گروہی تعصبات..سانول عباسی

ایک خبر پڑھی کہ پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت، پائنیر فیسٹیول کے عنوان سے کوئی سیمینار منعقد کروا رہی تھی کافی دنوں کی تھکا دینے والی محنت کے بعد پروگرام کی تمام تیاریاں مکمل تھیں جس دن پروگرام ہونا تھا اسی دن صبح چار بجے کے قریب قوم پرست پشتون و بلوچ قوم پرست تنطیموں کے لوگوں نے آ کے دھاوا بول دیا بہت زیادہ توڑ پھوڑ کی ٹینٹ کو آگ لگا دی انتظامی معاملات پہ مامور لوگوں کو زدوکوب کیا وہ سارے زخمی حالت میں ہسپتال میں ہیں اور انتظامیہ نے پروگرام کینسل کر دیا اس خبر کے ساتھ چند تصاویر بھی لگی ہوئی تھی جو جائے وقوعہ کی حالت زار بیان کر رہی تھیں سارا انتظام تہس نہس ہوچکاتھا۔

ایک اور خبر ساتھ ہی دیکھنے کو ملی کہ صوبہ پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں لسانی و صوبائی تعصب کی بنیاد پہ بلوچوں پہ انتہائی تشدد کیا گیا پنجاب بھر کی یونیورسٹیوں میں بلوچوں کے ساتھ لسانی و صوبائی عصبیت کی بنیاد پہ انتہائی کربناک سلوک کیا جاتا ہے اس بیانیہ کے ساتھ ایک نوجوان کی کچھ تصاویر تھیں جس کا سر پھٹا ہوا تھا اور وہ بے ہوش ہسپتال کے بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا اور خون کے داغ اردگرد آسانی سے دیکھے جا سکتے تھے اور ٹھیک انہی تصاویر کے ساتھ ایک پختون گروپ میں بھی بلوچ کی جگہ پختون لگایا ہوا تھا اور باقی معاملہ ایک جیسا بیان کیا گیا تھا اور اس میں ایک اضافہ یہ تھا کہ پختون سٹوڈنٹس کو لسانی و صوبائی عصبیت کی بنا پہ کلاس رومز اور ہوسٹل کے کمروں سے نکال کے ہراساں کیا جاتا ہے ان کو ذہنی کوفت و اذیت میں مبتلا کرتے ہیں اور آئے دن مختلف بہانوں سے ان پہ تشدد کیا جاتا ہے

یہ تمام خبریں پڑھنے کے بعد جب کمنٹس دیکھے تو لوگوں کی آراء میں بے رحمی اپنی انتہا پہ تھی جو صرف اور صرف قومی، مذہبی، لسانی، و صوبائی عصبیت میں اضافہ کا موجب ہو سکتی تھیں پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہم ایک قوم نہیں بلکہ کثیرالقومی افراد کا گروہ ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف بغض و عناد کے زہر سے بھرے ہوئے ہیں کسی لمحہ سازگار کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کوئی وقت آئے اور اپنا سارے کا سارا زہر انسانی رگوں میں انڈیل کر انسانیت کو فنا کر دیں۔

یہ خبریں پڑھنے کے بعد دل بیٹھ گیا ہمارے تعلیمی ادارے جہاں علم کا بول بالا ہونا چاہیے جہاں نروان و گیان کے چشمے بہنے چاہییں جہاں محبت یگانگت و بھائی چارے کو فروغ ملنا چاہیے جہاں اختلاف رائے کا علمی انداز میں احترام سکھایا جانا چاہیے جہاں ہر قسم کے مذہبی قومی لسانی و صوبائی عصبیتوں کی بیخ کنی ہونی چاہیے وہیں پر ہی یہ لاوا پک رہا ہے اور جان کر بہت دکھ ہوا کہ ہمارا حال تو بدتر ہے ہی، ہمارا مستقبل اس سے بھی بدترین ہو گا کیونکہ ایسے ماحول سے مکمل طور پہ زہر آلود ہو کے جب ہمارے معمارِ قوم عملی زندگی میں سماجی اقدار کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لیں گے تو درندگی و وحشت ہی سماج میں پنپے گی کوئی بہتری کی امید کیونکر ہو سکتی۔

ہم لوگ کتنے بےحس ہیں کہ جو مسائل ہماری توجہ کے منتظر ہیں انہیں ہم نے پس پشت ڈال رکھا ہے جن مسائل کی وجہ سے ہماری سماجی زندگی تاریکیوں کی دلدل میں ڈوبتی چلی جا رہی ان پہ ہم نظر کرم کرنا گوارا ہی نہیں کرتے کیونکہ ہمیں طرح طرح کی عصبیتوں سے فرصت ہی نہیں۔ ہماری سماجی کسمپرسی کا عالم یہ ہے کہ کھانے کو روٹی نہیں پہننے کو کپڑا نہیں اور تن پہ فقط چیتھڑے رہ گئے ہیں ،تعلیم صحت امن و امان الغرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں ہمارا استحصال نہ ہو رہا ہو مگر ہمیں فرصت ہی نہیں ہم خود ہی قاتل ہیں خود ہی مقتول ہیں اور خود ہی روتے ہیں مگر ہمیں خبر ہی نہیں۔

مذہبی لسانی قومی و صوبائی تعصبات نے ہماری بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے ہمارا قومی تشخص انتہائی مسخ ہو چکا ہے ،نظریاتی وحدت کو ہم نے بری طرح سے تار تار کر دیا ہے، گروہی تعصبات کے نام پہ پلنے والے رویہ نے ہمارے سماج میں تشدد ،فرقہ واریت اور تقسیم در تقسیم کے لامتناہی تسلسل کو جنم دیا ہے اور ہمارا یہ طریق سرمایہ دارنہ استحصالی طبقہ کو ہم پہ تسلط، وسائل پہ قبصہ کا جواز اور طاقت فراہم کرتا ہے اور دن بدن ان کا یہ تسلط مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں صرف سنگین سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں کب ہوش آئے گا کب تک ہم غیر انسانی عصبیتوں کو بنیاد بنا کے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہیں گے ہم یہ جانتے بھی ہیں کہ ہماری حیثیت مہروں سے بھی کمتر ہے لیکن پھر بھی ہم آلہ کار بنے ہوئے ہیں، مفاد پرست سرمایہ دار طبقہ ہماری بوٹیاں نوچنے کے درپے ہے مگر ہمیں ادراک ہی کب ہے ،باہم دست و گریباں نہ پیٹ میں روٹی نہ تن پہ کپڑا، لے دے کے یہی بچے رہ جاتے ہیں وہ بھی ان ہوس پرست درندوں کے مفاد کی نظر ہو جائیں تو زندگی کا کیا حاصل ؟یہ حیوان نما آدم خور درندے اپنی ہوس کی تسکین کے لئے ہمارے بچوں کو استعمال کرتے ہیں انتہائی سفاکی سے ہماری نفسیات سے کھیلتے ہیں اور ہمیں ان کا مفاد اپنے حقوق کی جنگ محسوس ہوتی ہے ہمیں مذہبی ،لسانی، قومی اورصوبائی تعصبات کی عفریت سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے ہمارا مسئلہ یہ تعصبات نہیں ،ہمارا مسئلہ اپنی ذات کی بقاء ہے اپنے مستقبل کی بقاء ہے ان تعصبات سے نجات ہے اگر ہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو یہ مفاد پرست عناصر ہمیں اپنے وحشیانہ مقاصد کے حصول کے لئے ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتے رہیں گے۔ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کون مر رہا ہے کون جی رہا ہے ان کے لئے فقط ان کے مفاد کی اہمیت ہے اور اس بات پہ تمام استحصالی مفاد پرست طبقہ ایک دوسرے سے متفق ہے اور انتہائی منظم و ہر ممکن طریقے سے ایک دوسرے کے مفاد دفاع کرتے ہیں، ہم ہی نہیں سوچتے۔ہمارا منقسم رویہ ہی ان کی طاقت ہے۔

 

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply