جمہوریت اور تصورِ خلافت

جدید عمرانیات میں انقلاب پورے اجتماعی نظام (سیاسی، معاشی اور معاشرتی) یا اُس کے کسی ایک گوشے (جو سیاسی بھی ہو سکتا ہے، معاشی بھی اور معاشرتی بھی) میں کسی بنیادی تبدیلی کو کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب فرانس میں بادشاہت (فردِ واحد کی حکمرانی) کی جگہ جمہوریت (عوام کی حکمرانی) نے لی تو اِسے انقلابی تبدیلی سے تعبیر کیا گیا۔ اِسی طرح جب روس میں سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ اشتراکیت نے لی تو اُسے بھی انقلابی تبدیلی سے تعبیر کیا گیا۔

تاریخِ انسانی میں اِن دونوں انقلابات سے بھی زیادہ جامع اور گمبھیر تر انقلاب 14 سو سال پہلے جزیرہ نماۓ عرب میں حضرت محمدﷺ نے بھی برپا کیا تھا۔ نہ سیاست پہلے جیسی رہی، نہ معیشت کے اصول پہلے جیسے رہے اور نہ ہی معاشرت پہلے جیسی رہی۔ آپؐ نے دنیا میں صدیوں سے چلے آ رہے تصورِ حاکمیت کو بدل کر خلافت کا تصور پیش کیا۔ اِسے تنگ نظری کہیں یا تعصب لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ جدید دور کے تاریخ دانوں اور مفکرین کی اکثریت نے اُس ہمہ گیر انقلاب کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنی آنکھیں چراۓ رکھیں یا بند کیے رکھیں۔ اگر مائکل ایچ ہارٹ جیسے کسی مفکر یا تاریخ دان نے آپؐ کی ہمہ گیر شخصیت کا ادراک کر کے اُسے تسلیم کرتے ہوۓ اپنی کتاب میں تاریخِ انسانی کی ١٠٠ پُراثر شخصیات میں آپؐ کو تاریخِ انسانی کی سب سے زیادہ پُراثر شخصیت قرار دیتے ہوۓ پہلا نمبر دیا تو مین اسٹریم سے اُسے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔

ہر نبی اللہ کا خلیفہ یا نائب ہوا کرتا تھا۔ گویا نبیِ اکرمؐ تک خلافت انفرادی رہی۔ چونکہ نبیِ اکرمؐ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تھا تو آپؐ نے خلافت کے ادارے کی تشکیل کر کے انفرادی خلافت کو اجتماعی یا عوامی خلافت میں بدل دیا۔ گویا اب ایک فرد کی جگہ پوری امت اللہ کی خلیفہ یا نائب قرار پائی۔ لوگ اپنی نیابت یا خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے باہم جِس شخص کو بھی زیادہ موزوں تصور کریں اُسے بطور نمائندہ اپنا خلیفہ چن لیں۔
یہ تصور بالکل غلط ہے کہ جمہوریت کی بنیاد فرانس کے انقلاب نے رکھی۔ فرانس کے انقلاب نے تصورِ حاکمیت کو انفرادی سے اجتماعی شکل عطا کی۔ گویا خلافت جو 14 سو سال پہلے انفرادی سے اجتماعی ادارے کی صورت اختیار کر چکی تھی، اُس کے مقابل تقریباً ایک ہزار سال بعد فرانس میں انفرادی حاکمیت نے اجتماعی حاکمیت کی صورت اختیار کی۔ مغرب میں رونما ہونے والی اِسی تبدیلی کو علامہ اقبال نے اپنی نظم ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں ابلیس کے منہ سے کچھ اِس انداز میں بیان کیا کہ

؎ ہم نے خود مغرب کو پہنایا ہے جمہوری لباس،
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

جب ہم جمہوریت کو فرانس کے انقلاب سے جوڑتے ہیں تو نتیجہ فطری طور پر وہی نکلتا ہے جو عام مذہبی رجحان رکھنے والے کسی بھی شخص کے ذہن میں ابھر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت جمہوریت کو اسلام کی ضد اور شرک قرار دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی ضد یا شرک جمہوریت کا تصور نہیں بلکہ وہ تصورِ حاکمیت ہے جسے اسلام نے آ کے تصورِ خلافت سے بدلا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جمہوریت کو تصورِ حاکمیت کے آئینے میں دیکھ کر اُس کی نفی کرنے والے بالکل وہی غلطی دوبارہ دوہرا رہے ہیں جو وہ اِس سے پہلے ارتقاء کو ڈارون کے نظریہ سے جوڑ کر ارتقاء ہی کی نفی سے کر چکے ہیں۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”جمہوریت اور تصورِ خلافت

Leave a Reply