دہشت گرد ۔۔

دہشت گرد
جانی خان
بس تو وہی تھی جو میری روٹین کی تھی مگر کُچھ تو تھا جو روزانہ کی روٹین سے ہٹ کر تھا۔ شاید بس کا ڈرائیور۔ آج میں جس ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کا حُلیہ,عُمر و انداز پُرانے ڈرائیورسے مُختلف تھا۔ بکھری سی داڑھی و لمبے سے بال ۔یوں لگتا تھا جیسے کنگھی کو ان کے قریب سے گُزارے زمانہ گُزر گیا ہو ۔اور کُھلے آستین و گریبان۔جبکہ پُرانا ڈرائیور ایک سُلجھا ہوا اور شریف انسان نظر آتا تھا.
بس ڈرائیور کے علاوہ ایک اور شخص تھا جو میری توجہ کا مرکز بنا۔خُوبصُورت کالے تھری پیس سُوٹ میں ملبُوس اس کلین شیو شخص کے بال خُوبصورتی سے بنائے گئے تھے اور اپنی کھڑی ناک پراُس نے کالاچشمہ رکھا تھا۔اس کے علاوہ چمک دار جوتوں کے قریب ایک کالے رنگ کا بریف کیس نُما بیگ رکھا ہوا تھا۔ مُجھ سے ایک نشست آگے کو بیٹھے اس شخص کو دیکھ مُجھے کُچھ عجیب سا لگا۔کیونکہ جو اُس کا حُلیہ تھا اُس حساب سے تو اُسے کم از کم کسی ہونڈائی اکارڈ یا ٹویوٹا کرولا میں ہونا چاہیئے تھا۔مگر یہ یہاں اس پٹیچر سی بس میں سفر کر رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس کُچھ دیر رینگتی رہی اور آخر میری منزل آ ہی گئی۔میں نے مکرانی سیاح فام کنڈیکٹر کو اشارہ کیا تو اُس نے پہلے تو زور سے دروازے پر ہاتھ مارا اور پھر پان کی پچکاری سے ایک راہگیر کو کُچھ رنگتے ہوئے ۔۔روک کے اُستاد ۔۔کی سدا بُلند کی۔ اس کے ساتھ ہی بس ایک جھٹکے سے رُکی۔
جیسے ہی میں نے بس سے نیچے قدم رکھا تو اگلے دروازے سے اُس سُوٹ بُوٹ والے کو بھی نیچے اُترتے دیکھا۔۔مگر اُس کے ہاتھ میں کوئی بریف کیس نہیں تھا۔میں سمجھا شاید بس میں ہی بھُول آیا ہوگا،کہ اُس نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک ریموٹ نُما آلہ نکال کر اُس کے اینٹینے کو سیدھا ہی کیا تھا کہ اچانک کہیں سے نُمودار ہوتے دو افراد میں سے ایک نے اُس کو پیچھے سے دبوچا اور دُوسرے نے اُس کے ہاتھ سے ریموٹ چھینا۔
بس جو کہ کُچھ دُور ہی گئی تھی کہ ایک دم سے رُکی۔ اور اُس کو چاروں اطراف سے پولیس اور اینٹی ٹیرارزم سکواڈ کی گاڑیوں نے گھیرا۔ اتنے میں اُس کے آوارہ قسم کے ڈرائیور کو اس طرف تقریباً ًًًدوڑ لگاتے دیکھا جس طرف اُس سُوٹ بُوٹ والےکو دبوچا گیا تھا۔یہ سب کُچھ اتنی تیزی سے ہورہا تھا کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
میں کہانی کو تھوڑی ہی دیر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہےاور یقینا ًیہ ڈرائیور اس مُبینہ دہشت گرد کا ساتھی ہے جو اسے بچانے آرہا ہے۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے وہاں تھوڑی دیر میں جمع ہونے والے سیکیورٹی اہل کاروں کو آواز لگائی کہ ۔۔بچو وہ ادھر ہی آرہا ہےاپنے ساتھی کو بچانے ۔۔ مگر اگلے ہی لمحے مُجھے شرمندگی سی ہوئی جب وہاں موجُود اہل کاروں کو اُس میلے کُچیلے داڑھی والے ڈرائیورکو سلیوٹ مارتے دیکھا۔
یہ خُفیہ اداروں کی طرف سے ایک مُنظم قسم کی کارروائی تھی۔جسے انتہائی خُفیہ طریقے سے سرانجام دیا گیا تھا۔وہ اس کلین شیو دہشت گرد کا پیچھا بڑے عرصے سے کر رہے تھے کہ آج رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔۔اور وہ میلا سا بکھری ہوئی داڑھی والا اس مشن کو لیڈ کر رہا تھا۔یہ سب دیکھنے کے بعد۔ پہلے تو اللہ کا شُکر ادا کیا کہ اُس نے جان سلامت رکھی۔ اور پھر یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھا کہ،کیا وقت آگیا ہے۔ جب داڑھی جو کہ مذہب اور بُزرگی کی نشانی ہوتی تھی ۔اُس کے رکھنے والے کو دہشت گرد مانا جاتا ہے اور کلین شیو کہ جسے کرنے کے لیئے ایک زمانے میں اچھی خاصی ہمت درکار ہوتی تھی کہ لوگ مذاق اُڑاتے تھے۔ کو برائٹ مائنڈڈ و لبرل مانا جاتا ہے۔ جبکہ ہر کلین شیو والا برائٹ مائنڈ والا نہیں ہوتا اور نہ ہی ہر داڑھی والا دہشت گرد۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply