کار لاحاصل/عامر حسینی

نوٹ: ہمیں گھر، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، بازار ، مسجد ، کلیسا ، مندر میں ہی نہیں بلکہ ہر ایک آموزش میں یہی تبلیغ کی جاتی ہے کہ ترقی کے ٹاپ پر پہنچنے کا ایک ہی راستہ  ہے اور وہ ہے محنت اور صلاحیت(اگرچہ صلاحیت ایک بہت ہی فریبی اصطلاح ہے جو صلاحیت اور اہلیت کراچی گرائمر اسکول میں پڑھنے والے بچوں کو ملتی ہے وہ ٹاٹ اسکول کے بچوں کو کبھی نہیں ملتی لیکن پھر وہ صلاحیت اور اہلیت ٹاپ پہ بیٹھی ایک فیصد مہا سرمایہ داروں کے کلب میں پہنچانے کے لیے بنیادی عامل نہیں ہوتی) کروڑوں لوگ محنت، صلاحیت اور اہلیت کے باوجود سماجی عدم مساوات میں خط غربت سے کچھ اوپر ، خط غربت پر اور خط غربت سے نیچے رہتے ہیں – اخلاقیات کے سارے بھاشن ان ہی کے لیے ہوتے ہیں اور اشرافیہ کا کلب کبھی بھی چند فیصد سے زیادہ لوگوں کو رکنیت نہیں دے پاتا- منافع اور ان سینٹیو کو سماج کی فطرت بتانے والے یہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ حرص ، ترغیب محض ایک چھوٹی سی اقلیت کے لیے ترقی کے ٹاپ پر پہنچنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا خود کار میکنزم ہزاروں رکاوٹوں کو کروڑوں افراد کے راستے میں ایسے کھڑی کرتا ہے کہ وہ ان رکاوٹوں کو کبھی پھلانگ ہی نہیں پاتے- یہ کروڑوں لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے پاس نہ تو سالوں کی محنت کی لوٹ(قدر زائد سے جمع سرمائے) نہیں ہوتی ہے نہ ان کی اکثریت کے پاس وسائل پیداوار کا کنٹرول ہوتا ہے اور نہ ہی جدید آلات پیداوار کا قبضہ ہوتا ہے- ان کروڑوں لوگوں میں جو جدید ترین مہارت کے حامل افراد ہوتے ہیں ان کی شب و روز کی محنت بھی انھیں بورژوازی/سرمایہ دار اور پیٹی بورژوازی /درمیانے اور چھوٹے سرمایہ دار نہیں بنا پاتی- بورژوازی اقلیت ریاست اور سول سوسائٹی کے ایک بڑے آپریٹس کے ساتھ کروڑوں لوگوں کا شعور ایسے کنٹرول کرتی ہے کہ انھیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ زیادہ محنت کریں گے تو بورژوازی کلب میں شامل یوجائیں گے- عامر حسینی

کراچی کے ایک پرانے محلے میں تین دوست رہتے تھے: سلیم، نعیم، اور عارف۔ ان تینوں کے خوابوں کا مرکز تھا کہ وہ کسی دن شہر کی اشرافیہ میں شامل ہو جائیں، لیکن ان کے خواب اور حقیقت کے درمیان ایک گہری کھائی حائل تھی۔
سلیم ایک درمیانے طبقے کا جوان تھا جس نے اپنے والد کے چھوٹے سے کاروبار کو سنبھال رکھا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ایک دن بڑے کاروباری طبقے کا حصہ بنے۔ وہ ہمیشہ شہر کے مہنگے ہوٹلوں اور بڑے کاروباری مراکز کے بارے میں پڑھتا رہتا تھا اور سوچتا تھا کہ وہ بھی کسی دن وہاں کا معزز کاروباری شخصیت بنے گا۔
نعیم ایک وکیل تھا جس کی خواہش تھی کہ وہ شہر کے بڑے وکلا کے ساتھ کام کرے اور شہر کے اعلیٰ طبقے میں شامل ہو جائے۔ اس نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح بڑے کیسز حاصل کرے اور شہر کے بڑے وکیلوں کی صف میں شامل ہو۔
عارف ایک شاعر تھا، اس کا خواب تھا کہ اس کی شاعری کو شہر کے بڑے ادبی حلقوں میں پذیرائی ملے۔ وہ ہمیشہ شہر کے بڑے شاعری مشاعروں میں جانے کا خواہاں تھا اور چاہتا تھا کہ اس کی شاعری کو بڑے بڑے ادبی محفلوں میں سراہا جائے۔

سلیم، نعیم اور عارف نے اپنی زندگیاں بدلنے کے لیے دن رات محنت کی۔ سلیم نے اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کے لیے قرضے لیے اور اپنے والد کے چھوٹے کاروبار کو بڑے پیمانے پر لانے کی کوشش کی۔ نعیم نے بڑے کیسز حاصل کرنے کے لیے شہر کے بڑے وکلا کے ساتھ روابط بنائے اور عارف نے اپنی شاعری کو نکھارنے کے لیے مشاعروں میں شرکت کی۔

ایک دن، سلیم کو ایک بڑا کاروباری معاہدہ ملا جسے اس نے پورے جوش و خروش سے قبول کیا۔ لیکن جلد ہی اسے پتہ چلا کہ یہ معاہدہ ایک دھوکہ تھا، جس کی وجہ سے وہ قرضوں میں ڈوب گیا اور اس کا کاروبار تباہ ہو گیا۔ اس کی محنت اور صلاحیتیں سرمایہ دارانہ سماج میں اس کی حفاظت نہ کر سکیں۔

نعیم نے ایک بڑے کیس کو حل کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی، لیکن عدالت نے فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں کر دیا کیونکہ وہ فریق اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے پیچھے بڑے بڑے لوگ تھے۔ نعیم نے دیکھا کہ قانون اور انصاف بھی پیسے اور طاقت کے تابع ہیں۔

عارف نے اپنی شاعری کو مشاعروں میں پیش کیا، لیکن اسے محسوس ہوا کہ ادبی محافل میں بھی اشرافیہ کا تسلط ہے۔ اس کی محنت اور صلاحیتیں اس کے خوابوں کو حقیقت نہ بنا سکیں، کیونکہ وہاں بھی روابط اور تعلقات کی اہمیت تھی۔

ایک دن، ان تینوں دوستوں نے شہر کے ایک مہنگے ہوٹل میں اشرافیہ کے لوگوں کی محفل دیکھی۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ کیسے یہ لوگ اپنے پیسے اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں خالی پن اور دکھاوا صاف ظاہر تھا۔

یہ تینوں دوست اپنی اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر ایک دن پھر سے اسی پرانے محلے میں ملے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے خواب بُنے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ محض محنت اور صلاحیت سے سرمایہ دارانہ سماج میں اشرافیہ کا حصہ بننا ناممکن ہے۔ انہیں یہ بھی ادراک ہوا کہ اشرافیہ کا کھوکھلا پن صرف دکھاوے اور پیسے کی بنیاد پر قائم ہے، اور اس میں کوئی حقیقی خوشی یا سکون نہیں ہے۔
ان کی کہانی ایک سبق تھی کہ کبھی کبھی خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے صرف محنت ہی کافی نہیں ہوتی، بلکہ قسمت، روابط، اور پیسے کا کھیل بھی ضروری ہوتا ہے۔ ان کی کوششیں محض کار حاصل ثابت ہوئیں، کیونکہ وہ طبقاتی نظام اور سرمایہ داری کے بے رحم اصولوں کو نہ بدل سکے۔

julia rana solicitors london

آخر میں، سلیم، نعیم اور عارف نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ان کی محنت اور خواب ایک بے رحم سماج میں کار حاصل تھے، جہاں اشرافیہ کا حصہ بننا محض محنت اور صلاحیت سے ممکن نہیں۔ ان کی زندگیاں اپنی جگہ پر رک گئیں-

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply