نئی نسل کا مقدمہ ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد عثمان

 کسی بھی قوم کے نوجوانوں کے رجحانات اس قوم کے مجموعی مزاج کے عکاس ھوتے ھیں. اگر نئی نسل سیکھنے کی جانب راغب ہے تو آنے والے کل میں قوم کے مجموعی شعور میں بہتری اور پختگی کی امید رکھی جا سکتی ہے. تعلیم اور سماج نئی نسل کے شعور کے معیار کو متعین کرتے ہیں۔

 سماجی تربیت میں سب سے پہلا کردار گھریلو ماحول ادا کرتا ہے. بچہ اپنے والدین کے آمرانہ رویوں سے ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سیکھتا ھے. والدین کا اولاد کی زندگی کے فیصلوں پر کنٹرول بچے کو بغاوت کی روش یا احساس بے بسی سے دوچار کرتا ہے. والدین کی ناآسودہ خواہشات کا بچوں کے سامنے بار بار اظہار بچوں میں نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے. غرض ھمارے گھروں میں گھٹن کا ماحول پایا جاتا ہے جس سے بچہ نفسیاتی الجھنوں اور احساس کمتری کا مجموعہ بن کر بلوغت سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی سرحد تک پہنچتا ہے۔

بچے کی شخصیت کی تعمیر میں دوسرا کردار اسکی درسگاہ ادا کرتی ہے. یہاں ماحول سے زیادہ نصاب تعلیم کا ذکر ضروری ہے. ہمارے ہاں انگریزی زبان کی دوڑ نے بچوں کو سوچنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے. کم عمری سے ہی بچہ سیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کی بجائے ایک نئی زبان کی مرعوبیت کے بوجھ تلے دب جاتا ہے. بچے میں موجود قدرتی صلاحیتوں میں نکھار آنا تو دور، انہیں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے. یہاں بچے میں سوچنے سمجھنے، تخلیق کرنے سے دوری اور خیالات مستعار لینے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔

امتحانی نظام میں معروضی حصہ کی زیادتی نے نوجوانوں کو چیزوں کے comprehensive view سے دور کر دیا ہے. نئی نسل کسی بھی موضوع کو ہر پہلو سے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ نصابی تعلیم سے ہٹ کر مکمل شخصیت کی تعمیر کے لیے ادب یعنی لٹریچر سے وابستگی ناگزیر ہے تاہم ہماری سوسائٹی میں کتب بینی کا رجحان آخری دموں پر ہے. جس کے سب سے زیادہ ذمہ دار والدین اور ہمارے سماج کے معیارات ہیں. والدین نے گھر میں غیر نصابی کتب کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرنے سے پہلو تہی کی. کتاب پڑھنے کے لیے جس سٹیمنا اور یکسوئی کے ضرورت ہے، نوجوان کبھی اس کے عادی ہی نہیں رہے اس کی وجہ بڑی وجہ والدین میں بھی ادبی ذوق کا فقدان ہے. سماج نے آرٹ اور فلسفہ کی تعلیم کو کند ذہن یا عملی طور پر ناکام اشخاص کے ساتھ منسوب کیا اور صرف سائنس کی تعلیم کو ذہانت اور ترقی کا معیار بنایا. اس سب کے بعد ذہنی بالیدگی دیوانے کا خواب ہی سمجھی جا سکتی ہے. جب نوجوان کتاب پڑھنے سے محروم ہو گئے تو یہ شکوہ بے بنیاد ہے کہ وہ ہیجان پسند اور جذباتی کیسے ہو گئے؟ ان کے ذہن بند گلی کی طرح کیوں ہو گئے اور وہ اتنے ہٹ دھرم کیسے بنے کہ کسی بات کے جواب میں دلیل کو سننے سے عاری ہیں؟ پھر وہ نئے آنے والے نظریات کی روح کو جانے بغیر بطور فیشن انہیں قبول یا رد کرتے ہیں. انہیں اخلاقی اقدار کا طعنہ دینا بیکار مشق ہے کیونکہ وہ ایسی کوئی بات جانتے ہی نہیں۔

آج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا کے کردار کو زیر بحث لائے بغیر نوجوانوں کے ذہن کو مکمل طور پر سمجھنا ناممکن ہے. دوسری جانب اونٹ کی کمر پر آخری تنکا کے مصداق نیوز چینلز میں ریٹنگ کی دوڈ نے معاشرے کے تمام منفی پہلوؤں کو ضرورت سے زیادہ اجاگر کیا ہے. سازشی تھیوریوں، افواہوں اور منفی رپورٹس کی انتہا نے معاشرے میں ہیجان پیدا کر کے وقتی طور پر ریٹنگ تو بڑھا لی لیکن آخر کار نوجوانوں کو زود حس بنا دیا اور اب وہ ملکی معاملات اور سالمیت سے بے نیاز ہو چکے ہیں. نوجوان اپنے اقدار پر فخر اور خود اعتمادی سے بھی محروم ہو گئے ہیں اور ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ خود کو کسی بھی طرح ان تمام اقدار سے بیزار ڈیکلر کر دیں۔

سماجی گھٹن کے اس ماحول میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے نوجوان نسل کو اپنے اندر کی گھٹن کے کتھارسس کا پلیٹ فارم مہیا کیا ہے. آج کے نوجوان کا سماج فیس بک ہے. ٹائم لائن جسے وہ اپنی زندگی سے تعبیر کرتا ہے اس میں اپنا ہیرو وہ خود ہے. لائکس اور کمنٹس اس کا خون بڑھاتے ہیں. اپنی ذات کے خوبصورت پہلوؤں کو وہ سامنے لاتا ہے. چیزیں جو اس کے دل کو بھاتی ہیں انہیں وہ شئیر کرتا ہے . پاکستان میں نوجوانوں نے فیس بک کو ذہن کی غلاظت اگلنے کا ذریعہ بھی بنایا ہے. یہ سب چیزیں نوجوانوں کو ذہنی طور پہ تو آسودہ کر دیتی ہیں لیکن اسے علم اور اپنی ذات کی پہچان سے بہت دور لے گئی ہیں. نوجوان اب ایک مصنوعی دنیا میں جیتے ہیں اور اس سے باہر آنے کو تیار نہیں ہیں. انکی ترجیحات اور معیارات تبدیل ہو چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوجوان نسل نفسیاتی پیچیدگیوں اور لاحاصل مسابقتوں کے بھنور میں ہے. اپنی جبلتوں کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے میں بھی ناکام ہے. اپنی موجودہ اجتماعی حالت سے بے نیاز انفرادی طور پر اپنے حالات سے خوشیاں کشید کرنے کی کوشش میں ہے چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply