چھوٹا گوشت۔۔مریم مجید ڈار

شہر میں چھوٹے اور نازک ماس کی مانگ اتنی بڑھ گئی تھی کہ لوگ اپنے تھان کے جنور ہی چابنے لگے تھے۔ بڈھا سخت ریشوں والا گوشت دانتوں کے درمیان موجود خلا میں پھنستا تھا ۔ مزہ بھی خراب ہو رہا تھا۔ زبان کو ہانڈی سے اٹھتی بھاپ کی طرح گیلا، نرم ماس چاہیے تھا۔ ایسا جس میں دانت گڑو لئے جائیں ۔ رسیلا نمکین اور لہو کے ذائقے سے لبریز ماس۔۔جس کا  سواد دنوں ہونٹ چاٹنے اور چٹخارے بھرنے کی عیاشی فراہم کر سکے۔۔
جسے یہ قاب دستیاب ہو جاتی وہ اسے آخر تک چاٹ جاتا تھا۔ کوئی کوئی تو اپنی بھوک کے ہاتھوں ایسا سودائی ہوتا کہ پیالہ ٹوٹ جاتا مگر وہ چاٹے ہی چلا جاتا تھا۔
لپلپاتی زبان فراٹے بھرتی تیزی سے دائیں بائیں اور اوپر نیچے سواد سمیٹتی رہتی اور منہ میں گوشت کی مہک گاچنی مٹی کی طرح گھلتی رہتی۔
اسے یاد نہیں تھا کہ اس کے پنڈے میں چھوٹے گوشت کی ہڑکل کس وجہ سے جاگی تھی۔ شاید تب جب اماں نے اسے صحن میں پھرتی چتکبری مرغی کو پکڑنے کا کہا تھا۔۔ وہ بھاگ رہا تھا اور مرغی کڑکڑاتی، جھٹپٹاتی ڈربے کے اوپر نیچے ٹاپ رہی تھی ۔۔ کچھ دیر تو اس نے خود کو بچانے کی بھرپور جدوجہد کی مگر  کب تک  ؟آخر وہ ہانپنے لگی ۔۔چونچ کھل گئی اور سینہ دھڑدھڑانے لگا ۔۔وہ اس پہ لپکا اور فورا ً اسے دبوچ کر زمین پہ لٹا دیا ۔ ایک پاؤں اس کی پروں بھری پتلی گردن پر رکھ کر جب اس نے چھری پھیری تو ایک جھرجھری، ایک دم توڑتی دھڑکن مرغی کے گرم گرم وجود سے اس کی ہتھیلی میں جذب ہو گئی ۔ وہ ایسی عجیب تھرتھراہٹ تھی جس نے اس کی بوٹی بوٹی، لوں لوں کو جھنجھنا کے رکھ دیا ۔ اور پھر وہ جھرجھری اس کے بدن میں ایک کھدے ہوئے حرف کی مانند ہو گئی۔ وہ سرد تاریک راتوں میں اسے اکساتی ” کچھ کرو۔۔۔کچھ ایسا جو اس لہر کو۔۔ اس لرزش کو تمہارے بدن میں پھر سے زندہ کر دے ”
اس نے بہت سی مرغیاں ذبح کیں صرف اس تھرکن کی لذت پانے کی خاطر مگر تشنگی روز روز ہیضے کی پیاس کی مانند بڑھتی جاتی تھی۔

دن گزرے تو بڑے کو بیاہنے کا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ شادی والے دن بھابی کو دیکھ کر اسے وہ چتکبری مرغی پھر سے یاد آ گئی جس نے اسے لرزش کی لذت کا ذائقہ چکھایا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہا اور اسے محسوس ہوا کہ سستے ساٹن کے لال جوڑے میں لپٹی بھابی کے بدن سے ہلکی ہلکی بھاپ اٹھ رہی ہے جیسی مرغی کی کھال اتارنے پر اس کے اندر سے نکل رہی تھی ۔
اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ اس بھاپ میں سانس لے۔۔اس کی حیوانی بُو سے سارے حواس بھر لے مگر وہ خاموش کھڑا دیکھتا رہا۔۔۔
رات بھر وہ خواب میں مرغیاں ذبح کرتا رہا اور صبح دم بستر کی چادر کا گولہ سا بنائے وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا ۔

مکینک بننے کے دوران اسے سب طرح کے گوشت سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ نرم لجلجا بے روح ماس جسے ہزار طرح کے جتنوں سے گزارے لائق زندگی دی جاتی بس اتنی کہ ایک بھرپور جھرجھری کا ہلارا بھوک کو کچھ دیر سلا سکے۔
کبھی کبھی گوشت تازہ بھی ہوتا۔ سرخ اور تناؤ  سے بھرپور مگر اس کا پنڈا اسے مشکل سے قبول کرتا تھا ۔
رفتہ رفتہ وہ ہر طرح کے ماس کا عادی ہو گیا۔۔ مگر چھوٹے کی لذت سے وہ پہلی بار تب آشنا ہوا جب بھائی کی چھ سال کی بٹو کو ٹیکہ لگوانے لے گیا تھا۔
ننھی بٹو ٹیکے کے خوف سے کانپ رہی تھی اور اس کی گود میں سمٹ کر اس نے زور سے اس کا بازو دبوچ لیا تھا ۔ بٹو کا لرزتا ہاتھ اسے سرور کی ایک نئی دنیا میں لے گیا۔ اس نے کمپوڈر سے دوا کی پرچی تھامی اور پلاسٹک کی بوتل والی لال دوا خریدتے ہوئے اس نے ایک چکنا محلول بھی خرید لیا ۔
واپسی پر بٹو کا تاپ اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ غریب کی ایسی حالت کچھ دو دن ہی رہی ۔  پھر ماس ٹھنڈا پڑ گیا اور مٹی کی بھوک مٹانے قبرستان میں جا پہنچا۔ مٹی کو ٹھنڈے گرم سے فرق نہیں پڑتا ۔ ۔

اس کے منہ کو تو جیسے لہو لگ گیا تھا۔ اب چھوٹے کے سوا کچھ بھاتا ہی نہ تھا۔ بھوک اسے کاٹتی تھی مگر وہ تھرتھری اسے کسی شے میں مل کے ہی نہ دے رہی تھی ۔ ۔بھاپ دیتا نمکین ماس اسے بے حال کرنے لگا ۔ تنگ آ کر اس نے ساتھ کام کرنے والے مکینک سے ذکر کیا تو پتہ چلا کہ ایک وہ ہی نہیں، شہر کا شہر ہی چھوٹے ماس کا شیدائی ہے۔
“آس پاس کوئی مال نہیں ہے کیا”؟؟ پیلے دانتوں والے اس کے ساتھی نے ماچس کی تیلی کان میں گھماتے ہوئے پوچھا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ ” آس پاس۔۔۔۔۔؟؟ کون ہو سکتا تھا۔۔؟؟ ساتھ کی کھولیوں میں پھنڈر ہی پھنڈر بھری پڑی تھیں ،سوکھے بدنوں والی بے شکل گائیاں جن کی پسلیوں میں سے اکثر پیٹ باہر نکلا رہتا تھا ۔ یوں تو ان میں کوئی شادابی نہ تھی مگر بکھیاں پھر بھی کسی نہ کسی طور بھری رہتی تھیں ۔تو وہ کیا کرے؟ ؟ کیسے اس پنڈا چاٹتی اور لہو پیتی بھوک کو مات دے۔
دن رات کی اس فاقہ کشی نے اس کے مغز کو تیل کی تلچھٹ کی طرح لال سرخ کرنا شروع کر دیا ۔ ہر آن کانوں میں سائیں سائیں ہوا کرتی اور درد کی دو دھاری تلوار اسے ناف سے حرام مغز تک چھیلتی رہتی۔

ایک رات جب وہ دونوں ہاتھ رانوں میں بھینچے، اپنی کھاٹ پر یوں پڑا تھا جیسے  ماں کے پیٹ میں دہرا ہوا ہوتا ہے اور نیند تھی کہ اس کی مچی مچی آنکھوں میں آ کر ہی نہ دے رہی تھی تو اس کے کانوں میں مرغی کی کڑکڑاہٹ پڑی ۔ شاید کسی مرغے کو بھی اس کی طرح نیند نہیں آ رہی تھی۔
ساتھ کے چھوٹے سے کمرے سے چارپائی کی چرچوں اور مرغی کی کڑکڑ نے اس کے دماغ میں سرخ سرخ گیلے اور نمکین دھند آلود خاکے مجسم کرنے شروع کیے۔ اس نے دیکھا کہ وہ گلابی،تازہ اور نرم ماس کے ایک ڈھیر میں دھنستا جا رہا ہے۔ ہاتھ پیروں سمیت ۔ماس اس کے اندر بھی ہے، باہر بھی ۔ ۔۔۔لذت سے اس کی آنکھیں الٹ پڑیں اور وہ ادھڑا ہوا کھیس پھینک کر اٹھ کھڑا ہوا۔
صحن کے ایک کونے میں چار اینٹوں سے جگہ گھیر کر رسوئی کا کام لیا جاتا تھا ۔اس نے وہاں سے تیز دھار والی چھری اٹھائی اور ڈربے کی طرف چل پڑا ۔ دو مرغے پروں میں گردن چھپائے سوئے ہوئے تھے اور ایک مرغی ان سے لگی تاپ لے رہی تھی۔ اس نے اسے گردن سے دبوچ کر نکالا اور کچھ ہی دیر میں غسل خانے کی نالی میں گرم گرم لہو بہہ رہا تھا۔ اس نے وحشیوں کی طرح کھال ادھیڑنی شروع کی اور گرم کھال کو منہ پہ ملنے لگا ۔ حیوانی مہک اور ماس کے لمس میں سانس لیتے ہوئے اسے راحت آنے لگی تھی۔ اور پھر جانے اسے کیا سوجھی؟ اس نے مرغی کے بے جان جسم کو دونوں ہاتھوں میں اٹھایا اور اس پہ جھک کر اسے چاٹتے ہوئے مست ہونے لگا۔ منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں ۔ لہو کی نمکین لذت تالو میں پھوٹی تو ناف میں اٹھتی درد کی لہروں میں کمی آنے لگی۔ وہ دانت گاڑ کر نازک ماس کے مزے لے رہا تھا اور تبھی ایک زبردست لہر نے اس کے جسم میں من پسند تھرکن پیدا کر دی۔ مرغی کا ذائقہ ہو بہو بٹو جیسا تھا ۔جانے بٹو کی گردن تھی کہ مرغی کی، جس میں دانت کھبوئے اسے جھٹکا لگا اور درد ایک گرم چپچپی دھار کی صورت اس کی رانوں میں بہہ نکلا۔
کچھ دیر وہ وہیں کچی زمین پر منہ اوندھائے پڑا رہا اور جب پیڑھ کے سارے قطرے اس کے پنڈے سے جھڑ گئے تو وہ اٹھا ، بازو تان کر ایک بھرپور انگڑائی توڑی اور کٹی ہوئی مرغی کو دیوار سے لٹکتے چھینکے میں دھر کر اندر چلا آیا ۔ رات کا باقی حصہ اس نے گہری من پسند نیند لیتے گزارا۔

صبح اس کی آنکھ ماں کے واویلے سے کھلی جو مرغی کو ڈربے سے برآمد کرنے کے بجائے چھینکے سے اتار رہی تھی ۔
“رات بلی نے ٹینٹوا دبوچ لیا تھا، چھری پھیر کے حرام ہونے سے بچائی ہے ” وہ بلی پہ ملبہ ڈال کے مزدوری کو نکل گیا۔
آج اس نے خوب دل لگا کے کام کیا تھا ۔ ہلکے پھلکے جسم کے ساتھ اسے اپنا آپ پتنگ کی مانند لگ رہا تھا۔مہینوں سے جو گرمی اور کھولن بھری پڑی تھی اس سے آج اسے موکش مل گیا تھا ۔
وہ اتنا مطمئن تھا کہ جب استاد نے ٹرک کے نیچے لیٹے ہوئے اس سے پانا مانگا اور بجائے پانے کے اس کا ہاتھ ہی پکڑ کر اسے ٹرک کے کھلے ڈھانچے تلے گھسیٹ لیا تو تب بھی ان چاہے بے سواد ماس کو اس نے سکون سے برداشت کر لیا ۔  ازار  بند باندھتے ہوئے اس نے وہ پچاس کا نوٹ بھی جیب میں اڑس لیا جو استاد کے شلوکے سے اڑایا تھا۔
دوسرے ڈھانچے تلے اس کا ساتھی سو کا نوٹ اڑانے کے قریب ہی تھا ۔
گھر پہنچ کر اس نے نہانے دھونے کے بعد صحن کے اس حصے کا رخ کیا جہاں سے پیٹ بھرنے کا سامان میسر آ سکتا تھا ۔ پیڑھی گھسیٹ کر بیٹھا تو موٹی موٹی دو روٹیوں کے ساتھ بھابھی نے سلور کی کٹوری میں ڈھیر سارا شوربہ اور دو چھوٹی چھوٹی بوٹیاں اس کے سامنے دھر دیں ۔ “گوشت”؟؟؟ کہاں سے آیا”؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا تو بھابھی نے اسے ایک نظر دیکھ کر انگلی دانتوں میں داب لی ” لے بھول گیا؟؟رات ہی تو مرغی حلال کی تھی ۔ بھلا ہو بلی کا ، دو مہینے سے پیاز کوٹ کر کھا رہے تھے سارے ۔۔” بھابھی نے آنکھیں موند کر لذت کا چٹخارہ بھرا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کھانا کھاتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ پکے ماس میں کچے ماس والی لذت نام کو بھی نہیں ہے مگر دل پہ جبر کیے کھاتا رہا۔
چارپائی پہ جا پڑنے تک وہ پچھلی رات کی نمکین بھاپ آمیز گرمی کو زبان پہ محسوس کرتا رہا ۔
اگلی سویر اس ٹوٹی کھولیوں کی آبادی میں کہرام مچا ہوا تھا ۔ پتا چلا کہ اس کے بھائی نے اپنے بیٹے کو۔اس کے باپ نے اپنے پوتے کو نمکین گوشت سمجھ کے چٹ کر لیا تھا اور صرف یہی نہیں، کل دو تین کھولیوں والی ماں سے شوربا مانگ کے لے گئی تھیں ۔ ان کے مردوں نے تھان پہ بندھی بکریوں، سوکھی مریل گایوں کی زندہ کھالیں کھینچ لی تھیں ۔ وہ کچے ماس کو پیلے زرد دانتوں سے کھسوٹ رہے تھے ۔ بڈھا گوشت پھنستا تھا۔۔ چھوٹے میں دانت گڑائے جا سکتے تھے۔ ہیضے کی وبا کی طرح اور ہوا کے ساتھ پھیلتی ماتا کی بیماری کی طرح چھوٹے گوشت کی طلب اور مانگ بڑھتی اور پھیلتی گئی۔ شہر کے سارے کچرا خانوں پر اب صرف کھال ادھڑی ادھ نچی بکریاں اور مرغیاں نظر آتی ہیں ۔ وبا طاعون ہو گئی ہے۔ چھوٹا گوشت سب سے مرغوب اور مہنگی غذا ہے۔

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چھوٹا گوشت۔۔مریم مجید ڈار

  1. بہت شاندار معاشرے کی برائی کو بے نقاب کرتی ۔کلاسک تحریر ۔لمحہ بھر کے لئے بھی محسوس نہیں ہوا کہ منٹو کی بجائے کسی اور کی تحریر ہے۔اور یہ آپ کا کمال ہے کہ اتنے اعلی پائے کا افسانہ تحریر کر دیا ۔معاشرے کو جھنجوڑ دینے والی تحریر ۔کاش میں بھی اس قابل ہو جاوں کہ آپ جیسا لکھ سکوں۔

Leave a Reply