زیادہ حمایت دے دی تو صرف اندرا گاندھی اور سنجے کی گرفتاری کا ڈرامہ کیا گیا۔ ان کے علاوہ کسی کا گریبان پکڑ کر اسے ذلیل بھی نہیں کیا اور ایسی نا اہلی کا ثبوت دیا کہ صرف ڈھائی سال کے بعد حکومت ختم ہوگئی اور تین سال کے ا ندر اندراگاندھی اور سنجے کی حکومت واپس آگئی۔ اندرا گاندھی اورسنجے گاندھی پر صرف ملک کو لوٹنے اور سنجے گاندھی کے ماروتی کارخانہ کے لیے کروڑوں کی زمین کوڑیوں میں اورکارخانہ کے لیے لوہے کی چادریں سیکڑوں کی تعداد میں لینے اور ہر وہ چیز جو شاہ زادے کے منہ سے نکل جائے دوسرے دن قدموں میں پڑی ہوتی تھی اور تمام وزیر قلم کاغذ لیے سنجے کے دربار میں حاضری دیتے تھے کہ اور کیا حکم ہے ۔ ایمرجنسی میں دہلی میں مسلمان ہی نہیں پورے پورے محلے تاراج کردئے، لاکھوں جوانوں کی نس بندی کرادی ۔ جتنے قسم کے ظلم ہوسکتے تھے وہ کیے، لیکن کیسی جیل، کیسی سزا، کیسا جرمانہ، صرف اس لیے کہ کل کو پھر اندرا گاندھی کی حکومت آئے گی تو وہ ہم سے بدلہ لے گی، کسی کو نام کی سزا بھی نہیں دی۔
ہریانہ اور راجستھان میں جو کچھ واڈرا نے لے لیا وہ تو سنجے کے سودوں میں سے ایک کے برابر بھی نہیں ہے ، اسی لیے نریندر بھائی مودی نے بدعنوانی اور بے ایمانی کی سزا دینے کے لیے ایک رکنی کمیشن قائم کرادیا کہ ع باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی۔ جنتا پارٹی اگر ایماندار ہوتی تو صرف مسلمانوں کو قتل کرانے کے جرم میں جو ترکمان گیٹ میں مارے گئے ، اندرا گاندھی اور سنجے کو پاکستانی وزیر اعظم بھٹو کی طرح پھانسی دے دیتی اور جبری نسبندی کرانے کے جرم میں یوپی، بہار، مدھیہ پردیش، گجرات، مہاراشٹر کے ہر وزیر اعلیٰ کو جیل میں ڈال دیتی۔ لیکن ملک دو حصوں میں بٹا ہوا ہے، دس فیصدی وہ ہیں جو حاکم ہیں اور نوے فیصدی وہ ہیں جو غلاموں کی طرح زندگی گذارتے ہیں، پھانسی اور سزا غلاموں کا حصہ ہے اور حکومت گورنری اوردولت حاکموں کا حصہ ہے۔ انگریز نے نہرو کو اور نہرو نے اندرا کو اور انھوں نے سب کو اسی جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اور اب یہی جمہوریت ملک کا مقدر ہے۔

موضوع تھا کہ رابرٹ واڈرا کے زمین کے سودوں کی تحقیقات کاجس کی رپورٹ ۱۸۰ صفحات میں لکھی گئی ہے۔ یہ سودے یاد آتاہے کہ چار یا پانچ تھے، ان سودوں میں ایک فروخت کرنے والا، ایک خریدنے والا، ایک اس سودے کی اجازت دینے والا، ایک رجسٹرار، جہاں رجسٹری ہوئی، اگر رجسٹری بھی دو جگہ ہوئی تو دو رجسٹرار، زمین کے ہر سودے کا پورا ریکارڈ ہر وقت رجسٹرار کے پاس رہتا ہے۔ ایک وزیر اعلیٰ جو اس کی تحقیقات کرانا چاہ رہا ہے ، اسکے دو ٹیلی فون پر ۴۸ گھنٹے میں ہرکاغذ آسکتا ہے، جنھیں دیکھنے میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتاہے، یہ بات ہر رجسٹرار آفس سے معلوم ہوسکتی ہے کہ کسی علاقہ کی زمین کی وہ قیمت کیا ہے جس سے کم پر اگر کوئی فروخت کرے تو خطرہ ہے کہ فریب ہوا ہے۔

یہ بات واڈرا بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں نہیں بلایا گیا اور دوسرے متعلقین کو بھی نہیں بلایا گیا تو پھر دو سال کا وقت کس کیمیا کے نسخہ کی تلاش میں لگ گیا اور ان سودوں میں وزیر اعلیٰ کی مداخلت سے کتنا فرق پڑ گیا، جس کی تفصیل ۱۸۰ صفحات میں آئی۔ ان باتوں کی وجہ سے ہی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وزیر اعظم یہ تو چاہتے ہیں کہ سونیا جی کے داماد کو ایک جج کے ذریعہ بے ایمان ثابت کرادیں لیکن یہ نہیں چاہتے کہ انھیں سزا دلا کر پوری کانگریس سے دشمنی مول لے لیں۔
اسی ہریانہ کے وزیر اعلیٰ ہڈا نے خود ۴ سو ایکڑ زمین بلڈروں اور کارخانے والوں کو دی ہے۔ جس کی سی بی آئی سے انکوائری کرائی گئی اور الزام ہے ۱۶ سو کروڑ کی رقم ملی جس میں ۱۵ سو کروڑ خود کھا گئے۔ ایک کی سی بی آئی تحقیق کرے اورایک کی جج ، یہ جانب داری نہیں تو اور کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply