ایک ولی اللہ پیر کی یاد میں۔۔معاذ بن محمود

ان کی کرامات کا ظہور ان کے ابتدائی ایام سے شروع ہوچکا تھا۔ والدہ ولی اللہ فرماتی ہیں میں اپنے اس پوت کو بھلا کیسے بھول سکتی ہوں کہ زمانہ شیر خواری میں وہ حامل دندان ہوا کرتا تھا۔ پیٹ بھرنے پہ وہ مجھے کاٹنا شروع کر دیا کرتا تھا۔ بیشک پیر صاحب بچپن سے ہی منفرد تھے۔ اللہ کا وہ خاص بندہ وقت سے کہیں پہلے بولنا شروع کر چکا تھا لیکن عام لوگوں کو اس کا ادراک نہ تھا۔ کچھ بہت ہی خاص اور اپنے جانتے تھے کہ کھلونا چھیننے پہ حضرت انتہائی ثقیل الفاظ میں ظالم کو اس کی والدہ ماجدہ اور ہمشیرہ  عاصمہ کی یاد دلا دیا کر دتے۔ معجزاتِ زندہ پیر میں لکھوں تو کہاں تلک؟

پیر صاحب کے لڑکپن کا وہ واقعہ محلے والوں کو ان کے جلال سے اس حد تک روشناس کرا گیا کہ اہل محلہ کی طلاقیں واقع ہونا شروع ہو گئیں۔ کہتے ہیں پیر صاحب کے آبائی گھر سے دو مکان چھوڑ کر ہمسائے کی وفات اس رات ہوئی جس رات پیر صاحب نے اپنے والد کو ایک عدد طمانچہ پڑنے پر بد دعا دی کہ اے اللہ ابے نوں چک لے۔ یہ وہ آخری دن تھا جب محلے کی بیوی نے اپنے شوہر پہ اور شوہر نے بیوی پر اعتماد کی آخری نگاہ ڈالی۔

یہاں سے پیر صاحب پہ آشکار ہوا کہ ان کی خداداد صلاحیتیں بنی نوع انسان کی خدمت میں لائی جاسکتی ہیں، اور ساتھ ہی ان کے عوض پیٹ پوجا کا بندوبست بھی کیا جاسکتا ہے۔ پیر صاحب نے اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کا آغاز دُکھی خواتین و حضرات کی طلاقیں کروانے سے کیا۔ دو سو روپے اضافی میں حضرت قدموں میں پڑنے والے اوندھے ہونے کو راضی وقتی محبوب یا محبوبہ کا پتہ بھی بتلا دیا کرتے۔ بیشک دُکھی انسانیت کی خدمت میں پیر صاحب کا کوئی ثانی نہ تھا۔ پیر صاحب اپنی جوانی تک اس فانی دنیا کی حکمت جان چکے تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ دنیا میں کچھ نہیں۔ راوی کہتا ہے اکثر مریدین کے سوال کا جواب وہ یہی دیا کرتے “مینوں کی پتہ؟”۔ جوانی تک پیر صاحب ایک نام کما چکے تھے۔

پیر صاحب نے ادھیڑ عمری کو پہنچنے تک تین شادیاں کیں لیکن ان کی شخصیت کا جلال اس حد تک خطرناک تھا کہ تینوں بیویاں ایک ایک کر کے گھر جا بیٹھیں۔ کہتے ہیں پیر صاحب کے حرم کی سن گن والے اس حقیقت کا دوش بھی پیر صاحب کے دندان مبارک کو دیتے ہیں ۔

ادھیڑ عمری تک پیر صاحب مقامی سطح پہ جانے اور قومی سطح پہ مانے جاتے تھے۔ ضیاء دور سے مشروبِ ام الخبائث پر پابندی لگ چکی تھی۔ بابا جی اوائل جوانی میں خبائث کی ماں کا استعمال کرتے لطائف کے باپ بن جایا کرتے اور یوں اکثر اپنی روح میں جھانکنے کی تدبیر کیا کرتے۔ وجد کے اس مشروب کے عدم میں پیر صاحب بابے کی بھنگ کے زینے معرفت کی معراج پایا کرتے۔ ایک دن معرفت کی اس حالت وجد میں پیر صاحب کو پتنگ بازی کی سوجھی۔ سیاہ آنکھوں والا گڈا نیلے فلک میں ایک سے بڑھ کر ایک شرمیلی رنگ برنگی پتنگ کو اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ پیر صاحب اس چھیڑ خانی میں محو تھے اتنے میں پڑوسی وفاقی وزیر رانا خدا کی ثناء و پناہ کا زرد گڈا پیر صاحب کی پتنگ سے بھڑ گیا۔ رانے کی ڈور میں بلا کی کاٹ تھی لہذا پیر صاحب کا گڈا ایک ہی لمحے میں فلک کے دوش پہ ڈولتا تین موٹر سائیکل والوں کے گلے کاٹتا کسی کھیت میں جاگرا۔ بھنگ کا اثر اپنے جوبن پہ، پیر صاحب ہنستے ہنستے رو پڑے اور اس واقعے کو قادیانی سازش قرار دیتے ہوئے رانے کا نکاح باطل ہونے کی وعید سنا ڈالی۔ بات یہیں تک ہوتی تو شاید اتنی باہر نہ نکلتی کیونکہ رانا نے کون سا پیر صاحب کو منہ لگانا تھا۔ پیر صاحب نے ساتھ ہی توہین رسالت کا الزام لگاتے ہوئے دھرنے کا اعلان بھی کر ڈالا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں سے ہمارے پیر صاحب کی آخری اور سب سے بڑی کرامت سامنے آتی ہے۔ پیر صاحب نے اپنے سڑک بند کرنے والے مقامی موکلین کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف حکومتی بدمعاشوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا بلکہ ایک ہی جھٹکے میں صوبے کے سب سے بڑے خادم کو بھی اپنے گھٹنے چھونے پر مجبور کر دیا (یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ جھٹکا کس کو کس نے دیا)۔ اکتفا اسی پر ہی نہیں بلکہ انتہائی خوش اسلوبی سے رانے کا نکاح بھی پیر صاحب نے بلا حلالے واپس چیپ دیا۔ یہ ہوتی ہیں کرامات زندہ پیر۔ یہ ہوتی ہیں کرامات ولی اللہ۔ لیکن عام آدمی بھلا کہاں جانے معرفت کی باتیں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply