لمبی۔۔۔۔!! سی چُھس ۔۔۔۔!!

یہ تحریر چونکہ ہمارے معاشرہ کے طبقات اور ان طبقات پر قابض رویّوں کی بنیاد پر لکھی گئی ہے لہٰذا اسے افراد پر ناپنے سے غیر موثر نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں۔ تو برائے مہربانی اس تحریر میں بیان کردہ نشستوں پر مخصوص افراد کو بٹھانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ مجموعی رویّوں اور طبقات کو ذہن میں رکھ کر پڑھا جائے۔


قارئین کرام ۔۔!
معاشرتی ناانصافیوں اور ناہمواریوں کو اگر عوامی مخالفت کی رکاوٹ کا سامنا نہ ہو تو یہ ظالمانہ رویّے مزید تقویت پاکر مستقل وبال بن جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی تاریخ ہمیں بتاتی آئی ہے کہ ظلم اور ناانصافیوں کا تسلسل جب حدِ برداشت عبور کرجاتا ہے تو نتیجتاً ایک لاشعوری معاشرتی غُبار جنم لیتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ غبار شعور کے خول میں داخل ہوکر بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور بڑھتا ہی چلا جاتاہے یہاں تک کہ صرف ایک زور دار انقلابی دھماکے کے ساتھ پھٹنے کی دیر رہ جاتی ہے۔

پھر معاشرتی غُبار کے نتیجے میں ممکنہ زوردار دھماکے کے خدشات سے انقلاب یا کوئی دوسری بڑی سیاسی تبدیلی کا امکان پیدا ہوتا ہے اور یہ امکان معاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے ستائے ہوئے طبقات سے ہوتے ہوئے پورے معاشرے میں سرایت کرکے ایک تحریک کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ ایک ایسی تحریک جس کو باقاعدہ طور پر اُٹھانے کیلئے لا محالہ کسی مخلص لیڈر کی ضرورت پڑجاتی ہے تاکہ اس غبار کی مناسب سمت کا تعین کرکے آگے منزل تک لے جایا جاسکے۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
صدیوں سے عوام پر قابض سیاسی "نبض شناس" مداری طبقہ عین موقع پر ہی ایسی چال چل دیتے ہیں کہ اس غبار کے بڑھتے ہوئے پریشر سے رونما ہونے والے ممکنہ دھماکے کو انتہائی فیصلہ کن مرحلے پر روک لیا جاتا ہےاور مذکورہ غُبار کے دباؤ یا پریشر کو کم کرنے یا مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے مہرے کے طور پر کوئی سیاسی اداکار فراہم کردیا جاتا ہے تاکہ وہ پریشر کُوکر کی "والُو" کا کردار ادا کرکے اس غبار کو ایک لمبی سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چُھس۔۔۔۔۔۔۔ دیکر ضائع کردیں۔

اب اگر غور کیا جائے تو قوی مشاہدہ بھی ہوجائے گا کہ اکثریتی طور پر یہ چالیں کامیاب ہوتیں چلی آئی ہیں
اور اگر کامیاب نہ بھی ہو سکیں اور عوام پر قابض سیاسی ہاتھیوں کی طرف سے فراہم کردہ "مہرے" کی اداکاری سے عوام مطمئن یا متاثر نہیں ہوپاتے اور اس کی چال میں نہیں پھنس پاتے تو یہ غبار حالات پر منحصر رہ جاتا ہے۔

اس کے بعد دوسری چال یہ ہوتی ہے کہ عوام پر قابض بھونڈی سیاست کے سفید ہاتھی میڈیا پر اپنے خلاف کوئی ایسا شوشا چھوڑدیتے ہیں جو بعد میں آسانی سے رول بیک ہوسکے لیکن جس سے عوام کا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہوجائے اور عوام کے دلوں کا بوجھ ہلکا کرکے پیدا شدہ پریشر کو "چُھس" دیا جاسکے۔ ورنہ تخت سے سیدھا تختہ ۔۔۔!!!!!!
وہ شاعر کہتا ہے نا کہ
صبح کے تخت نشیں شام کو قاتل ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

دوسرے مرحلے میں پریشر کو دیے گئے چُھس کے بعد اُسی میڈیا کو استعمال کرکے یہ لوگ اپنی پارسائی کی تشہیر بھی کرالیتے ہیں اور ہاتھ کی انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناکر ایک بار پھر عوام کے ہیرو بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی عوام کے حافظے، یادداشت اور عقل کے بارےمیں ان لوگوں کو بخوبی علم اور تجربہ ہے۔


بہت ہی شاذونادر مواقع پر بھونڈی سیاست کے سفید ہاتھیوں کی یہ چالیں کامیاب نہیں ہوپاتیں اور عوام ان چالوں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں پیدا شدہ معاشرتی غبار کے پریشر کو "وہی لیڈر نما مہرہ" ہائی جیک کرالیتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ہر مجمعے اور ہر محفل میں جذباتی ہوکر تقریر و گفتار کے ذریعے معاشرتی غُبار سے اپنے سیاسی غبارے بھرتا رہتا ہے اور ان بھرے ہوئے سیاسی غباروں کو لیکر "مدرای" طبقہ کی صفوں میں جگہ بنالیتا ہے۔
اور باقاعدہ طور پر اس طبقہ کا سرٹیفائیڈ مداری بن جاتا ہے۔ جبکہ کئی سالوں میں جنم لینے والا معاشرتی غُبار صرف ایک لمبی سی چُھس کی نذر ہوجاتا ہے۔ یعنی کہ ہمارے مقامی محاورہ "ہیر پھیر شکردرہ" کے مصداق ایک بار پھر فلاں زندہ باد ، فلاں مردہ باد! حالانکہ یہی غبار حالات کی مثبت تبدیلی اور عوام پر "قابض ظالموں" ، "بھونڈی سیاست کے سفید ہاتھیوں" اور "نبض شناس مداریوں" کے احتساب کا ضامن ثابت ہوسکتا ہے۔

قارئین کرام !
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور ہماری بد قسمتی ہے کہ اس قسم کا انقلابی غبار دوبارہ بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں بلکہ میرا ذاتی مشاہدہ تو یہ ہے کہ کئی دہائیاں لگ جاتیں ہیں۔

Facebook Comments

آصف شہزاد
سرٹیفائڈ پاکستانی | درویش سّید | نِکما فوٹو گرافر | کاتبِ حق | ناکام لکھاری | بے قائدہ صحافی | بھگوڑا شاعر | نالائق طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply