ہاں تو میرے محترم انصافیو۔۔رانا اورنگزیب

ہم نے عمران خان کو ووٹ دیا تبدیلی کےلئے،انصاف کے لئے اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لئے۔
ہاں تبدیلی آئی  ہے،کہ پہلے سرکاری اہلکار چاہے وہ کسی بھی محکمے کے ہوں رشوت لیتے تھے چھپ چھپا کے ڈرتے ڈرتے۔افسروں نے اپنے ساتھ کچھ غیر متعلقہ لوگ بھی رکھے ہوۓ تھے جن کا ان کے محکمے سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا وہ لوگ سرکاری افسران کے لئے مڈل مین ایجنٹ یا دلال کا کام سرانجام دیتے تھے۔مگر اب ہر کوئی  براہ راست رشوت مانگ رہا ہے لے رہا ہے۔نہ کوئی  ڈر ،نہ کوئی  شرم۔

وزیراعظم پاکستان نے سیٹیزن پورٹل کے نام سے ایک اچھا قدم اٹھایا مگر وہ بیوروکریسی کی وجہ سے غیر مؤثر اور ایک روٹین کی کاروائی  بن چکا ہے۔سیٹیزن پورٹل سے کسی کا کوئی  بھلا نہیں ہورہا۔بلکہ سائل  زیادہ ذلیل ہورہا ہے۔
جن جن کے خلاف سیٹیزن پورٹل میں شکایات درج ہوئیں ان میں سے کسی ایک ذمہ دار کو بھی کوئی  سزا نہیں مل سکی۔بلکہ شکایت کرنے والا مفت میں خوار  ہوا۔

طریقہ کار یہ ہے کہ اگر آپ کو ایس ایچ او یا تھانہ محرر سے کوئی  شکایت ہے تو آپ سیٹیزن پورٹل پر ان کی شکایت درج کروا دیں۔وہ درخواست مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی  اسی تھانہ کے ایس پی سرکل کے پاس آۓ گی۔جہاں سے متعلقہ ایس ایچ او کو اطلاع ہوگی۔تھانہ سے شکایت کنندہ کو فون موصول ہوگا کہ آپ فلاں دن صبح نو بجے ایس پی آفس پہنچ جائیں۔شکایت کنندہ ایس پی صاحب کے دفتر میں جا کے بیٹھ جاۓ گا ایس پی صاحب دو بجے دفتر تشریف لا کر عوام کی سات پشتوں پر احسان فرمائیں گے۔اور بیسیوں لوگ جو اپنی اپنی شامت اعمال یا بدقسمتی کے نتیجے میں ایس پی صاحب کو ملنے پہنچے ہیں ان سے ملاقات فرمائیں گے۔سائل جس نے شکایت کی ہوئی  ہے وہ صبح سے اس وقت تک بھوک پیاس انتظار کی پریشانی سےپژمردہ ہوچکا ہوگا۔

پھر اس کو شہنشاہِ معظم ظل سبحانی مغل اعظم کے دربار میں دست بستہ حاضر ہونا ہوگا۔تیس سے چالیس سیکنڈ میں اس کو اپنے ساتھ ہوئی   زیادتی کی رپورٹ دینا ہوگی۔تین سے چار بار شکایت کنندہ کو اسی عمل سے گزار کے ایس پی کا ریڈر اس کو مفاہمت کے فائدے اہمیت اور ثمرات پر لیکچر دے گا۔اس سے ایک کاغذ  پر دستخط لے کر اس کی شکایت پر اس کو جھوٹا لکھ کے یا دونوں فریقین کے درمیان صلح دکھا کر داخل دفتر کردی جاۓ گی۔تقریباً90فیصد درخواستیں اسی عمل سے گزرتی ہیں۔فیڈ بیک پر ڈس لائیک کا آپشن آپ استعمال ہی نہیں کرسکتے۔یہ تو ہے وزیراعظم کے سیٹیزن پورٹل اور پولیس کی کہانی۔

اب ذرا سا دوسرے سرکاری محکموں کا جائزہ بھی لیں جہاں بااختیار اور بے اختیار،عوام اور خواص کے درمیان اتنا فرق حائل ہے جتنا ہندو معاشرے میں برہمن اور اچھوت کے درمیان۔
ہم پاکستانی ہیں مگر سرکاری محکموں میں جاکے علم ہوتا ہے کہ ہم ابھی مہاجر کیمپوں میں ہی پڑے ہیں جن کا کوئی  وطن نہیں ،جو آج بھی اتنے ہی اجنبی ہیں جتنے 1947میں تھے۔کسی بھی سرکاری دفتر چلے جائیں وہاں کا عملہ آپ کو ثابت کردے کا کہ آپ غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو غلطی سے سرحد پار کرکے آگئے ہیں۔پولیس واپڈا محکمہ مال ایکسائز کسٹم ان کو تو چھوڑیں کہ ان اداروں کی کرپشن سفارش اور رشوت ستانی مسلمہ بھی ہے اور ہر سطح پر منظور شدہ بھی۔

آپ کسی بینک میں چلے جائیں۔کوئی  بل جمع کروانا ہو،کوئی  رقم نکلوانی ریمیٹینس ہو یا کوئی  چالان فارم وغیرہ بھرنا ہو۔وہاں بھی اپنے واقفان اور سفارشیوں کو اندر بلا کے کرسی پیش کی جاتی ہے۔ان کا کوئی  بھی کام ہو مینجر صاحب کیشئیر حتی کہ سکیورٹی اہلکار کا واقف بھی سینہ چوڑا کرکے اپنا کام نکلوا لیتا ہے۔جبکہ عام عوام باہر دھوپ گرمی سردی میں قطار بنا کے ذلیل ہوتی ہے۔کھڑکی کے اندر بیٹھا شخص خود کو مغل اعظم سمجھتا ہے۔ایسے کام کرتا ہے جیسے باہر کھڑے لوگ اس سے صدقہ خیرات یا بھیک مانگنے کھڑے ہیں۔

ہسپتال میں جاکے دیکھیں۔وہاں پرچی بنانے والا عوام کو قطار میں لگا کے اپنے جاننے والوں کو پرچی بنا کے ساتھ ڈاکٹر یا متعلقہ شعبے کے انچارج تک چھوڑنے جاۓ گا۔اب اس کو کوئی  فکر نہیں کہ دور دراز سے آنے والا مریض جو تکلیف میں بھی اور سفر کی صعوبتیں بھی اٹھا کے آیا ہے۔کہیں اس کی باری آنے تک ڈاکٹر کی چھٹی کا وقت نہ  ہوجاۓ۔اگر پرچی بن گئی تو ڈاکٹر صاحب یا صاحبہ اپنے کسی مہمان کے ساتھ خوش گپیاں لگانے اور چاۓ پینے میں مصروف ہیں۔ اگرکبھی کسی نے  محکمہ تعلیم کے دفتر میں کوئی  فائل جمع کروائی  ہویا کسی کلرک بابو سے کسی کا واسطہ پڑا ہو۔تو اس شخص کو لگے گا کہ وہ کسی دربار میں کسی پرانے بادشاہ سلامت کو اپنی عرضی پیش کررہا ہے۔

محکمہ مال محکمہ انہارو آبپاشی محکمہ زراعت تحصیل دار قانون گو پٹواری یہ وہ محکمے اور افسر ہیں جن سے ذیادہ تر گاؤں دیہات کے غریب بے بس اور پسے ہوۓ طبقے کو واسطہ پڑتا ہے۔جن کو اپنی بات کہیں اور سنانے کا فن آتا ہے نا پہنچانے کا۔ان لوگوں کو جتنا یہ محکمے اور افسر نچوڑتے ہیں ڈراتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ آج بھی ہم پر برطانیہ کی حکومت ہے۔
ستر سال سے غلامی کرتی قوم کو اب خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنی آنے والی نسلوں کو ان مردار خور گِدھوں کے چنگل سے آزاد کروانا ہے یا پھر ہماری آئیندہ نسلیں بھی انہیں درندوں کی ہوس کا ایندھن بن کے مریں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انصاف کی توقع یہاں کسی سے کرنا چیل کے گھونسلے سے ماس تلاش کرنے جیسا ہے۔یہاں ہر وہ اندھا شکاری ہے جس کے پاؤں کے نیچے بٹیر آجاۓ۔سرکاری مشینری آج بھی عوام کو ویسے ہی ذلیل کررہی ہے جیسے پچھلے تہتر سال سے کرتی چلی آرہی ہے۔جس کو میری ان باتوں کا یقین نہ  ہو وہ بغیر سفارش بغیر کسی شناخت یا پرچی کے مذکورہ بالا کسی بھی محکمہ کے دفتر جا کے بینک یا ہسپتال جاکے دیکھ لے۔اور جو کبھی کسی بھی سلسلے میں تھانے نہ  گیا ہو وہ کہیں اپنے شناختی کارڈ کی گمشدگی کی رپورٹ کروانے تھانے تشریف لے جاۓ۔آٹے دل کا بھاؤ جنہیں نہیں بھی معلوم ان کے علم میں بھی اضافہ ہوجاۓ گا۔

Facebook Comments