سوشل میڈیا سائٹس اور ساس بہو سازش

سوشل میڈیا پہ اردو بلاگرز اور دانشوروں کی دن بہ دن بڑھتی تعداد دیکھ کر ایک جانب خوشی ہوتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اردو اور اردو ادب سے رشتہ بنائے ہوئے ہے ؛مگر دوسری طرف انہیں لکھنے والوں کے درمیان سیاست اور جھوٹے الزامات کا سلسلہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ سیاست جو کبھی سٹار پلس کے ڈراموں کا حصہ تھی اب آپکو اسی سوشل میڈیا کے طفیل اصل زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ خود سے آگے بڑھتا دیکھ کر رشک کے بجائے حسد کا جذبہ پالا جاتا ہے۔ کئی بار آپ کے وہ فیسبک دوست جو ایک کارواں بن کے آپ کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور ہر قدم پہ آپکو یقین دلاتے ہیں کہ وہ آپ سے مخلص ہیں، وہ بھی موقع ملتے ہی بروٹس بن کر پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہیں۔
کیا ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں جو انسانیت اور دوستی کے دعووں کے ساتھ، اپنے فائدے کے لئیے، محبتیں جتاتے ہیں اور جیسے ہی کوئی اور مفاد پورا کرنے والا دوست ملے تو الزامات کی بوچھاڑ، مانو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
دوستی کے نام پہ کھلواڑ سوشل میڈیا کے وجود کے ازل سے ہی چلا آ رہا ہے۔ بنا دیکھے پہچانے ہم دوست بنا لیتے ہیں، نامانوس سے مانوس کا حصہ بنا لیتے ہیں اور پھر جب وہی دوست آپ پہ وار کرتے ہیں تو آپ کو دکھ ہوتا ہے ۔
سب سے دلچسپ داستان ان بلاگ سایٹس کی ہے جو ابھی اپنا مقام بنا رہی ہیں۔ ان سائیٹس کے ساتھ ہی اک نیا رویہ سامنے آیا ہے۔ یہ سایٹس ایک پلیٹ فارم ہیں جو ایسے “مہان لکھاری” پیدا کرتی ہیں جو اس سے قبل کسی کی پوسٹ پہ کمنٹ کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ یہ سایٹس نئے لکھاریوں کو “گروم” کرتی ہیں، اور یوں ان مہان لکھاریوں کو شروع میں چار لوگ اور پھر چار سو اور کچھ کو ہزار لوگ پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ مگر یہ لکھاری “ایک اعلی مقصد” رکھتے ہیں سو یہ سائیٹ ایدمنسٹریشن کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ سائیٹ کے نظریے سے کسقدر مخلص ہیں اور کسی نا کسی طرح ایڈمنسٹریشن کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ مزید ازاں ذاتی تعلقات بنایے جاتے ہیں اور تحفے دے کر، چاپلوسی کر کے یقین دلایا جاتا ہے کہ بس ان کے علاوہ آپکا سگا تو کوئی ہے ہی نہیں۔ دراصل دور سے یہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ شاید سائیٹ بہت پیسہ کما رہی ہے اور یہ امید رکھتے ہیں کہ شاید انکو بھی حصہ ملے گا۔ اب اگر ایسے میں مکالمہ کی طرح سایٹ مدیر کی ذاتی جیب سے چل رہی ہو تو مایوسی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ کسی کے والد کا کاروبار یکدم انکو آواز دیتا ہے تو کسی کو شکوہ ہوتا ہے کہ مدیر نے مجھے پورا ہفتہ ہو گیا “پلیز مضمون دیں” کیوں نہیں کہا۔ کسی کی امی اسکو مجبور کرتی ہیں اور کسی کو مہینوں چپ چاپ ساتھ چلنے کے بعد یاد آتا ہے کہ سائیٹ کے مقاصد اعلی نہیں ہیں۔ اور کسی کو یہ شکایت ہو جاتی ہے کہ آپکی سائیٹ پر فلاں رایٹر کیوں چھپتا ہے جبکہ وہ تو چترالی رسالوں والی کہانیاں لکھتا ہے۔ ان لوگوں میں اتنا حوصلہ بھی نہیں ہوتا کہ کہ سکیں کہ ہم بک چکے یا بکنا چاہتے ہیں۔ اب یہ اپنی قیمت لگواتے ہیں اور کوئی دوسرا ادارہ دھونڈ کر انکو خدمات پیش کرتے ہیں۔ نئے مدیر کو نا صرف اپنی خدمات یہ کہ کر پیش کی جاتی ہیں کہ پچھلی سائیٹ تو بس میرے بھروسے تھی بلکہ “بندے توڑ کر لانے” کا وعدہ بھی ساتھ ہوتا ہے۔ سو اب نئے سائیٹ مالک کے بکرا بننے کی باری ہے۔
ایسے میں سب سے قابل رحم حالت انکی ہوتی ہے جو ایک ہفتہ قبل کسی اور کے چھوڑنے پر تو غصے میں پوسٹ کرتے ہیں کہ “ملو ڈاٹ کام چھوڑ کر جانے والے لوٹے ہیں” اور ایک ہفتے بعد شرمندہ ہوے بغیر پوسٹ لگاتے ہیں کہ ” دلو ڈاٹ کام پر میری پہلی تحریر پڑھئے”۔ ہائے غیرت جس کا نام تھا گئی تیمور کے گھر سے۔ ویسے یہ دل میں سو نفل کی نیت بھی کر لیتے ہیں کہ پرانی تحریر کسی کو یاد نا آئے۔
سوشل میڈیا سے ابھر کر آنے والی سایٹس ابھی ابتدائی شکل میں ہیں۔ ان سایٹس کے بڑوں کو چاہیے کہ کوئی ضابطہ اخلاق ترتیب دیں، ہایرنگ اور فایرنگ پروسیجرز ترتیب دیں تاکہ یہ رویہ دم توڑے۔ گو ان سایٹس پر لکھنے والے اکثر والنٹیر ہوتے ہیں مگر کوشش کی جایے کہ ایڈمنسٹریشن میں فقط پروفیشنل لوگوں کو لیا جایے اور انکو پے کیا جایے۔ مزید ازاں سایٹس ایک دوسرے کے لوگ توڑنے سے پرہیز کریں تاکہ ایسے مفاد پرستوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ ہم لوگوں نے سوشل میڈیا اور ان سائیٹس کو اپنایا کیونکہ ٹی وی چینلز پر ہونے والے اسی لوٹا کریسی اور ساس بہو سازش رویئے نے اسے اور اسکے سیلیبریٹیز کو ہماری نظر سے گرا دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ان سائیٹس کا بھی یہی حال ہو، “دوستوں سے بچ کر کہ یہ سوشل میڈیا ہے مری جان”۔

Facebook Comments

عائشہ اذان
سچ سے سوچ کے خوابوں کو قلمبند کرنے کی خواہش میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply