زخم بڑھتا گیا جتنے درماں کئے :ریحان خان

زخم بڑھتا گیا جتنے درماں کئے

Advertisements
julia rana solicitors

2014 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد کا منظر نامہ یاد کیجئے۔ کانگریس کی ستائی ہوئی عوام نے جوق در جوق بی جے پی کو ووٹ دیا اور نریندر مودی نے ایک ریکارڈ کامیابی کے ساتھ ایوان میں حکومت سازی کی اور وزیر اعظم بن گئے۔ اس وقت مسلم حلقوں میں ایک استعجاب کا عالم تھا کہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے۔ دانشوران و غم گساران ملت نے طرح طرح کے تبصرے و مشورے پیش کئے جس سے ہمارے ناتواں کاندھے بوجھل ہوگئے۔ اب اتر پردیش الیکشن میں بی جے پی کی تاریخ ساز کامیابی کے بعد بھی وہی کیفیت ہے۔ مسلم ووٹ اسی طرح منتشر ہوئے ہیں جسطرح 2014 میں ہوئے تھے۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی تاریخی کامیابی سے دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی اس امر پر یقین پختہ ہوگیا ہے کہ تدبیر سے بادشاہ گر کی حیثیت رکھنے والے مسلم ووٹوں کو بے وقعت بھی کہا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب مایاوتی کی بدترین شکست بھی یہی تاثر دیتی ہے کہ مسلم ووٹوں پر بڑی حد تک منحصر ہونا سیاسی جماعتوں کے مستقبل کے لئے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ جیسا حالیہ اتر پردیش الیکشن میں مایاوتی اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ ہوا۔ اوپری سطور میں ہم نے جس تدبیر کا ذکر کیا ہے اس کے ساتھ منفی اور مثبت کی شرط وابستہ نہیں ہے۔ تدبیر تو یہ بہ ہے کہ فرد یا جماعت خنجروں کو پھولوں میں چھپانے کے فن سے کس حد تک آشنا ہے۔ عرض مدعا یہ ہے کہ 2014 لوک سبھا انتخابات کے غیر متوقع نتائج کے مسلم امت کا درد رکھنے والے قلم کاران و دانشوران نے جو مشورے پیش کئے تھے اس پر کس حد تک عمل درآمد ہوسکا ہے؟ ہماری دانست میں ان باتوں پر ایک فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اگر ہوا ہوتا تو آج یوپی میں یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ مسلم ووٹوں کا انتشار اس ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ انتشار ایک زخم تھا جو بروقت مرہم نا رکھے جانے کی وجہ سے اب ناسور بن چکا ہے۔ زخم بھر سکتے ہیں لیکن ناسور قیامتیں ڈھاتے ہیں۔ اور مسلم ووٹوں کے انتشار کے اس ناسور نے قیامتیں ڈھانہ شروع کردی ہیں۔ پہلے پارلیمانی انتخابات میں پھر اس کے بعد یوپی کے حالیہ انتخابات میں اس ناسور کی کرمفرمائیوں سے وطن عزیز بخوبی واقف ہو چکا ہے۔ اب یوپی میں وزارت اعلی کی دوڑ میں جو چہرے شامل ہیں اس میں ایک یوگی ادتیہ ناتھ بھی ہیں جو مسلم طبقے کو ووٹوں سے محروم کردئے جانے کی فکر رکھتے ہیں۔ ویسے یہ چکر تو مجموعی طور پر پورے سنگھ پریوار کی ہے لیکن گاہے گاہے یہ یوگی کی زبان پر آجاتی ہے۔ نکل جاتی ہے کس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار سے اچھا
یوپی کی متوقع وزارت اعلی کی فہرست میں راج ناتھ سنگھ کا نام سب سے آگے ہے۔ راج ناتھ موجودہ بی جے پی میں واحد لیڈر ہیں جو کچھ حد تک سیکولر ہیں اور واجپائی خیمے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پوری بی جے پی نریندر مودی اور امت شاہ نے ہائی جیک کر رکھی ہے۔ اگر راج ناتھ سنگھ کے علاوہ کوئی یوپی میں وزیر اعلی بنتا ہے تو وہ نسبتاً غیر معروف ہوگا۔ جس طرح گجرات میں کبھی مودی تھے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ وقتوں میں بی جے پی سنگھ کا آئکون اور سنگھیوں کے آئیڈیل بن چکے ہیں۔ یوپی کے غیر معروف وزیر اعلی کے لئے بھی مودی اور ان راستہ جو گجرات سے دہلی تک آتا ہے، نشان راہ کی حیثیت رکھے گا۔ الغرض مشورے اور اور سیاسی بصیرتیں اس لولی لنگڑی مسلم کمیونٹی کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اب انہیں ایک سخت گیر حکمراں درکار ہے جو انہیں زخم دیتے ہوئے لاعلمی میں ان کے ناسور پر وار کرے اور اسے ان کے وجود سے علاحدہ کردے۔ یہ دنیا کا دستور ہے کبھی کبھی زہر بھی کار تریاقی کرتا ہے اور نشر بھی سوزن کو کم کرتا ہے۔ ناسور نشتر کا متقاضی ہے اور درد زہر کی تریاقی چاہتا ہے۔ اس کےعلاوہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ وہ نشتر اور زہر راج ناتھ سنگھ کی بجائے یوگی ادتیہ ناتھ، اوما بھارتی اور کیشو پرساد موریہ کی زنبیل میں پایا جاتا ہے۔

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply