چھوڑنے والے پیر صاحب

اللہ بخشے پیر صاحب کو، چھوڑنے میں بہت ماہر تھے.

آج سے کچھ سال پہلے معصوم بھائی نے ہمیں اندرون سندھ کی سیر کروانے کی خواہش ظاہر کی. ہم بھی سیر سپاٹے کے کافی شوقین واقع ہوئے ہیں اس لئے جھٹ سے ساتھ چلنے کو راضی ہو گئے. ہم علی الصبح نکلے اور تین گھنٹے کی مسافت طے کر کے ایک چھوٹے شہر انسان آباد (فرضی) پہنچ گئے.

انسان آباد میں کسی پیر صاحب کی بہت دھوم تھی. بہت سی گلیوں اور ایک بڑے چوک پر ان کے نام کا سائن بورڈ آویزاں تھا جس پر موٹے دانوں والی تسبیح لٹک رہی تھی. کسی پیر کے نام کا ایسا پروٹوکول پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.

شہر کے نواحی علاقے میں ایک خاکی ٹینٹ تھا جس کے باہر چند سو افراد کا جمگھٹ موجود تھا. معصوم صاحب کی گاڑی اسی طرف رواں تھی. چند قدم پر ایک شاہانہ مکان تھا. مجھے جان کر تعجب ہوا کہ وہ معصوم صاحب کی ملکیت تھا. وہاں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد ہم اس جھگی کی طرف روانہ ہوئے.. مجھے پیر صاحب کو دیکھنے کا اشتیاق تھا. معصوم صاحب نے راستے میں مجھ سے قسم اٹھوا لی تھی کہ پیر صاحب کے سامنے ایک بھی لفظ ادا نہیں کرنا ہے..

پیر صاحب کی جھگی میں پہنچ کر ایک مضبوط دھچکا لگا. یوں محسوس ہوا گویا پاؤں تلے زمین نکل گئی ہو. معصوم صاحب کے دادا حضور پیر صاحب بنے بیٹھے تھے.

ان کا اصلاحی بیان چل رہا تھا وہ اپنی نفس کشی کی داستانیں سناتے ہوئے یہ تاثر دے رہے تھے کہ جس مقام پر مہاتما سدھارتھ گوتم بدھ کو نروان ملا تھا اس منزل سے انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا. کہہ رہے تھے کہ پہلے انہوں نے جاہ و حشمت کو چھوڑا، پھر سلطنت و امارت کو چھوڑا یہاں تک کہ خاندان و وراثت کو چھوڑا اور تلاش حق کے لئے ہر نعمت و آسانی کو چھوڑ دیا. یہ سن کر ہمیں یقین ہو گیا کہ حضرت جی واقعی بہت چھوڑتے ہیں.

معصوم صاحب نے بتایا کہ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم تھی کہ ان کی جھگی میں دو مٹکے پانی چار چٹائیاں تین کنڈول اور دو پرانے رومال ہیں. ایک رومال میں خشک روٹیاں اور دوسرے میں زائرین کے نذرانے جمع ہوتے ہیں. پیر صاحب کا اپنا لنچ جھگی میں نہیں ہوتا بلکہ کچھ فاصلے پر اسی شاہانہ مکان میں کالے شیشوں والے ٹویوٹا ایکس ایل آئی کا نیا ماڈل کھڑا ہے. پیر صاحب اپنے اس بنگلہ نما گھر سے وائٹ کارٹن پہن کر اپنی اس کار میں شیشے چڑھا کر فائیو سٹار ریسٹورنٹ جا کر وہاں مٹن تکہ کھاتے ہیں.

ہمیں زائرین اور مریدین سے معلوم ہوا کہ پیر صاحب بہت محترم ہستی ہیں. ایک مرید کہنے لگے
“پیر سائیں ہمارے لئے دعا کرتے ہیں اور ان کی دعا سے ہماری مشکلیں حل ہوتی ہیں. ہمارے رکے ہوئے کام چل پڑتے ہیں ہمارے مریضوں کو شفا ملتی ہے. وڈے سائیں کی وجہ سے اس شہر کا کاروبار چل رہا ہے. دن میں پیر سائیں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور شام میں اس بڑے مکان کے پیچھے جہاں اندھیری گلی ہے، وہاں جا کر غائب ہو جاتے ہیں. بڑے ولی اور اللہ والے بزرگ ہیں ”

پیر صاحب ہمارے لنگوٹیے دوست معصوم کے سگے دادا تھے. اس لفظ “سگے” پر معصوم صاحب بلا وجہ زور دیا کرتے تھے. اس کے باوجود ہم نے کبھی معصوم صاحب کو شاہ جی نہیں سمجھا. اس دن ہم نے پیر صاحب کے اس خفیہ بنگلے میں بتیس انچ کی ایل ای ڈی پر ایک سائنس فکشن فلم دیکھی. یہ ماننا پڑے گا کہ پیر صاحب کا ذوق بہت عمدہ تھا. تیز میوزک پسند کرتے تھے. بعد از فلم بینی اس اندھیری گلی کا راز یہ سامنے ایا کہ وہاں زمین پر ایک دو بائی دو کا شگاف ہے جو لوہے کے ڈھکن سے ڈھانپا گیا ہے. وہی سے یہ اہل ایمان صورت خورشید ڈوبتے اور ابھرتے ہیں.

پیر صاحب کی حیات طیبہ کے بارے میں جاننے کے بعد دوبارہ ان کی جھگی میں جا کر ان سے لطائف معرفت سن کر بہت لطف آیا. فرما رہے تھے کہ انسان فانی ہے، پل دو پل کی زندگانی ہے جو کرنا ہے اسی زندگی میں کرنا ہے. کہیں ایسا نہ ہو کہ آخری وقت میں انسان پچھتاتا رہے کہ زندگی بھر کچھ دولت نہیں کمائی. خیر کی دولت، سچ کی دولت، محبت کی دولت، عزت کی دولت، عمل کی دولت، معرفت کی دولت اور ہر قسم کی دولت.. فرماتے تھے زندگی یہی ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے. مزید فرمایا کہ مال وہی اچھا جو راہ خدا میں کسی فقیر کی جھولی میں ڈال دیا جائے ایسا کرنے سے مال تیزی سے بڑھتا ہے غیب سے مدد ملتی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ دیر یہ اصلاحی بیانات سن کر ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا. چند ماہ بعد پیر صاحب انتقال فرما گئے. سنا ہے آج اس جھگی پر ایک بڑا مزار موجود ہے. اور دور دور سے زائرین زیارت کرنے آتے ہیں. انسان آباد کے باسیوں کی زہنیت آج بھی ایسے ہی زندہ و مردہ پیروں کی تقلید میں مصروف ہے. پیر صاحبان آج بھی تنگ گلیوں کی تاریکیوں میں ایسے ہی غائب ہو جاتے ہیں.

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply