پی ایس ایل فائنل لاہور،ٹکٹوں کی تقسیم اور انتظامیہ

پی ایس ایل فائنل لاہور،ٹکٹوں کی تقسیم اور انتظامیہ
طاہر یاسین طاہر
پی ایس ایل کرکٹ کا فائنل لاہور میں کرانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کسی بھی صورت دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں۔لاہور مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے سے بھی اس بیانیے کو تقویت ملی کہ بھارت اور ملک دشمن قوتیں پاکستان کے میدان ویران کرنا چاہتے ہیں۔2009میں بھی لاہور ہی میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا،بس ڈرائیور کی حاضر دماغی سے سری لنکن کھلاڑی جان سے تو بچ گئے مگر سری لنکن ٹیم اسی دن اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس وطن لوٹ گئی تھی۔دہشت گردی پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔اس سے نمٹنے بغیر ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
سی پیک، ملک کا ایٹمی طاقت،خطے میں ہونےو الی سیاسی و سماجی تبدیلیاں اور جنگی ماحول ضرور اثر انداز ہو تا ہے۔تازہ بیانیے کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ بھارت،اسرائیل،افغانستان،دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے سی پیک منصوبے کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔یہ امر واقعی ہے کہ دہشت گردی کی کئی وجوھات ہیں جو ایک دوسری کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔میدان جب غیر آباد ہوں گے تو اس کا لازمی منفی اثر سماجی رویوں پر پڑے گا۔مگرغیر ملکی کھلاڑیوں کی لاہور آمد سےدنیا میں مثبت پیغام بھی جائے گا۔ ریاست اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔ آرمی چیف نے کہہ دیا کہ پی ایس فائنل کے لیے سیکیورٹی کی تمام تر ضروریات پوری کی جائیں گی۔اگرچہ پی ایس ایل فائنل کے دوران بلکہ اس سے قبل ہی لاہور بالخصوص قذافی سٹیڈیم کے اطراف کی سیکورٹی انتہائی فول پروف بنا دی گئی ہے۔ اگلا مرحلہ تماشائیوں اور ٹکٹوں کی فروخت کا ہے۔ہمیشہ ٹکٹ پہلے فروخت ہوتے ہیں،لیکن مخصوص حالات کے پیش نظر جب ریاست اپنے شہریوں کو یہ پیغام اور یقین دلانے میں کامیاب ہو گئی کہ پی ایس ایل فائنل کے لیے سیکیورٹی فول پروف ہے تو ٹکٹوں کے حصول کے لیے لوگوں کا گھروں سے نکل کر قطاروں میں لگ جانا قابلِ دید بھی ہے اور قابل ِذکر بھی۔
لاہور میں اتنی سخت سیکیورٹی میں پی ایس ایل فائنل کرانے پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید بھی ہو رہی ہے۔مثلاً پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ کرفیو لگا کر تو شام اور عراق میں بھی کرکٹ میچ کرایا جا سکتا ہے۔ان کا مطلب یہ ہے کہ میچ سے قبل ہی لوگوں کے لیے سیکیورٹی کے نام پر جو مشکلات پیدا ہو گئی ہیں وہ کسی طور جمہوری رویہ نہیں ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف نے ایک غیر ملکی میڈیا ہاوس کو انٹرویو دیتے کہا تھا کہ اگر ہم یہ فائنل لاہور میں نہیں کراتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دہشت گروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔اگر اس فائنل کے لیے بھرپور سکیورٹی فراہم کی جاسکتی ہے تو اسے ہر حال میں لاہور میں ہی ہونا چاہیے۔ سابق صدرپرویز مشرف کا یہ بھی کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی کا مقصد اسی فائنل کو روکنا تھا اور اگر ہم لاہور میں فائنل نہیں کراتے تو ہم دہشت گردوں کا مقصد پورا کردیں گے۔سابق صدر نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے پر سخت افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس کا سب سے بڑا نقصان پاکستانی شائقین کو ہوا ہے جو ملک میں کرکٹ دیکھنے سے محروم ہیں۔انہوں نے سری لنکا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں دہشت گردی کے باوجود کرکٹ نہیں رکی۔ لیکن پاکستان میں صرف ایک واقعے کو بنیاد بناکر اسے کئی برسوں سے انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم کردیا گیاہے ۔
اگرچہ تنقیدی رویہ ہمارا سماجی رحجان ہے،مگر ملک میں کرکٹ،ہاکی،فٹ بال سمیت کھیلوں کے میدان آباد کرنے کے لیے حکومت کو اپنا کردار جاندار بنانے کی ضرورت ہے۔فول پروف سیکیورٹی اور تقریباً کرفیو کی سی صورتحال میں میچ تو ہو جائے گا مگر یہ مستقل حل نہیں۔نیز یہ بھی خبریں ہیں کہ حکومت نے اپنے ایم پی ایز،ایم این ایز کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب سے لوگ گراونڈ لے کر آئیں۔اگر اس بات میں صداقت ہے تو یہ قابل افسوس بات ہے۔نیز یہ کہ قطاروں میں ٹکٹ کے حصول کی خاطر آنے والوں پر پولیس کی چڑھائی اور شائقین کی پولیس سے ہاتھا پائی کے بعد رینجرز کی طلب پر بھی سوالیہ نشان ضرور ہے۔کیا میچ والے دن بھی تماشائیوں کو پولیس ڈنڈوں سے خوش آمدید کہا جائے گا؟
زیادہ رش اور انتظامی مشکلات سے بچنے کے لیے ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ تمام ٹکٹوں کی فروخت آن لائن کی جاتی اور آن لائن ہی رجسٹریشن نمبر جاری کر دیے جاتے۔تماشائی اپنے ٹکٹ نمبر کا پرنٹ آوٹ لے کر متعلقہ گیٹ سے سٹیڈیم میں داخل ہو جاتے اور آرام سے میچ دیکھتے۔پاکستانی شائقین کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں،انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ ہر چیز کو ڈنڈوں سے ٹھیک کرنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کرے۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ غیر ملکی کھلاڑی ضرور لاہور آئیں گے اور انشا اللہ العزیز ہم اپنے جذبے اور وطنیت سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو شکست ضرور دیں گے۔انتظامیہ کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اس خوف کو ختم کرے کہ میچ والے دن تماشائیوں کو پنجاب پولیس کے روایتی انداز میں خوش آمدید یا الوداع کہا جائے گا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply