محبت اور نفرت کے انسانی زندگی پر اثرات

انسانی تخلیق کے ساتھ جڑے دو لفظ محبت اورنفرت انسان کی زندگی میں پہلوباپہلومحوِسفررہتے ہیں۔محبت اورنفرت دو متوازی خطوط پر چلنے والے احساسات کا نام ہےجن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔انسان کی زندگی پر حیران کن حد تک اثرانداز ہونے والے یہ دو الفاظ معاشرے کی ماہیت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔محبت اک بے کراں سمندر ہے۔
بقول شاعر۔۔۔محبت ایسا دریاہےکہ بارش روٹھ بھی جائےتو پانی کم نہیں ہوتا۔۔۔۔انسان شعور کی آنکھ کھولتے ہی اپنے لیے راحت اور سکون کا متلاشی ہو کرہر پل سپنوں کی تعبیر کے لیے سرگرداں ہوکرجہدمسلسل کرتا نظر آتاہے۔محبت انسان کو آسائش فراہم کرتی ہے،انسان کی روح کو چین پہنچاتی ہےمگر ساتھ ہی یہ اک لامتناہی احساس کا نام ہےجس کی کوئی حد متعین نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے حصے کی محبت وصول کر رہا ہوتاہےمگرملنےوالی محبت کو فراموش کر کےناآسودگی کاشکاررہتاہے۔محبت انسان ہرجاندارسے حاصل کر رہا ہوتا ہےمثال کے طور پر محبت سکون کے حصول کازریعہ ہےاوریہ سکون اس کو والدین،بہن بھائی اوربیوی کی صورت میں میسر ہوتا ہےاور بے جان اشیاء بھی تسکین فراہم کرتی ہیں جیسے کہ پتھریلے راستے پر چلنے والے انسان کو آرام دہ جوتے بھی راحت کا سامان مہیا کرتےہیں ،پتھریلے راستے پر چلتے ہوئے اگر جوتا ٹوٹ جائےیا کوئی کیل کانٹا جوتے میں اٹک کر پاوں میں چُبھ جائے تو انسان کو اس جوتے کی فراہم کردہ راحت بھول جاتی ہےبس کانٹے کی تکلیف یاد رہتی ہے۔
اسی طرح انسانی زندگی سے جڑے ہر محبت والے رشتے کی عطا کردہ راحت کو انسان یکسر بھول جاتاہےمگر ان رشتوں کے ذریعے ملی ذراسی بے چینی کو حرزِجاں بنا لیتاہے۔انسان کی سرشت میں محبت اور نفرت دونوں احساس شامل ہیں مگر انسان محبت بھول جاتاہےنفرت کو یاد رکھتاہے ۔محبت خوشیاں دیتی ہے جبکہ نفرت ہر پل ناآسودگی اور اضطراب ۔میں نے یہ سوال بہت لوگوں سے پوچھا کہ انسان کو کیا یاد رہتا ہے محبت یا نفرت ؟اکثریت کا جواب تھا نفرت پھر سوال پیدا ہوا کہ نفرت ہی کیوں ؟نفرت طاقت ور ہےمگر انسان کو اس طاقتور جذبے کو شکست دینی ہو گی اور نفرت کو شکست دینے کے لیے محبت کو یاد رکھنا ہو گا۔انسان اشرف المخلوقات ہو کر بھی کیسے ہار سکتاہے ۔محبت ایسا دریاہےکہ بارش روٹھ بھی جائےتو پانی کم نہیں ہوتا۔۔اس دریا سے ملنے والے اک قطرہ کو سمندر سمجھ کر اپنے من کی پیاس بجھانی ہو گی۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply