پھانسی اور واویلا

پاسپورٹ پر لگی تصاویر میرے بھتیجے کلبھوشن کی ہی ہیں اور وہ بھارتی نیوی میں کموڈور کے عہدے پر فائض ہے۔سدھیر یادیو (اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس)
میرے شوہر بھارتی نیوی کے افسر ہیں, بھارتی حکومت کو انہیں رہا کروانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے۔ (مسز کلبھوشن کا مودی کو خط)
ٹھیک ہے ہم مان لیتے ہیں کہ کلبھوشن بھارتی جاسوس ہو سکتا ہے ساری دنیا یہ کھیل کھیلتی ہے۔ (سابقہ را چیف)
کلبھوشن بھارتی ناگرک ہیں اور ہمارے بیٹے ہیں جو چاہ بہار میں بزنس کرتے تھے۔ (سشما سوراج)
ہمیں چاہیئے کہ کلبھوشن کی فیملی سے رابطہ کر کے ان کو شانت رہنے کے لیے کہا جائے اور کلبھوشن کی بھر پور مدد کی جائے۔(بھارتی اسمبلی میں مسلم اپوزیشن رہنما)
پاکستان میں کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد سے اس کی فیملی غائب ہے اور ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔ (بھارتی میڈیا مارچ 2016)
ہم کلبھوشن کی فیملی سے مکمل طور پر رابطے میں ہیں اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے تسلی دے رہے ہیں۔(بھارتی سینیٹر کا سینٹ کے اجلاس میں بیان)

اوپر بیان کیے گئے بیانات میں بہت زیادہ تضاد بھارتی عیاری و مکاری کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے جبکہ یہ تو چند ایک بیانات ہیں جن سے ہم بھارتی بوکھلاہٹ کو بھانپ سکتے ہیں کہ وہاں جس کے منہ میں جو آ رہا ہے وہی بکے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ کیا پاکستانیوں کو تمباکو سمجھتے ہیں جو پیسہ اور سوٹا لگا لیا۔ ایک صاحب تو(NDTV)پر یہ خرافات بھی بک رہے تھے کہ کلبھوشن کو چاہ بہار سے اغواء کر کے بلوچستان لے جایا گیا اور وہاں جا کر گرفتاری کا ڈھونگ رچا رہے ہیں، تو میں اس کے جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایسی گری ہوئی اور دو نمبری والی حرکتیں راء کرتی ہے آئی ایس آئی اس طرح کی بیوقوفیاں نہیں کرتی اور ہاں اگر ہم ایسا کرنے پر آ جائیں تو کموڈور تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے ورنہ آئے روز تمھاری فورسز کے جرنیل ہمارے نرغے میں ہوں جیسے تم نے کرنل حبیب کو دھوکے سے گرفتار کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک اور آہم بات کہ ہم بھی تمھاری طرح کلبھوشن کو جاسوس نہیں مانتے بلکہ ہم تو اس درندے کو دہشت گرد مانتے ہیں اور اس کی سفاکیت کے لیے موت کی سزا کافی نہیں۔ اس کو تو واہگہ بارڈر پر ایک ہفتے کے لیے لٹکا دینا چاہیے تاکہ آئندہ تمھارے ٹڈی دل سو بار سوچیں بے گناہوں کی زندگیاں چھیننے سے پہلے۔ ہم نے بہت خون بہتا دیکھا ہے پھول جیسے بچوں کی لاشیں اٹھائی ہیں کسی کا ہاتھ ملتا تھا تو پاؤں نہیں ، کہیں پر صرف دھڑ ہوتا تھا یا پھر ادھ کٹا سر اور ہم بڑی اچھی طرح واقف تھے قاتلوں کی پناہ گاہوں سے مگر اپنے حواس میں رہتے ہوئے ہر کام قانونی طریقے سے کیا اور تم ایک قاتل کہ لیے اتنا بلک رہے ہو تو سنو میں اپنی حکومت اور عدالتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس سفاک و وحشتناک دہشتگرد کو واہگہ بارڈر پریڈ گراؤنڈ میں پھانسی دے کر ایک ہفتے کے لیے لاش کو وہیں پر لٹکتا چھوڑ دیا جائے۔تاکہ آئندہ کسی مائی کے لعل میں اتنی جرات نہ ہو کہ سکے کہ پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔

Facebook Comments

رمیض اکبر خاں میئو
میرا پیغام محبت، حق، شعور، اور بھائی چارہ ہے جہاں تک پہنچے۔ باطن باوضو نہیں ہوتا جب تک رمیض مومن نہیں گردانتا تجھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply