ناموسِ رسالت،جذبات یا ایمان

بات ناموسِ رسالت کی ہو اور مسلمان جذباتی نا ہو، نہیں صاحب ایسا ممکن نہیں یہ جذبات ہی تو ہیں جو میرے جیسے گناہ گار انسان کو غیرت دلاتے ہیں کہ اٹھ کھڑے ہو میرے نبی کی حرمت کا مسئلہ ہے، میں ماں باپ کے دشمن کو تو برا سمجھوں مگر جب بات میرے آقا کی آئے تو جذباتی ہونے سے روکا کیوں جاتا ہے ۔عمومی طور پر یہی کہا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت مشفق و مہربان تھے سب زیادتیاں، تکالیف، مصائب خندہ پیشانی سے برداشت کرلیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہم بھی جوش وجذبات دکھانے کی بجائے صبر کریں اور اپنے نبی ص کی طرح معاف کردیں ۔ دراصل اس غلط فہمی کی بنیاد اس مفروضے پر مبنی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین ایک انسان کی توہین کے برابر ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک عظیم مصلح، راہنما اور مثالی ہستی کی تنقیص ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہ بنیاد اور اساس ہی غلط ہے کیونکہ احمدِ مجتبٰی حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت صرف محمد بن عبداللہ کی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ کی بھی ہے ۔
آپ صرف ایک انسان نا تھے بلکہ اللہ کے محبوب، آخری نبی، آخری دین کے ہر حکم اور عمل کے لئے اتھارٹی تھے اس لئے دیکھا جائے تو گستاخی کرنے والا صرف ایک انسان کی ہتک نہیں کرتا بلکہ وہ دین اسلام کو گالی دیتا ہے کیونکہ اسلام تو اتباعِ رسول کے سوا کچھ بھی نہیں، وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو گالی دیتا ہے کیونکہ آپ ان سب کے امام ہیں اور انہوں نے نبوتِ محمدی کا اقرار کیا تھا، وہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان کو گالی دیتا ہے کیونکہ عشقِ مصطفی ایمان کا ہی دوسرا عنوان ہے ۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تو یہ اختیار تھا کہ آپ اپنی ذات کو تکالیف اور ایذاء پہنچانے والے کو معاف کردیں لیکن یہ بھی تب تک جب اس کا اثر اللہ کے دین تک نا پہنچے
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی عنہا فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا لیکن جب اللہ کی قائم کردہ حدوں اور حرمت میں سے کسی کو پامال کیا گیا تو آپ نے اللہ ہی کے لئے اس کا انتقام لیا ۔
علامہ ابنِ تیمیہ میں لکھا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کو تو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنے سامنے سب و شتم کرنے والوں سے در گزر کر لیں لیکن آپ کی امت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس جرم کو معاف کردے (الصارم المسلول)
افسوس ہے کچھ لوگ خود پر تنقید برداشت نہیں کرتے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین و تنقیص پر صبر حوصلے اور برداشت کا درس دیتے ہیں ۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ بھی کوئی میٹھے مزاج کا ہوگا؟ ہر گز نہیں مگر جب بات ناموسِ رسالت کی آتی ہے تو اپنا ہی اصول توڑتے ہوئے فرمایا کوئی بدری ہو یا احدی یمامہ پہنچے۔کافر یہی تو چاہتا ہے کہ ہمارے دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت نکل جائے ہم بے حس ہو جائیں پھر وہ دل کھول کر تنقید کر سکے وہ جانتا نہیں محبوبِ خدا کا ایک ایک لمحہ میرے رب نے محفوظ کر کے ہمیں پیغام دیا ہے کہ کوئی رہے نا رہے شافعِ محشر ہمیشہ سے تھے، ہیں اور رہیں گے۔ رب کو اپنے محبوب کی عزت کی رکھوالی کے لئے میرے جیسے نالائق کی ضرورت نہیں مگر یہ میرا امتحان ہے کہ بات ناموسِ رسالت کی آئی اور میں نے کیا کیا؟ میرا کیا کردار تھا، میری ایمانی غیرت کتنی تھی میرا عشق کتنا تھا ۔ریاست کو بھی چاہئے ایسے بدبختوں کو لگام دے تاکہ کوئی قانون ہاتھ میں نا لے ۔ورنہ تاریخ تو غازی عامر، غازی علم الدین سے بھری پڑی ہے۔
عدالت کو چاہیے قانون بنادے فلٹر لگائے جائیں جو گستاخانہ مواد کو کنٹرول کرے ۔اگر ایسا سسٹم موجود نہیں تو آئی ٹی سپیشلسٹ کو چاہیے جتنی جلدی ہو سکے ایسے سافٹ ویئر بنائیں ۔
عوام کو چاہیے ریاست کے بازو مضبوط کرے اور قانون کی بالا دستی ثابت ہو ۔

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply