مردِ مخاصمت اور ہمارے رویے

مختلف گروپوں میں جب بحث ہوتی ہے تو اکثر میری رائے کومردوں کو شہہ دینے کا رویہ کہا جاتا ہے۔۔سوچا آج بتا ہی دیا جائے کہ کسی مظلوم کی حمایت کے لیے ظالم بن جانا ضروری نہیں ہوتا اور حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے۔۔۔
مرد مخاصمت کے رویے سےعلاج بالضدین کے ذریعےہماری بچیاں صرف جلاد بنیں گی کہ بات مکمل ہونے سے پہلے تیغ بازی معاشرہ بہتری کی طرف نہیں جا سکتا۔ہمارے شہر کے گرد و نواح میں ایسے گاؤں بهی ہیں جن کی آبادی کی اکثریت یورپ کے مختلف ممالک بالخصوص برطانیہ میں ہے۔
گھر میں ایسے لوگوں کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا جو پاکستان کا چکر لگاتے تو وہاں برپا کرنے والی محافل کا تذکرہ فخر سے بیان کرتے ہیں۔جشن میلادالنبی،نعت خوانی کی محفلیں، بزرگوں کی برسیوں پر مسابقت کی داستانیں۔۔ایسی ہی ایک مہمان خاتون تشریف لائی تهیں جو یہاں اپنے پورے خاندان کی کرتا دهرتا تهیں اور یو کے میں بهیایسی ہی محافل کی شیدائی تهیں۔ابا جی برطانیہ میں اسلام کا بول بالا اور دینی مراکز اور ان کی خدمات کی طویل داستان خاموشی سے سنتے رہےپهر وہاں تبلیغی مراکز کا ذکر ہوا۔۔۔نعتیہ پروگراموں اور نعت خوانوں کے دوروں کا ذکر آیا۔۔میں اس وقت چائے اور لوازمات پیش کر رہی تهی اور مجهے ان کا مزاج دان ہونے کا دعویٰ تو نہیں لیکن مجهے محسوس ہو رہا تها کی اب ایک ہی دفعہ اس طویل یکطرفہ بیانیے کا جواب آئے گا جو ضروری نہیں کہ رسمی سب کہوسبحان اللہ جیسا جملہ ہو۔۔
اوروہی ہوا۔۔چائے کا دور ختم ہوتے ہی ابا جی نے بے حد ملائمت سے پوچها۔۔لاکهوں روپے لے کر نعت رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کاروبار بنانے والے نعت خوانوں اور قوالوں کو پونڈ دینے سے اسلام کی کیا خدمت ہوئی؟غربت اور مشقت کی چکی میں پسنے والے انسانوں کے ایمان میں کیا ترقی ہوئی؟امیروں نے امیروں کو بلایا۔۔امیروں کو کهلایا۔۔ان کا تن و توش دیکها آپ نے؟؟شکم سیری کے بعد ان کی جیب بهری۔۔۔اور صدقے یا رسول اللہ؟؟
تماشا دکها کر مداری گیا!
آپ پڑهےلکھے لوگ ہیں آپ بتائیں جتنا پیسہ آپ نے ان پیشہ وروں کو دیا وہی ایک سکول کهولنے یا خواتین کو دستکاری سکهانے اور گهر بیٹهے آمدنی حاصل کرنے کے اقدامات کیے جاتے۔۔یہ عاشقین رسول ﷺ ان غریب علاقوں اور سکولوں میں جا کر اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے مفت اپنے فن کا مظاہرہ کر دیا کریں۔آپ یقین کریں انسانوں کا سب سے پہلا اعتقاد روٹی ہے جب شکم میں بھوک سے آگ لگتی ہے تو انسان اور بلیاں کتے ایک ہی کچرا گھر سے لقمہ تلاش کرتے ہیں۔بھوک شریعت کو بھلا دیتی ہے کہ مرغی پر تکبیر پڑھی گئی تھی یا نہیں اور گوشت کسی حرام جانور کا ہے یا مردہ جانور کا ۔۔عشق رسول ﷺ کو کاروبار نہیں اصلاح کا ذریعہ بنانا چاہیے۔کتنے ہیں ہم میں سے جو ان کے اخلاق حسنہ، عفو و در گزر، محنت و مشقت پر عمل پیرا ہیں؟
اس دن طویل بحث ہوئی۔۔عید میلاد النبی ﷺ پر پانی کی طرح بہایا جانے والا پیسہ ،جلوسوں کی وجہ سے بند راستے،اندها دهند نابینا عقیدت اور سامنے کے مسائل سے دانستہ چشم پوشی سب زیر بحث آیا۔کهانے کے بعد مہمان رخصت ہونے لگے توامی ان کے لیے تحائف نکال لائیں۔۔ وہ کچھ پریشان بهی تهیں کیونکہ ان کے خاندان میں بهی یہ سب ہوتا تھا۔۔امی نے کہا۔۔بہن جی مرزا صاحب کی باتوں کا برا نہ منائیں۔۔ان کے پاس سارا دن لوگ اپنے امراض اور مسائل لے کر آتے ہیں اور وہ ان کو حل کرنے کے لیے اپنے منصوبے پیش کرتے رہتے ہیں۔
ابا جی فوراً بولے۔۔میں وہ کہتا ہوں جسے حق سمجهتا ہوں۔ بیٹا آپ پڑهی لکهی روشن خیال بچی ہیں آپ لوگ ابتداء کریں تبدیلی لانے کی،یہ جو عورتیں ہمارے گهروں میں کام کرتی ہیں ان کو اپنی والدہ کے نام کی کپڑے سینے کی مشینیں لے دیں صدقہ جاریہ بنائیں ان کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اٹھا لیں،اپنے والد صاحب کی برسی پر کسی کے گهر نلکا لگوا دیں۔۔کہیں بجلی لگوا دیں روشنی میں معصوم بچے پڑهیں تو آپ کے بزرگوں کو دعا دیں گے۔
بیٹا عورت کو اللہ نے اتنی عظیم طاقت اور استقامت سے نوازا ہے کہ وہ چاہے تو ان رسومات کو تعمیری رنگ دے اور اپنے حرفِ انکار سے معاشرہ بدل کر رکھ دے۔اللہ نے اسے مجازی خالق بنایا ہے اور مٹی سے پیدا نہیں کیا اس کے دئیے گئے ایک نوالے کی فضیلت مردوں کی اگائی فصلوں کے برابرہے۔اسی طرح اگر وہ اپنی ہٹ دهرمی پر قائم رہے تو ایک زندگی اور ایک گهر نہیں بلکہ ایک نسل تباہ کر سکتی ہے۔آپ اپنے خاندان کی حد تک تبدیلی لا کر دیکهیں۔یہاں غریب عورتوں اور بچوں کی کفالت کریں آپ چند سالوں میں تبدیلی دیکھیں گی۔
اس خاتون نے امی جی کے ہاتھ سے کپڑےلیے۔۔اپنے بیگ سے پیسے نکالے اور ابا جی سے کہا اس دفعہ کی برسی کے پیسوں سے آپ ان خواتین کے گهر راشن بهجوا دیں۔
اس دن اُن مالدار خاتون کےساتھ مجهے ان کی گفتگو آج بهی حرف بحرف یاد ہے۔۔
مجهے یاد ہے کہ ابا جی کتنے پر جوش انداز میں اپنے ہاتھ سے پرچی پر نام پتا لکھ کر دے رہے تهے، تاکید کر رہے تهے کہ اس عورت کا اور بچی کی کفالت کا ذمہ اٹها لو،بچی کو پڑها کر بی ایڈ کروا دو۔۔عورت کو اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت دینا اشد ضروری ہے۔۔
میں نے ابا جی کے چہرے کو اتنا روشن اتنا مسرور کبهی نہیں دیکها تها۔۔فورا گئے اور اپنا زکوٰۃ والا رجسٹر اٹها لائے۔۔براہِ راست ان خاندانوں کے نام پتے لکهوانے لگے۔
آج لندن میں مقیم وہ خاتون میری آپا ہیں اور جس خفیہ انداز میں وہ لوگوں کی مدد کرتی ہیں مجھے رشک آتا ہے۔میں جب لندن جاتی ہوں حاضری کو ضرور جاتی ہوں۔جب ابا جی نے کوچ کیا تو مجھے ملنے ڈنمارک آئیں اور ایک ہی جملہ کہتی رہیں۔۔پترابا جی کی بات نے میری روح ہلا دی تھی میں عید میلاد النبیﷺ پردرودوسلام کے تحائف بھیجتی ہوں اور ان گھروں میں راشن جن کی ذمہ داری مجھے ملی تھی۔۔پھر وہ اتنی مدھم آواز میں بولیں جو بمشکل سنائی دی۔۔تم خوش نصیب ہو ہمارے باپ نے سوائے ہماری ماں کی حق تلفی کے کچھ نہیں کیا۔۔ وہ سہاگ کے ہوتے ہوئے بے سہارا تھیں۔ابا جی نے مجھے سہارا دینا سکھایا۔مئی کے مہینے کے آخری دنوں کی اترتی ہوئی شام کے دھندلکے میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کے اشک پونچھےاور مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ میری آنکھیں ابا جی کی جدائی کے غم میں نم ہوتی ہیں یا احساس تشکر سے بھیگتی ہیں کہ اللہ نے مجھے ایک ایسے چھتنار درخت کے سائے تلے رکھا جس کا سایہ سب کے لیے یکساں تھا۔۔ جس کی دعا کل عالم کے لیے تھی۔۔جو اللہ کو رب العالمین اور سرکار دو عالم کو رحمت ا العالمینﷺ سمجھتے تھے ۔حرف حق کہتے ہوئے نہ کسی سے خائف ہوتے نہ اپنے پرائے کا امتیاز کرتے کبھی کسی کی ناجائز سفارش کر کے حق داروں کےحقوق پر نقب نہیں لگائی اور جہاں کوئی بے بس مستحق ملا اس کی خاطر ذاتی طور پر چل کر حق مانگنے گئے۔
عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ان کا ایک اپنا نظریہ تها وہ خواتین کو مردوں سے بہتر منتظم مانتے تهے ان کی تعلیم کے لیے دن رات کوشاں رہتے تهے۔ کتنی بچیوں کو انہوں نے پیشہ ورانہ تعلیم کی طرف راغب کیا۔۔ گهر بیٹھ کرروزگارکمانے کے بندوبست کیے۔۔وہ تمام مخیر دوستوں کو براہ راست مستحقین کے ساتھ ملا دیتے اور پھر معاملہ ان کے درمیان رہنے دیتے۔
ان کے جانے کے بعد خواتین اور بچیوں کا ایک ریلا تها جو کتنےدن تعزیت کے لیے آتا رہا۔۔
مرزا صاحب نے میری بچی کی شادی کروائی۔
مرزا صاحب نے ہمیں سلائی مشین لے کر دی۔
میرے بچوں کی فیس معاف کروائی۔
میرے گهر دوا مفت آتی۔۔میں بچے کو بھیجتی، خاموشی سے دوا بهیج دیتے چند دن میں شفا ہوجاتی۔۔میری بچیوں کو گهر بیٹهے ٹیوشن پڑهانے کے لیے بچے بهجوا دیتے۔
ایک دفعہ ابا جی کے پاس ایک عمر رسیدہ خاتون اپنے پوتے کے ساتھ آئیں۔۔ کہنے لگیں مرزا صاحب کوئی ایسا بندہ نہیں جو مجهے حج کروا دے۔۔ آپ تو اتنی مدد امداد کرتے ہیں۔
ابا جی ہنس کر بولے۔۔بی بی پہلے یہ بیان فرمائیں آپ کے حج سے ان یتیم بچوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
آپ کون سا انقلاب لائیں گی اتنی بهیڑ میں جا کر سجدے ادا کرکے؟
اپنی بیوہ بہو کا خیال رکهیں۔۔ان یتیموں پر اپنا سایہ تان دیں،یہاں بیٹهے آپ کے دم سے وہاں لوگوں کا حج مقبول ہو گا۔
اکثر کہا کرتے کہ میرا بس چلے تو ایک سال کے لیے ان حجاج کے حج پر پابندی لگا دوں اور سارا پیسہ ان عورتوں بچوں کے لیے پناہ اور روزگار پر لگا دوں۔ملا نے نیکیاں گننے کے کاروبار پر لگا رکها ہے عقل کے اندهوں کو۔۔۔
دل بدست آور کہ حج اکبر است
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است!
جب میری بیٹی کم سنی میں اس شعر کو دہراتی تو اس کا ماتھا چومتے۔۔میرے بچے میں نہیں ہوں گا دیکھنے کے لیے لیکن دنیا دیکھے گی کہ اللہ نافع انسانوں کے روپ میں دنیا پر اترتا ہے!!!

Facebook Comments

صدف مرزا
صدف مرزا. شاعرہ، مصنفہ ، محقق. ڈنمارک میں مقیم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply