لیبیا کے قریب کشتی کو حادثہ،سینکڑوں تارکین وطن ہلاک

طاہر یاسین طاہر

افوسناک خبریں تواتر سے پیچھا کرتی ہیں۔کبھی خود کش حملوں کی خبریں،کبھی داعش کے مظالم کی خبریں، کبھی مقامی سیاسی افراتفری کی خبریں تو کبھی بین الاقوامی سیاسی و سماجی مسائل کی خبریں۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپین مائیگریشن حکام کا کہنا ہے کہ لیبیا کے ساحل پر دو کشتیوں کو حادثہ پیش آیا ہے کہ جس کے نتیجے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کشتیوں پر سوار 239 سے زائد تارکین وطن ڈوب گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی ترجمان شارلٹ سمی نے ذرائع ابلاغ کو اطالوی جزیرے لامپیدوسا پر لائے جانے والے دو بچ جانے والے تارکین وطن کے بارے میں بتایا ہے۔فی الحال کوئی لاش نہیں نکالی جا سکی۔تارکین وطن کی بین الاقوامی تنظیم کے ترجمان لیونارڈ ڈوئل کا کہنا ہے کہ رواں سال بحیرۂ روم عبور کرنے کے لیے خطرناک سفر کرنے والے 4200 سے زائد تارکین وطن ہلاک ہو چکے ہیں۔اس سے قبل اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ 2016 سفر کرنے والے تارکین وطن کے حوالے سے خطرناک ترین سال ہو سکتا ہے۔رواں سال اب تک تقریباً ًتین لاکھ 30 ہزار تارکین وطن بحیرۂ روم کو عبور کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد دس لاکھ سے زائد تھی۔حالیہ دو حادثات میں ہلاک ہونے والے تارکین وطن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق مغربی افریقہ سے تھا۔شارلٹ سمی نے بتایا ہے کہ ایک کشتی پر سوار افراد میں سے 29 کو بچا لیا گیا ہے جبکہ دیگر 120 افراد تاحال لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہے کہ وہ شاید ہلاک ہو چکے ہیں۔دوسری کشتی پر سوار افراد میں سے دو کو بچایا جا سکا ہے جبکہ 120 دیگر لاپتہ ہیں۔


یہ امر افسوس ناک ہے کہ مشرق وسطیٰ یا افریقی ممالک کے تارکین وطن بہتر مستقبل کے لیے انسانی اسمگلروں کے ہاتھ لگ کر اپنی جانیں سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر کر رہے ہیں۔ تارک الوطن ہونے کی کئی معاشی،سماجی اور مذہبی وجوہات ہیں۔ مشرق وسطیٰ ،ایشیا کے بیشتر ممالک ترقی پذیر ہیں،عرب پٹی کے جو ممالک تیل کی دولت سے مالا ہیں وہاں ’’وطنی‘‘ افراد کے لیے کسی حد تک خوشحالی ہے مگر وہاں دوسرا مسئلہ انسانی حقوق کی پامالی اور اظہار رائے پر شدید قدغن اور رجعت پسندانہ رسومات ہیں۔جس کے باعث طبعاً آزاد پیدا ہونے والے انسان ان پابندیوں کو غلامی تصور کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔یہاں تدبیر اور تقدیر ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔کوئی اپنی بہتر تدبیر اور اچھی تقدیر کے باعث یورپ کی سرحدوں میں داخل ہو کر آسودہ ہو جاتا ہے،کوئی بہتر تدبیر کے باوجود تقدیر کے ہاتھوں پٹ جاتا ہے اور یورپ میں بھی ایک ایک لقمہ کو ترستا رہتاہے،کوئی اپنی تدبیر اور تقدیر دونوں کے ہاتھوں لٹ کر سمندر کی لہروں میں بہہ جاتا ہے۔اس سب کا ذمہ دار بہر حال سماج ہے۔شام،لیبیا،اور افغانستان و پاکستان سے براستہ ترکی و لیبیا سمندر عبور کرنے والوں کا دکھ زیادہ ہے۔ یہ غربت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا بھی شکار ہیں اور اپنے حکمرانوں کی لا پرواہی کا بھی۔ایسے تارکین وطن یورپ پہنچ کر بھی شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔انتہا پسند،دہشت گرد،بے شک اس کے پیچھے ٹھوس وجوہات ہیں مگر یہ روزی روٹی اور پناہ کی تلاش میں نکلنے والے، انسانی سمگلروں کے بنے ہوئے حسین جال میں پھنس کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔مذکورہ حادثہ کوئی پہلا حادثہ نہیں،بلکہ اس سے قبل بھی لیبیا،ترکی ،یونان اور اٹلی کے ساحلوں پہ کشتیاں ڈوب چکی ہیں۔ کشتیاں ڈوبنے کی ایک وجہ مسافروں کا مقررہ تعداد سے زیادہ سوار ہونا بھی ہے۔مگر اس میں عالمی انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک کا قصور بھی ہے جسے اقوام متحدہ ابھی تک بے نقاب نہیں کر سکا۔یورپین ممالک کو چاہیے کہ اپنی جدید ترین سیکیورٹی ایجنسیز کو بروئے کار لا کر انسانی سمگلروں کے نیٹ ورک کو توڑیں تا کہ یوں مجبور و بے کس انسان بے یارو مددگار سمندر کے پانیوں میں ڈوب ڈوب کر مرنے سے بچ سکیں۔اگرچہ کسی حد تک ہی سہی۔یہ المیہ ہے اور یورپ کو بہر حال اس کا ادراک کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply