قطعی الدلالہ کی بحث کیا ہے ؟۔۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی 

گفتگو کی صلاحیت اور ہوش و حواس رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ “لفظ” ایک نہیں کئی معانی رکھتا ہے، مثلا “بت” مورتی کو بھی کہتے ہیں اور محبوب کو بھی کہتے ہیں۔ کسی عام کلام میں یہ کلام کا سیاق و سباق طے کرتا ہے کہ اس کے مقصودی معانی کیا ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید کی بعض آیات ایسی ہیں جو بالکل ہی واضح مفہوم رکھتی ہیں اور ان کے لئے کسی تشریح یا تاویل کی ضرورت نہیں چنانچہ مفسرین ایسی آیات کو قطعی الدلالہ کہتے ہیں۔ لیکن قرآن مجید کی زیادہ آیات وہ ہیں جو اجمالی ہیں اور یہ اجمال وضاحت، تشریح اور تاویل چاہتا ہے۔ چنانچہ مفسرین ان آیات کو ظنی الدلالہ کہتے ہیں۔ اب سوال یہ آجاتا ہے کہ جو آیات تشریح یا تاویل چاہتی ہیں ان کی تاویل کا حق کسے ہے ؟ تو امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ آنحضرت ﷺ قرآن مجید کے پہلے شارح ہیں اور کسی بھی آیت کی تشریح کے لئے سب سے پہلے ذخیرہ حدیث سے رجوع کیا جائے گا۔ اگر کسی آیت کی کلی تشریح یا کسی ضمنی سوال کا جواب حدیث سے نہ مل سکے تو پھر اس تشریح کا حق انہیں حاصل ہوگا جو قرآن مجید کے “سپیشلسٹ” ہوں یعنی مفسرین۔ اب عین ممکن ہے کہ تین مفسرین الگ الگ معانی اخذ کر رہے ہوں چنانچہ ایسی صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ اہل علم کی اکثریت کس معنیٰ کو ترجیح دے رہی ہے۔ اب ایک مثال سے سمجھ لیجئے کہ قرآنِ مجید کی اجمالی آیات تفسیر کیوں اور کیسے چاہتی ہیں ؟ رشادِ باری تعالیٰ ہے

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا (سورہ مائدہ آیت 38)

 ترجمہ: چور مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دو۔

اس آیت میں ہاتھ کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جمع اگر مطلق استعمال ہو تو اس سے “کُل” مراد ہوتا ہے۔ اب یہاں لسانیات کے اس اصول کے مطابق پورا ہاتھ مراد ہو سکتا ہے لیکن لسانی قاعدہ تو عام انسانوں کا بنایا ہوا قاعدہ ہے جبکہ قرآن مجید کے لئے یہ طے شدہ ہے کہ اس کی تشریح کا پہلا ذریعہ آنحضرت ﷺ ہیں چنانچہ لسانی قاعدے سے پہلے ہم دیکھیں گے کہ رسول اللہ ﷺ کا عمل یا ارشادِ گرامی اس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم کرتا ہے یا نہیں ؟ جب دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺ طے فرما چکے ہیں کہ ہاتھ کلائی اور پنجے کے جوڑ سے کاٹا جائے گا۔ اگر اس حوالے سے آنحضرت ﷺ کی رہنمائی موجود نہ ہوتی تو پھر لسانی قاعدے کے مطابق ہاتھ بغل والے جوڑ سے ہی کٹتا۔

اب آجایئے اس طرف کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے حوالے سے یہ مسئلہ آج کل فیس بک پر کیوں گرم ہے ؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی تمام آیات قطعی الدلالہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ مجید کی کوئی بھی آیت کسی تشریح یا وضاحت کی ضرورت نہیں رکھتی، ہر آیت کا بس ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور قرآنِ مجید کی آیات ایک سے زائد معانی کا کوئی امکان نہیں رکھتیں۔ غامدی صاحب کا یہ اصول جو ان کے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی کا بھی ہے درحقیقت انکارِ حدیث ہے۔ کیونکہ حدیث کا تو مرکزی کام ہی قرآنِ مجید کی تشریح ہے اور آپ کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کو تشریح یا وضاحت کی ضرورت ہی نہیں۔

فیس بک پر ہی ممتاز صاحب علم ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب نے اپنی ایک پوسٹ میں فرمایا ہے۔

“البتہ نہ جانے کہاں سے ایک شدت پسند طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو یہ نقطہ نظر رکھتا ہے کہ قرآن کو قطعی الدلالة کہنا حدیث کا انکار ہے. اس نقطہ نظر کی کوئی علمی اساس نہیں ہے اور یہ محض منافرت پر مبنی ہے”

ڈاکٹر صاحب بہت ہی وسیع المطالعہ شخصیت ہیں اور ہم جیسوں کے لئے وہ ایک قابل احترام استاذ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی نگاہ سے غامدی صاحب کا یہ اصول انہی کے الفاظ میں نہ گزرا ہو اور اسی لئے انہوں نے غصے کا اظہار فرمادیا ہو چنانچہ پیش خدمت ہے غامدی صاحب کا اصول انہی کے الفاظ میں۔

”اس (قرآن) کے الفاظ کی دلالت اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہے۔ یہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتا ہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعا بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا۔ اس کا مفہوم وہی ہے جو اس کے الفاظ قبول کرلیتے ہیں ، وہ نہ اس سے مختلف ہے نہ متبائن۔ اس کے شہر ستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں ۔ وہ اپنا مفہوم پوری قطعیت کے ساتھ واضح کرتے ہیں ۔”

(میزان:صفحہ 24 ، طبع دوم)

یہ پورا ہی اقتباس انکار حدیث ہے لیکن اس کا یہ حصہ “اس کے شہر ستانِ معانی تک پہنچنے کا ایک ہی دروازہ ہے اور وہ اس کے الفاظ ہیں” دوٹوک انداز میں کہہ رہا ہے کہ اس کے الفاظ کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے معانی طے نہیں کرے گی جبکہ ہم کہتے ہیں کہ حدیث اس کے معانی طے کرے گی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ استاذ شاگرد یعنی اصلاحی صاحب اور غامدی صاحب دونوں ہی پورے قرآن مجید کے قطعی الدلالہ ہونے کے قائل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیت کا بس ایک ہی معنیٰ ہے کوئی بھی آیت یا لفظ دو معانی کا امکان نہیں رکھتا لیکن استاذ شاگرد نے خود ہی مختلف آیات کے الگ الگ معانی اخذ کر رکھے ہیں بطور مثال سورہ مدثر کی اس ایک آیت کا ترجمہ ہی دیکھ لیجئے۔

كَلَّا بَل لَّا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ ( 53 )

اصلاحی صاحب کا ترجمہ: ”ہرگز نہیں ، بلکہ وہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔”

(تدبر قرآن، جلد9؍ صفحہ42)

غامدی صاحب کا ترجمہ: ”بلکہ (واقعہ یہ ہے کہ) یہ قیامت کی توقع نہیں رکھتے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

(البیان، صفحہ81)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قطعی الدلالہ کی بحث کیا ہے ؟۔۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی 

  1. ان مباحث میں ایک بات مشترک ہے جو سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کفار کے سامنے ہمیشہ قرآن صرف پڑھ کے سنایا کرتے ھے۔ کیا کوئی ایسا واقعہ بھی ہے جس سے یہ بات بھی معلوم ہو کہ آپ نے قرآن پڑھنے کے بعد اس کی وضاحت بھی کی تھی کہ اِس آیت کا یہ مطلب ہے اور اَس آیت کا وہ مطلب ہے۔

    اگر یہ بات درست ہے تو اس سے غامدی صاحب کے موقف کے حق میں کچھ نہ کچھ تائید ملتی ہےکہ واقعی قرآن کو موجودہ طریقے سے تاویلات کے ساتھ سمجھنا ایک اجنبی طریقہ ہے۔ جس کی تائید تواریخ سے نہیں ملتی۔

Leave a Reply