پختون سوال۔۔۔ حسن کرتار

 کچھ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ سوشل میڈیا پہ تقریبا ً ہر تیسری پوسٹ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پختونوں کے احتجاج کی ہے ۔ ساتھ ساتھ کئی لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ مین میڈیا اس احتجاج کی کوریج کیوں نہیں کر رہا؟ کچھ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ہے ہی گٹر میڈیا۔ زیادہ تر لوگ کہہ اور سمجھ رہے ہیں کہ مظاہرین کی طرف سے فوج کے خلاف لگائے نعرے چند بڑے دماغوں کو ناگوار گزر رہے ہیں اس لئے۔ گو احتجاج کے دوسرے دن سے ان نعروں میں چند دلچسپ وجوہات کی بناء پر کافی کمی بھی آچکی ہے اور اس کی جگہ پاکستانی پختون اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ باد اور پاک آرمی زندہ باد جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔

اصل مسئلہ ہے کیا؟ کیا یہ احتجاج واقعی صرف نقیب اللہ محسود کے قاتل بھگوڑے ایس پی کی گرفتاری کےلئے ہی ہے یا اس کے کچھ اور مقاصد بھی ہیں؟ اگر ہیں تو وہ مقاصد کیا ہیں؟ کیا فوج اور امریکہ  کا وزیرستان اور باقی قبائلی علاقوں میں کئی  سالوں سے جاری فوجی آپریشن اور اس کے نتیجے میں پختونوں کا بے تحاشہ مالی و جانی نقصان اس کی وجہ ہے؟

یا پختون قبائل طالبان طالبان کھیل کر تھک چکے ہیں اور اب امن اور ترقی چاہتے ہیں؟

سوال ہی سوال ہیں مگر کوئی بڑی ہستی جواب دینے کو تیار نہیں۔ یہاں کچھ پختون دوستوں کی رائے بتا دوں کہ وہ اس انتہائی سنجیدہ معاملے کو کیسے لیتے ہیں۔

راکٹ خان نے فرمایا: “ماڑا ہم تھک چکا ہے۔ پہلے طالبان نے پھر فوج نے ہم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ قسم سے کوئی سکون ہی نہیں ہے زندگی میں۔ انہوں نے ہمارا گھر بار دکان شکان سب اجاڑ دیا ہے۔ ہم کیمپوں میں ذلیل ہو ہو کر تھک چکا ہے۔ ہم کو بس امن چاہیے۔ یہ فوج کو کہو اپنے طالبان اپنے جی ایچ کیو میں ہی رکھے یا کشمیر بھیجے۔ ہمارے پاس اب کھونے کے لئے اور کچھ نہیں ہے۔ ہم کسی کو نہیں چھوڑے گا۔”

گل خان نے فرمایا: “صاب ہمارا چھوٹا چھوٹا بچہ ہے۔ یہ فوجی لوگ آ کے ہمیں قطار میں کھڑا کرتا ہے، ہماری پگڑی اتارتا ہے،ہمیں مرغا بناتا ہے، ہمیں مارتا ہے۔ ہمیں بتاؤ ہمارا کیا قصور ہے؟ ان لوگوں نے پہلے خود ہی بولا تھا یہ طالبان تمہارا مسلمان بھائی ہے انہیں گھر میں پناہ دو۔ پھر بولا تمہارا دشمن ہے انہیں گھر سے نکالو۔ اب یہ بے قصور ہمیں مارتا ہے۔ ہمیں بتاؤ ہم کیا کریں؟

ایک پڑھے لکھے پختون لڑکے نے فرمایا: “میں جب ادھر اسلام آباد سے گھر جاتا ہوں، آرمی والے پچیس جگہ پہ مجھے روک کر میرا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں۔ سو سوال پوچھتے ہیں۔ خواہ مخواہ کی بے عزتی کرتے ہیں۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں کسی دشمن ملک میں رہتا ہوں۔”

ایک شاعر پختون دوست، مگر آرمی میجر جو وزیرستان میں ایک حملے کے دوران اپنی ایک قیمتی آنکھ سے ہاتھ دھو بیٹھے اپنے خیالات کا کچھ یوں اظہار کیا: “اس حادثے سے بچ جانے کے بعد میں نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ مجھے آہستہ آہستہ احساس ہونا شروع ہوا کہ یہ ساری گیم کھیلی جا رہی ہے۔ ہمارے سینئرز، امریکی اور طالبان دراصل ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہ لال مسجد آپریشن، سوات آپریشن اور پھر وزیرستان آپریشن سب فراڈ ہے۔ دیکھیں ناں پہلے مولانا فضل اللہ کو ایف ایم چینل چلانے کی آزادی دی گئی، اسے اور اس کے غنڈوں کو کھل کر بدمعاشی کرنے دی گئی۔ یہاں تک کہ سوات آپریشن سے ایک دن پہلے اس نے ڈی سی اور اہم سرکاری عہدے داروں کے ساتھ اکٹھے نماز ِ جمعہ پڑھی۔ اب اگلے ہی دن وہ اشتہاری تھا، سوات آپریشن شروع ہوگیا، دعوے ہوۓ کہ پندرہ سو طالبان مار دیے ۔ میں پوچھتا ہوں ان کی قبریں کہاں ہیں؟ ان کے وارثین کدھر ہیں؟ ایسا ہی کچھ لال مسجد آپریشن کے دوران ہوا۔ ایک سال تک لال مسجد انتظامیہ کو کھلی چھوٹ دی گئی، پوری دنیا میں تماشہ بنایا گیا پھر اچانک سے آپریشن۔ واہ واہ۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ دنیا ہم فوجیوں کو کوڑھ مغز سمجھتی ہے، مگر یہ نہیں دیکھتی کہ خود کتنی احمق اور بے وقوف ہے۔ مجھے یاد ہے آپ کے علاوہ کسی ایک رائٹر نے بھی فوج سے اب تک نہیں پوچھا کہ اس نے وزیرستان آپریشن کرنے میں اتنا وقت کیوں لیا اور فوج جہاں بڑا آپریشن کرتی ہے وہاں آزاد میڈیا کو کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی؟ اور بھی بہت کہانیاں ہیں اب کیا کیا بتائیں۔ لوگ ہی اتنے بےوقوف ہیں کہ انہیں سچ بتانے کا کوئی فائدہ نہیں۔الٹا اپنی جان جائے گی۔”

اب آخر میں ایک پختون دوست کی زبانی سنا ایک سچا واقعہ۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چند نوجوان پختونوں نے درہ آدم خیل میں ایک بزرگ پختون سے پوچھا کہ ان طالبان اور فوج میں سے کون بہتر ہے؟ بزرگ نے اپنے مخصوص  سٹائل سے نسوار رکھتے ہوئے فرمایا: “سچ بتاؤں تو یہ طالبان ہمارے لئے صحابہ کرام سے ہیں اور فوجی پیغمبر جیسے ہیں۔ دن کو ایک سے کچھ اور آرڈر آتا ہے رات کو دوسرے سے کچھ اور، میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply