• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران کے خلاف مقدمات میں عدالتی طرزعمل پہ سوال اٹھ رہے ہیں۔۔سید عارف مصطفٰی

عمران کے خلاف مقدمات میں عدالتی طرزعمل پہ سوال اٹھ رہے ہیں۔۔سید عارف مصطفٰی

 سارا معاملہ شکست خواب کا ہے اور ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں  آنکھوں  میں چبھ  رہی ہیں ۔ نیا پاکستان بنانے کا خواب دیکھنے والے نظریاتی کارکن اب سکڑتے اور سمٹتے جارہے ہیں اورپی ٹی آئی میں اب ان کی جگہ نئے فصلی بٹیروں نے لے لی ہے جو کہ بنی گالہ کی منڈیروں اور کگروں پہ قبضہ جماکے بیٹھ گئے ہیں‌‌ ۔ مذکورہ نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تبدیلی کے نعروں کی برکھا کے بعد تلخ حقائق کی اچانک نکل آنے والی کڑی دھوپ میں پریشان کھڑی ہے اور بہت ششدر ہے ۔ اس عجیب صورتحال میں ایسے سنجیدہ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد تو ناراض ہوکے سائیڈ لائن پہ بیٹھ گئی ہے اور کئیوں نے تو سیاست ہی کو خیرباد کہ دیا ہے۔ جو سائڈ لائن پہ بیٹھے ہوئے ہیں وہ اب پی ٹی آئی کی عمران خان کے تابع تنظیم کو پی ٹی آئی ‘ایل ‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں جس میں ایل کا لاحقہ لفظ لوٹا کی علامت ہے اور کون نہیں جانتا کہ لوٹا دراصل ابن الوقتی و مفاد پرستی پہ مبنی طرز فکر کی نمائندگی کرتا ہے-

ان نظریاتی انصافیوں میں شامل نام کوئی چھوٹے موٹے نہیں ہیں کیونکہ ان میں اکبر شیر بابر ہیں ، محبوب اسلم ہیں ، سلیم جان ہیں یعقوب کندی ہیں وغیرہ وغیرہ ان سب کی فہرست بڑی طویل ہے اور یہاں ان سب کے نام گنوانے کا نہ موقع ہے اور نہ ہی یارا۔۔۔۔ ان لوگوں نے پی ٹی آئی کا پرچم جب تھاما تھا کہ جب اس تنظیم کو کوئی جانتا بھی نہ تھا اور اسی لیے آج پارٹی کو نظریاتی طور پہ اس ابتر حال پہ پہنچا دیکھ کے ان کے دل افسردہ ہیں ، بہت رنجور ہیں ۔ کارکنان کی افسردگی کی یوں تو متعدد وجوہات ہیں اور یہ سب وجوہات میڈیا پہ کئی بار پیش کی جاچکی ہیں لیکن پھر بھی اگلی کسی نشست میں ایک جائزہ پیش کردیا جائے گا تاہم ان سب دل شکن باتوں کے ساتھ ساتھ ایک عنصر اور بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ کارکنان یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان کے قائد کا جو امیج سچے لیڈر کا تھا وہ قطعی مسخ ہوچکا ہے اور حیلہ جوئی و بہانہ بازی کے ساتھ ساتھ اسکی یو ٹرن لینے کی عادت بھی راسخ ہوتی جارہی ہے اوراس نے سیاست میں شائستگی اور خوش خلقی کو مکمل طور پہ تج دیا ہے اور گالی گلوچ کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے اور اس کے تحت اس نے دوسروں کے خلاف مسلسل الزامات کی بھرمار کرنے کو تو اپنا شعار بنا رکھا ہے حتیٰ کہ سوشل میڈیا پہ ان کا متبادل نام ہی الزام خان پڑ گیا ہے جو کہ بس الزام لگاکے آگے بڑھ جاتا ہے لیکن کبھی اپنے لگائے کسی الزام کا کوئی ثبوت فراہم کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتا اور جس میں خود اپنے خلاف عائد کیے گئے الزامات کا سامنا کرنے کی ذرا بھی سکت نہیں ہے اور وہ ان کا مؤثر انداز میں جواب دینے کی بجائے ہمیشہ راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے ۔

یہ مایوس کارکنان جانتے ہیں کہ نجم سیٹھی نے جب اپنے خلاف 35 پنکچر والی مشہور الزام تراشی پہ عمران خان کو عدالت میں گھسیٹا تو کورٹ میں انہوں نے اپنے اس بیان کو سیاسی بیان کہہ  کر جان چھڑالی اور یوں ‌وہ واضح طور پہ جھوٹے ثابت ہوگئے اسی طرح جب انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ان کو انتخابی شکست سے دوچار کرنے کے لیے  رچائی گئی مبینہ سازش میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا تو پھر افتخار چوہدری نے ان کے خلاف 20 ملین روپے کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا تو وہ اب اس سے بچنے کے لیے مسلسل تاخیری حربے اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایسی ہی ایک مثال شہباز شریف کی ہے کہ جب عمران خان نے شہباز شریف کے خلاف یہ الزام لگایا تھا کہ انہوں نے پاناما پیپرز لیکس پہ انہیں چپ رہنے کے عیوض 10 ارب روپے دینے کی پیشکش کی تھی اور اس پہ جب شہباز شریف نے انہیں اس الزام تراشی پہ عدالت میں طلب کرلیا تو وہ کبھی کورٹ کے اختیار سماعت کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی ان کے وکیل سماعت پہ نہیں آتے –

اب خان کو تازہ ترین نوٹس جنگ اور جیو گروپ کی طرف سے ملا ہے اور جس میں ان سے اس گروپ کے خلاف سنگین اور خطرناک جھوٹے الزامات لگانے پہ برسرعام معافی مانگنے یا پھر ایک ارب کا ہرجانہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہونا  کچھ بھی نہیں کیونکہ ا ن کا لیڈر معاملے کوطرح طرح کے تاخیری حربوں سے ٹکائے رکھے گا اور عدالتیں انہیں تاریخ پہ تاریخ دیتی چلی جائیں گی جیسا کہ پہلے اور دیگر ایسے ہی کیسوں میں ہوتا چلاآیا ہے ۔۔۔ یہ سب نظریاتی کارکن اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ نوٹس دینے سے پہلے یہ میڈیا گروپ انہیں متعدد مرتبہ کھلے عام مناظرے کی دعوت بھی دے چکا ہے اور حیرت انگیز طور پہ جسے قبول کرنے میں خان نے ہمیشہ پیٹھ دکھائی ہے اور ان کو ایک اصولی اور بے باک و سچا قائد مان کے ان کے ساتھ چل پڑنے والوں کو یہ صورتحال کسی صورت ہضم نہیں ہو پارہی کہ کیسے ان کا لیڈرہر بارمیدان چھوڑ کے بھاگ کھڑا ہوتا ہے اوروہ سمجھ نہیں پا رہے کہ اس صورتحال کے بعد آخر دنیا ان کے قائد کو قطعی جھوٹا اور اس گروپ کے مؤقف کو درست کیوں نہ تسلیم کرے ۔

اسی حوالے سے ایک اور بات جو انہیں عرصے سے ورطہء حیرت میں ڈالے ہوئے ہے وہ یہ کہ ان کا قائد ہربار ان مقدمات کو لٹکائے رکھنے میں کیسے کامیاب رہتا ہے اور یہ کھیل طویل عرصے سے کیونکر جاری رکھنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے اور ہماری عدالتیں اس شہرہء  آفاق مقولے کی طرف سے کان کیوں بند کیے  رکھتی ہیں کہ   انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار ہےـ یہ امر بھی ان نظریاتی لوگوں  کے لیے شدید حیرت کا باعث ہے کہ جب ان کے قائد نے پاناما کیس کی سماعت کا فیصلہ آنے کے بعد نواز شریف پہ یہ الزام لگایا تھا کہ انہوإں نے اس کیس کے پانچوں ججوں کو اپنے حق میں فیصلہ کرنے کے لیے دس ارب روپے رشوت دینے کی پیشکش کی ہے تو حیرت انگیز طور پہ ان ججوں نے اس معاملے میں صرف تردید سے ہی کام کیوں چلایا اور ان کے قائد کو عدالت میں طلب کرنے کا قدم کیوں نہیں اٹھایا اور ان سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ آپ نے ہمیں اپنے سیاسی مفاد میں گھسیٹنے کی کوشش کیوں کی اورہمارا نام کیوں استعمال کیا گیا  اور کیا آ پ کی اس بات سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ خدانخواستہ ہم آپ کے ساتھ نجی رابطے میں بھی ہیں اور یہ چیزیں آپ کے علم میں لاتے ہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو ایسی صورت میں ہماری ساکھ کیا باقی رہ پائے گی اور اس سے تو چونکہ عوام میں ہمارا اعتبار ہی مجروح کرنے کی شرمناک کوشش کی ہے تو کیوں نہ آپ کو اس قبیح حرکت اور قانونی جرم پہ قرار واقعی سزا دی جائے ۔  لیکن ایسا کچھ نہ ہونے پہ وہ اور عوام یہ سمجھنے پہ مجبور ہیں کہ ان عدالتوں کا معیار انصاف و مستعدی عمران خان کے لیے کچھ اور ہے اور ان کے حریفوں کے لیے کچھ اور۔ اس پہ عوامی وصحافتی و سماجی حلقوں کی طرف سے مسلسل انگشت نمائی بھی ہورہی ہے اور مسلسل سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں لیکن عمل کا پرنالہ ہے کہ اب بھی وہیں گر رہا ہے ۔ ایسے میں خان کے ناقدین اور نظریاتی کارکنان ان پہ کسی کے کھیل کی کٹھ پتلی یا کسی کے لاڈلے ہونے کا الزام لگاتے ہیں تو بظاہر اس میں بھلا ایسا غلط بھی کیا ہے؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply