وزیراعظم کا ملٹری سیکرٹری ۔۔۔۔مشتاق خان

میرا نام متالے ہے یہ افریقی  زبان کا نام ہے اور میں اپنی ذہانت ،حاضر دماغی اور مردانہ وجاہت کے بل بوتے پر اپنے ملک کے وزیراعظم کا ملٹری سیکرٹری ہوں، میری تعلیم تو زیادہ نہیں، لیکن میری بہترین تربیت کی گئی ہے جس کی وجہ سے میری زندگی میں ایک خاص رکھ رکھاؤ آگیا ہے میرا بولنا ،اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا ،سونا سب ایک نظم و ضبط کے تحت چلتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے ملٹری سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے بیس سال ہوگئے ہیں ان بیس سالوں  میں میرے ارد گرد کے لوگوں کے مطابق میری وجاہت اور رعب میں دن بدن اضافہ ہوا ہے ۔
میں نے اپنے ملک میں سول اور فوجی دونوں طرح کے حکمرانوں کے ساتھ کام کیا ہے فوجی حکمران کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ اس دور میں ملک کو بھی فوجی نظم و ضبط کے تحت چلایا جاتا ہے اور جو باس کہے بس وہ کرتے جانا ہوتا ہے ۔
سول حکمرانوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے زیادہ مزہ آتا ہے کیونکہ میرے ان کو سیلوٹ مارنے سے ان کے چہرے پر جو رونق آتی ہے اس سے وہ حکمران  میرے باس کے ساتھ ساتھ میرے بھی بڑے سے بڑے کام کو ہنس کے کردیتے ہیں ۔
دوسرا فائدہ سول حکمرانوں کا یہ ہوتا ہے کہ وہ میرے ساتھ ہر قسم کا مشورہ کرتے ہیں اور میری کہی ہوئی بات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور کیونکہ اس دور میں عوام سے براہ راست رابطہ رہتا ہے تو عوام سے ملنے والی عزت ان سے ملنے والے تحائف اور مختلف کام کروانے کی شفارش کرکے بہت اچھا کما لیتا ہوں ۔
میں یہ تحریر کبھی نہ  لکھتا کیونکہ اس تحریر کے لکھنے کی وجہ سے میری نوکری بھی جاسکتی ہے لیکن کل ایک ایسا واقعہ ہُوا ہے کہ  میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے ۔
ہوا کچھ یوں ہے کہ میرے باس نے اپنی بیٹی کے کہنے پر ہمارے ملک کے ایک فلمی ہیرو کو وزیراعظم بنا دیا ہے شروع میں تو مجھے بھی بہت اچھا لگا یہ آئیڈیا، میرے بچے بھی اس پر بہت خوش ہوئے لیکن اب جب یہ ہیرو وزیراعظم بن چکا ہے لیکن میری ڈیوٹی ملٹری سیکرٹری کے طور پر بہت عجیب وغریب ہوگئی ہے ۔
یہ فلمی ہیرو اوّل تو مجھے کوئی اہمیت نہیں  دیتا اگر کسی بہت اہم مسئلے کا بتایا بھی جائے اور ساتھ مشورہ دیا جائے کہ اس کا یہ حل ہوسکتا ہے تو یہ وزیراعظم جان بوجھ کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ سجا کے میرے کہے کے بالکل الٹ کرتا ہے ۔
جان بوجھ کے بار بار جا جا کے آتا ہے کہ میں اس کو بار بار سیلوٹ کروں اگر کوئی میٹنگ ہو تو جان بوجھ کے اس وقت سوجاتا ہے اور رات کو اُٹھ کے میٹنگ شروع کرنے کا حکم دے دیتا ہے کبھی پُر تعیش کھانے کی فرمائش اور کبھی کسی ڈھابے پر کھانے کی فرمائش کردیتا ہے ۔
اگر ادب و آداب کی بات کی جائے تو آگے سے ہنستا ہے کل جب اپنے اس فلمی ہیرو وزیراعظم  نے مجھے ساتھ لیکر ایک انتہائی گھٹیا جگہ پر بیٹھ کر سگریٹ سلگا کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کے کش پہ کش لینے شروع کیے اور سب سے بے نیاز ہو کر پورے چار سگریٹ اسی جگہ ختم کیے اور پھر بغیر کوئی کام کیے واپس اپنے دفتر چلنے کو کہا تو میرا صبر جواب دے گیا ہے ۔
اس تھوڑے سے عرصے میں اس فلمی ہیرو وزیراعظم نے مجھ سے وہ وہ کچھ کروا لیا ہے اور میں نے وہ وہ کچھ دیکھ اور برداشت کیا ہے کہ  اگرسب لکھ دو ں تو پوری دس کتابیں بن جائیں ۔
عوام اب میری طرف دیکھتی ہے تو ان کی آنکھوں میں میرے لئے اور یقیناً میرے باس کے لئے بھی تمسخر ہوتا ہے، عام غریب عوام تو باقاعدہ لعن طعن کرتی ہے ہم پر کیونکہ اس تھوڑے سے عرصے میں غریب عوام تو کیا اچھے خاصے امیر بھی فاقوں پر آگئے ہیں ۔
لیکن میرا، اور میرے باس کا مسئلہ ہمارے بچے ہیں جو اس ہیرو کی ہر ہر ادا پر صدقے واری جاتے ہیں اور کیونکہ ہمارے بچوں کو اجازت ہی نہیں  عام عوام سے ملنے جلنے کی اور نا ہی میڈیا پر ان کے ہیرو کے  کرتوت پیش کیے جارہے ہیں اور نہ ہی ان کو ابھی تک کوئی معاشی مشکل پیش آئی ہے اس لئے ہم اپنے بچوں کو اپنی تکلیف اور ذلت کا احساس بھی نہیں کروا پا رہے ۔
میں اپنی یہ تحریر صرف اپنے دل کو دوسروں کے سامنے کھول کے کچھ سکون حاصل کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں، یہ تحریر اردو میں لکھوا کر خاص طور پر آپ کی ویب سائٹ پر بھیجی ہے تاکہ میرے ملک کے لوگ اور میرے باس میری اس تحریر کو نہ  پڑھ سکیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply