صدیق موچی

چند دن ہوئے اسد علی گاؤں سے واپس آیا تو بتایا کہ صدیق موچی فوت ہو گیا, میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ وہ زندہ کب تھا, وہ تو اسی دن مر گیا تھا جس دن سماج نے اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پنسل چھین کر ٹوٹے ہوئے جوتے پکڑا دیئے تھے.
نام تو اسکا محمد صدیق تھا مگر چونکہ اسکا باپ ایک موچی تھا بلکہ اسکا دادا اور پردادا بھی موچی تھا لہذا خواہ وہ ڈاکٹر, انجینیئر, استاد یا کوئی بڑا عالم دین بن جاتا, رہنا اسنے صدیق موچی ہی تھا. یہ کرشمہ صرف پنجاب کے دیہی علاقوں میں وقوعہ پذیر ہوتا ہے کہ پیشہ ذات بن جاتا ہے. اور پھر کوئی کچھ کر لے کتنا بڑا آدمی بن جائے رہتا وہ کمی کمین ہے. عشق رسول میں ڈوبے ہوئے عاشقوں کو نبی کا یہ فرمان کبھی یاد نہیں آیا کہ الکاسب و حبیب اللہ . تو بات ہو رہی تھی محمد صدیق کی, میرا اس سے پہلا تعارف تب ہوا جب وہ اپنے چچا کی دوکان جہاں اسکا چچا جوتے بناتا بھی تھا اور مرمت بھی کرتا تھا, پر بیٹھنے اتفاق سے یہ دوکان ہمارے گھر کے سامنے تھی. کچھ دنوں بعد مجھے اپنی پریکٹیکل کی کاپیوں پر تصویریں بنوانے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ میری ڈرائنگ ایسی تھی کہ تصویریں دیکھ کر ہی ممتحن نے مجھے نہ صرف فیل کر دینا تھا بلکہ ڈھونڈ کر مارنا بھی تھا. تبھی پتہ چلا کہ صدیق تصویریں بہت اچھی بناتا ہے, میں نے بھی حق ہمسائیگی جتاتے ہوئے اسے مائل کر لیا کہ میری کاپیوں پر بھی اشکال بنا دے. صدیق نے کئی دن لگاکر نہ صرف کاپیوں پر تصویریں بنا دیں بلکہ حاشیئے اتنے خوبصورت بنائے کہ جو دیکھتا دنگ رہ جاتا. اللہ نے اسے ایسے ہنر سے نوازا تھا کہ تصویریں بولتی تھیں. خاص طور پر حاشیئے میں وہ جس طرح پھول پتیاں, پرندے اور دیگر فطری مناظر بناتا وہ کمال تھا. یہ تو کئی سال بعد پتہ چلا کہ اس آرٹ کو منی ایچر آرٹ کہتے ہیں. اس وقت میرے لیئے یہ صرف خوبصورت حاشیئے تھے. دوسرا فن جس میں وہ طاق تھا وہ تھا پنسل سکیچ کہ لگتا تھا کہ کیمرہ سے کھینچی گئی تصویر ہو.

میں آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ بغیر کسی استاد اور تربیت کے یہ فن اسے کہاں سے ملا, شاید اپنی ماں کی گود میں سننے والی لوریوں سے یا بہنوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے, جو کھجور کے پتوں اور ایک خودرو پودا جسے ہمارے علاقے میں… سر… کہتے ہیں اسکے تنکوں سے گھریلو استعمال کی چیزیں اتنی خوبصورتی اور مہارت سے بناتیں کہ ہر گھر میں اس خاندان کے بنائےہوئے چھابے اور دیگر اشیاء آج بھی ہاتھوں ہاتھ لیئے جاتے ہیں لیکن یہ فن ان کے طرز زندگی کو نہیں بدل سکتا کیونکہ یہ موچیوں کی لڑکیوں نے بنائی ہیں یہی چیزیں جب نمائشوں میں بکتی دیکھتے ہیں تو نگاہ میں وہ محنت کش لڑکیاںگھوم جاتی ہیں ہیں جو گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر رات گئے تک لالٹینوں کی روشنی میں اپنی آنکھیں پھوڑتی ہیں. گاؤں میں کوئی گھر ایسا نہ ہو گا جہاں انکے ہاتھوں کے بنائے ہوئے چھابے, دیواروں پر لٹکانے والی نمائشی اشیاء یا خوبصورت کڑھائی والے تکیوں کے غلاف اور رومال یا کرتے نہ ہوں. یہ الگ بات کہ یہ ساری اشیاء شہروں میں لا کر مہنگے داموں بیچی جاتی ہیں مگر بنانے والیوں کے حصے میں چند ٹکے اور زائل ہوتی ہوئی بینائی آتی ہے. میں یہ نہیں کہتا کہ صدیق کوئی بہت بڑا فنکار تھا اور اگر مواقع ملتے تو صادقین یا چغّتائی کے پائے کا آرٹسٹ بنتا. لیکن اگر اس کے ہاتھوں میں بھی رنگ اور برش دیئے جاتے اور اسے بھی تربیت میسر ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ایک اعلی پائے کا مصور یا پینٹر نہ بنتا. مگر باپ کے مرنے کے بعد جب اسکی چار بہنوں, ماں اور اسکی کفالت کی ذمہ داری اسکے چچا پر پڑی تو چچا کے پاس اسے اپنا آبائی پیشہ سکھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا. اگر اسکے ہاتھوں سے پنسل چھین کر جوتے گانٹھنے کے اوزار نہ دیئے جاتے تو اسکے خواب نہ مرتے, اسکے تخیل میں کھلنے والے پھول بھی اپنا جوبن دکھاتے.

یہ صرف ایک صدیق کی کہانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے ہر شہر, محلے اور گلی میں کئی صدیق اپنے ہنر سے لوگوں کو حیران کر رہے ہے مگر روزی کمانے کیلیئے کسی ہوٹل میں چھوٹا بن کر گندے برتن دھو رہے ہیں, یا کسی ورکشاپ میں استاد سے گندی گالیاں کھا اور سیکھ رہے ہیں . کہیں کھیت مزدور ہیں تو کہیں ٹوٹی چپلوں کو ٹانکے لگا رہے ہیںہو . یاد رکھیئے صلاحیت کسی کی میراث نہیں ہوتی یہ تو خود رو پودے کی طرح ہوتی ہے جو کہیں پر بھی سر اٹھا سکتا ہے. یہ کام سماج کا ہوتا ہے کہ وہ سب کو برابر کے مواقع اور وسائل مہیا کریں. ایسا ماحول پیدا کریں کہ جس میں کسی نمبردار کا بیٹا اور موچی کا بیٹا ایک جیسی تعلیم حاصل کر سکیں. ہمارے نظام تعلیم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیئے کہ اگر کوئی بچہ کسی غیر معمولی صلاحیت کا مالک تو اسکی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ اسکی دل شکنی. ہمارے اداروں کا ماحول ایسا بن گیا ہے کہ ہم ہر اس شخص سے نفرت کرتے ہیں جو ہم سے زیادہ باصلاحیت ہو یا کسی خاص میدان میں ہم سے آگے ہو. اور اگر ایسا بچہ کسی کھیت مزدور یا مزارع کا ہو تو ہمیں اسکی توہین کرنے کا ایک غیر چیلنج شدہ حق مل جاتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اساتذہ بھی چونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں لہذا وہ بھی انہی تعصبات کے شکا ر ہوتے ہیں. حالانکہ اساتذہ کا کام بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے. یہ غیر دلچسپ کہانی تھی محمد صدیق کی جس کو حالات نے رنگ و خوشبو کی دنیا سے نکال کر کیچڑ بھری گندی جوتیاں گانٹنے پر لگا دیا, آئیے عہد کریں کہ جہاں بھی کوئی با صلاحیت نوجوآن یا بچہ نظر آئے تو اسکی مقدور بھر مدد کریں اسکو اسکی سطح سے اٹھانے میں تھوڑا سا زور ہم بھی لگا دیں . پتہ نہیں کتنے صدیق مر چکے ہیں مگر بچے ہوئے لوگوں میں سے اگر کسی ایک کو بھی اسکا حق دلوا سکیں تو یہ صدقہ جاریہ ہو گا

Facebook Comments

سجاد حیدر
شعبہ تعلیم، یقین کامل کہ میرے لوگوں کے دکھوں کا مداوا صرف تعلیم اور تربیت سے ممکن ہے۔ استحصال سے بچنا ہے تو علم کواپنا ہتھیار بناٗو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply